سوہدرہ کا ہونہار فرزند

نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ نے اپنے ایک غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک صحابی حضرت ابو ذرغفاریؓ سے ایک بار گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’اے ابو ذر !کیا میں تمہیں دو ایسی باتیں بتاؤں جو عمل کرنے میں زیادہ وزنی نہ ہوں مگر ان کی اجرت بہت وزنی ہو؟ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے عرض کیا ’’حضور! ضرور بتائیں‘‘ حضرت محمدؐ نے کہا ’’زیادہ خاموش رہنا اور خلق خدا سے اچھا برتاؤ کرنا‘‘۔ مجھے حکیم راحت نسیم سوہدروی سے متعارف ہوئے پندرہ سال بیت چکے ہیں، جب بھی لاہور جاتا ہوں ان کے مطب پر جانا ہوتا ہے یا وہ کبھی گھر پر احباب کو جمع کرلیتے ہیں۔ حضورؐ نے جو دو باتیں حضرت ابو ذر غفاریؓ کو بتائی تھیں وہ دونوں خوبیاں حکیم راحت نسیم سوہدروی میں موجود ہیں جو لوگ حکیم صاحب کو جانتے ہیں وہ میری بات کی گواہی ضرور دیںگے۔

مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ حکیم صاحب سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ حبیب جالب صاحب کی برسی کے پروگرام کے لیے ناصر (جالب صاحب کا بڑا بیٹا) کو شہر میں مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی، الحمرا آرٹس کونسل اور پریس کلب پہلے ہی سے بک تھے، ایسے میں آغا ارشد اور عبدالمجید خان ہمیں حکیم صاحب کے مطب لے گئے۔ حکیم صاحب نہایت خندہ پیشانی سے ملے اور جالب صاحب کے لیے چند توصیفی کلمات کے بعد ادارہ ہمدرد کا آڈیٹوریم برسی کے لیے بک کروانے کی حامی بھرلی اور اگلے ہی روز فون کرکے اطلاع بھی دے دی کہ کام ہوگیا ہے، میں اس وقت ذرا حیران ہوا تھا کہ حکیم صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، کالج کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے سرگرم کارکن رہے تو حبیب جالب کے لیے نرم گوشہ کیوں؟ پھر مجھے یاد آیا کہ حضرت مولانا مودودیؒ بھی جالب صاحب کے بڑے معترف تھے۔ پروفیسر غفور بھی دوستی کا دم بھرتے تھے، خیر دن گزرتے گئے حتیٰ کہ 13 اکتوبر 2011 آگیا، میں لاہور میں تھا اور حکیم صاحب کے مطب پر موجود تھا حکیم صاحب نے اپنی دو کتابیں مجھے دیں۔ ’’سوہدرہ تاریخ کے آئینے میں‘‘ اور ’’حکیم عنایت نسیم سوہدروی در حدیث دیگراں‘‘

میں نے کتابیں پڑھیں تو پرتیں کھلنے لگیں، پردے ہٹنے تھے اور حبیب جالب کے لیے نرم گوشے کا جواب ملنے لگا۔ حکیم راحت نسیم کے والد محترم عنایت اﷲ نسیم مولانا ظفر علی خان کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے، گھر میں زمیندار اخبار آتا تھا۔ جنرل ایوب خان کے مقابل محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی الیکشن لڑا اور محترمہ سیالکوٹ سے وزیر آباد جاتے ہوئے حکیم صاحب کے قصبہ سوہدرہ سے گزریں تو ایک اسکول طالب علم راحت نسیم اپنے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ مادر ملت کا پرچم اٹھائے راستے میں نعرہ زن تھا، راحت نسیم نے 1973 میں مولانا ظفر علی خان کالج وزیر آباد سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اس کالج کو مولانا ظفر علی خان کے نام سے منسوب کروانے میں راحت نسیم کے والد حکیم عنایت اﷲ نسیم نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

