نوازشریف‘ پاکستانی پارسیوں کے درمیان

ہم نے قیام پاکستان کے وقت اس خطے میں رہنے والے غیر مسلموں سے بلند بانگ وعدے کیے تھے۔ پاکستان کی سرحدوں میں رہ جانے والے مسیحی، ہندو، پارسی، سکھ اور دوسرے غیر مسلموں کو ان کی جان و مال کے تحفظ کا یقین دلایا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ وہ آئین کی رو سے پاکستان میں برابر کے شہری سمجھے جائیں گے لیکن جس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور ہوتے ہیں، کچھ وہی حال ان سے کیے جانے والے وعدوں کا ہوا ۔

اس پس منظر میں 20 اگست کی رات وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں پارسیوں کے ایک منتخب اجتماع میں جب یہ کہا کہ میں پارسی کمیونٹی کی تقریب میں شرکت پر بہت خوش ہوں، تو قدرے حیرت ہوئی ۔ جی چاہا کہ وہ مسیحیوں ، ہندوؤں اور پاکستان میں رہ جانے والے گنتی کے سکھوں کے ساتھ بھی خصوصی ملاقاتیں کریں۔

ان کے گلے شکوے سنیں اور یہ جانیں کہ اگلے تین برسوں کے لیے جس ملک کو چلانے کی ذمے داری ان کی ہے، وہاں رہنے والے یہ لوگ کس طرح حاشیوں پر زندگی گزارتے ہیں اور ہر لمحہ جان و مال کے جانے اور عزت و آبرو کے لٹ جانے کے خوف میں گرفتار رہتے ہیں۔

پارسی ایک شاندار ماضی رکھنے والی اداس اور تنہا قوم کے وہ لوگ جو ساتویں صدی عیسوی میں زندگی اور اپنے عقائد بچانے کے لیے ایران سے بھاگ کر ہندوستان کے ساحلی شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔ برادری میں شادی کرنے پر اصرار اور روایت نے ان کی تعداد کو گھٹانا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنھیں شادی کر کے اپنی نسل بڑھانے سے دلچسپی نہیں رہی تھی۔

پاکستان میں رہ جانے والے پارسیوں کی بات کرنے سے پہلے انیسویں صدی کے وہ پارسی یاد آتے ہیں جنھیں اگر اردو تھیٹر کا باوا آدم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ ان میں سے کئی نے پہلے گجراتی میں ڈرامے لکھے اور پھر تقریباً سب نے اردو کو اختیار کیا ۔1857 ء کے بعد سے کابراجی، کی خسرو نوروز جی، نسروان جی، فرام جی، گستاؤ جی نے جی جان سے اردو تھیٹر کے لیے کام کیا۔ ان لوگوں نے آغا حشر کا شمیری کو اردو تھیٹر کی راہ دکھائی اور وہ سفر جو آغا حشر نے کاؤس جی کھٹاؤ کی تھیٹر یکل کمپنی سے شروع کیا تھا اس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا اور اردو ادب کو متعدد شاہکار ڈرامے دیے ۔

سندھ اور بہ طور خاص کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے۔ پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوں نے ابتدائی عمر سے ہی پارسی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کر سکے گی۔

اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ سیٹھ شاپور جی ہرمز جی سپاری والا اور ان کا خاندان تھا جس نے 1859ء میں بائی ویرجی سپاری والا اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اسکول جو اس وقت پارسی بالک شالہ ( بچوں کا مکتب) کہلاتا تھا، دادا بھائی پالن جی پے ماسٹر کے گھر میں قائم کیا گیا تھا، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بڑھی تو بالک شالہ کی عمارت چھوٹی پڑ گئی۔

شاپور جی ہرمز جی اپنی بیگم کے عاشق زار تھے۔ وہ 1869ء میں سورگ سدھار گئیں تو شاپورجی نے مئی 1870ء میں اسکول کو دس ہزار روپے کی خطیر رقم عطیہ کی۔ شرط صرف یہ رکھی کہ اسکول ان کی سورگ باشی پتنی بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب ہو گا۔ اسکول کے ٹرسٹی حضرات کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اُس وقت کے دس ہزار روپے آج کے لاکھوں روپوں کے برابر تھے۔ ستمبر 1870ء میں بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب اس تعلیمی ادارے کا افتتاح سندھ کے کمیشنر سر ولیم میری ویدر نے کیا اور پارسی کمیونٹی کے ایک محترم فرد جمشید جی فرام جی ماسٹر، اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔

اکتوبر 1904ء میں اس تعلیمی ادارے کے بنیاد گزار سیٹھ شاپور جی ہرمز جی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے کراچی کی مشہور سڑک وکٹوریہ روڈ پر اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس میں آج بھی یہ اسکول قائم ہے ۔ 1909 ء میں اسکول 50 برس کا ہوا تو اس کی گولڈن جوبلی منائی گئی۔

پہلی جنگ عظیم ہندوستان کی تمام برادریوں کے لیے مشکلات لے کر آئی تھی۔ نچلے متوسط طبقے کے پارسی بھی مسائل کا شکار ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ 1919 ء میں دو مخیر پارسی خاندانوں کاؤس جی اور ویربائی جی واری والا نے غریب بچوں کیلیے ایک ٹرسٹ قائم کیا جو ان بچوں کو دوپہر کا کھانا اور لباس مہیا کرتا تھا۔ اس فنڈ کو ’بھوجن فنڈ ‘ کا نام دیا گیا۔ یہ آج تک قائم ہے اور اپنا کا م کر رہا ہے ۔

1920 ء سے 1946ء کے دوران اسکول کی عمارت میں توسیع ہوئی اور اسے ہائی اسکول کا درجہ ملا۔ یہ کراچی کا وہی مشہور و معروف اسکول ہے کہ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد بانیء پاکستان نے اس کے پرنسپل بہرام رستم جی سے درخواست کی کہ اس میں غیر پارسی بچوں کو بھی داخلہ دیا جائے۔ یہ درخواست انھوں نے اپنے عزیز دوست جمشید نسروان جی سے بھی کی تھی۔ اس کے بارے میں ہمارے معتبر اور مشہور انگریزی کالم نگار ارد شیر کاؤس جی نے لکھا کہ جناح صاحب پاکستانی قوم کے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے شدید پریشانی میں مبتلا تھے۔

کاؤس جی لکھتے ہیں کہ ’’کراچی میں موجود اسکولوں کا سروے کیا اور ان بے شمار بچوں کی تعلیم کے لیے منصوبے تیار کیے جو حالات کی وجہ سے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں جو اسکول موجود تھے، وہ انھیں بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کر سکتے تھے لیکن ان جیسا عظیم شخص یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ انھوں نے پارسی برادری کے نامور افراد سے ملاقات کی جن میں جمشید نسروان جی، پستن جی سپاری والا، اردشیر مام (ماما پارسی اسکول کے بانی) اور رستم فقیر جی کاؤس جی شامل تھے۔

انھوں نے کوئی ’’مطالبہ‘‘ نہیں کیا بلکہ اپنے مقصد کی وکالت کی اور کہا: کیا آپ براہ مہربانی مدد کریں گے؟ انھوں نے کہا: آپ کی برادری دو بڑے منظم اسکول چلا رہی ہے یعنی بی وی ایس اور مام۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ٹرسٹ اسکول ہیں جو صرف پارسی برادری کے بچوں کے لیے قائم کیے گئے ہیں مگر میری درخواست ہے کہ آپ اس نئی قوم کے مسلمان بچوں کو بھی عارضی طور پر ان اسکولوں میں آنے دیں جب تک میں نئے اسکول نہ تعمیر کر لوں، بمبئی میں ایک وکیل کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے انھوں نے متعدد پارسی اوقاف کے کاغذات تیار کیے تھے اور وہ اس کی پیچیدگیاں سمجھتے تھے۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ ساری برادری کو اعتماد میں لیا جائے اور ان سے ان کی مرضی دریافت کی جائے۔ چنانچہ پارسی انجمن کا ایک اجلاس بلایا گیا جس میں متفقہ طور پر یہ کہا گیا کہ یہ اسکول بچوں کی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے تھے اس لیے ان میں داخلے کے لیے مذہب اور نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں پارسی اسکولوں کے دروازے فوری طور پر کراچی کے مسلمان اور دوسرے غیر پارسی بچوں کے لیے کھول دیے گئے اور وہ بھی عارضی طور پر نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے‘‘۔

پاکستان اور بہ طور خاص کراچی کے لیے پارسیوں کی خدمات بے مثال ہیں۔ جمشید نسروان جی کے علاوہ اواری، بھنڈارا، کھوری، دارو والا، کھمباٹا اور مارکر خاندانوں نے تعلیم اور سماجی خدمات کے علاوہ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں سے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا حصہ ڈالا، ان کے بحری جہاز سات، سمندروں کا سینہ چیرتے رہے اور ان کے تخلیقی ذہن نے بپسی سدھوا جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار کے وسیلے سے پاکستان کو جدید عالمی ادب کے نقشے پر نمایاں کیا۔

پارسی مذہب و تاریخ سے گہری وابستگی اس کا سبب بنی کہ میں ایک مختصر ناول لکھوں جس کا نام ’’نہ جنوں رہا، نہ پری رہی‘‘ رکھوں، اس مختصر ناول کو خدیجہ مستور کے ناول’’آنگن‘‘ کی مترجم‘ لاہور کی معروف ادیب اور دانشور نیلم حسین نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور اسے دلی سے ہندوستان کی معروف دانشور اور پبلشر اروشی بوٹا لیا نے اپنے ادارے ’زبان‘ سے شائع کیا۔ پارسیوں کی رواداری، انسانی خدمت کا جذبہ اور تاریخ اور وقت سے شکوہ نہ کرنے کا رویہ، دل موہ لیتاہے۔ وہ اپنے فرائض نہایت ایمانداری سے اداکرتے ہیں۔

ان کے بارے میں یہ کبھی نہیں سنا کہ وہ رشوت خوری یا کسی کالے دھندے میں ملوث ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میاں نواز شریف بطور خاص پارسیوں اور مسیحیوں سے رابطہ کریں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو درست کرنے کے لیے آگے آئیں۔ ان دونوں برادریوں نے آج سے نہیں صدی ڈیڑھ صدی سے تعلیم کے شعبے میں اعلیٰ خدمات انجام دی ہیں اور آج بھی بساط بھر وہ اس کام میں مصروف ہیں۔

ہمارے یہاں بگاڑ جس طرح تعلیم کی بنیاد میں بیٹھ چکا ہے یہ برادریاں شاید اس بارے میں کچھ کر سکیں۔ پارسی شاہ نامہ فردوسی کے عظیم کردار ’رستم‘ کے وارث ہیں۔ شاید وہ یہ کارنامہ انجام دے سکیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم ان کی قدر تو جانیں۔