ایف اے پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے راحت نسیم سے کہا ’’میں چاہتاہوں کہ تم طب کی تعلیم حاصل کرو اور خاندانی ورثے کے امین بنو‘‘ والد صاحب کی خواہش پر راحت نسیم لاہور روانہ ہوگئے جہاں انھوں نے انجمن حمایت اسلام طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ساتھ بی اے کی تیاری بھی شروع کردی۔ پھر ایک بڑی زبردست پرت کھلی، پردہ ہٹا اور میں ہکا بکا رہ گیا۔ یہ 15 اکتوبر1976 کا دن تھا۔ ہندوستان سے کوئی اور ادیب، شاعر نہیں! عصمت چغتائی پاکستان آئی ہوئی تھیں، ان کے اعزاز میں لاہور کے ادیبوں، شاعروں کی جانب سے ظہرانہ دیا جارہاتھا، نوجوان راحت نسیم بھی ان ادباء و شعراء میں شامل تھے اور عصمت چغتائی سے باقاعدہ ملاقات بھی ہوئی۔ راحت نسیم کو مولانا ظفر علی خان کے بعد حمید نظامی نے بطور صحافی متاثر کیا۔ جنوری 1979 میں بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراﷲ خان، راحت نسیم کے قصبے سوہدرہ تشریف لائے، اس استقبالیہ تقریب کے روح رواں راحت نسیم تھے جو اب حکیم راحت نسیم بن چکے تھے۔

یہ تھے وہ چند عوامل جو میں نے حکیم راحت نسیم سوہدروی کی زندگی میں تلاش کیے، جن سے مجھے میرے ذہن میں اٹھنے والے سوال ’’جالب کے لیے نرم گوشہ کیوں؟‘‘ کا جواب مل گیا۔ جن شخصیات کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ان کے ساتھ حکیم راحت نسیم سوہدروی کی یادگار تصاویر بھی میری نگاہ سے گزریں، خصوصاً عصمت چغتائی کی تصویر جس میں قتیل شفائی و دیگر بھی موجود ہیں اسی طرح راحت نسیم کی شادی کی تصویر جس میں نوابزادہ نصر اﷲ خان اور حکیم عنایت اﷲ نسیم نظر آرہے ہیں۔

حکیم راحت نسیم سوہدروی نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ہے، ہر طبقہ فکر سے گزرے ہیں۔ حکیم صاحب کا کام اور کام کے مقولے پر گامزن ہیں۔ بہت سی کتابیں لکھیں، اخبارات میں صحت اور مختلف بیماریوں کے حوالے سے مضامین لکھتے رہتے ہیں یہ ان کی خاموش طبع ہی کا اعجاز ہے کہ ان کے دوستوں اور محبت کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، اگر یہ خاموشی نہ ہوتی تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا۔ دیکھ لیں حضور نبی کریمؐ کا فرمان کیا خوب ہے، ’’زیادہ خاموش رہو‘‘۔ حکیم صاحب زیادہ سنتے ہیں، بولتے کم ہیں اور بڑا کام کرنے والوں کا یہی وتیرہ رہا ہے، حکیم صاحب اب تک بیس سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ جن کے موضوع طب، ادب، اور تحقیق ہیں، حکیم سعید (شہید) سمیت ملک بھر کے نامور اطبا نے ان کے علم طب اور ترتیب نسخہ کی تعریف اور تصدیق کی ہے، سب کا ذکر کرنا بیان ممکن نہیں ہے، بس حکیم سعید (شہید) کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد کی تحریر ضرور نقل کرنا چاہوںگا وہ لکھتی ہیں ’’حکیم راحت نسیم (مرحوم) نے بھی اپنی تمام عمر علمی اور طبی خدمات میں صرف کی، حکیم عنایت اﷲ نسیم (مرحوم) شہید حکیم محمد سعید کے ساتھ طب اور احیا طب کے لیے مستعد رہے۔

حکیم راحت نسیم سوہدروی اپنے والد محترم کی کاوشوں کو آگے بڑھانے میں دن رات مصروف عمل ہیں۔ آپ ماہر طب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مصنف بھی ہیں۔ آپ کی کئی تصانیف شایع ہوکر مقبولیت خاص و عام حاصل کرچکی ہیں۔ حکیم صاحب بھی اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چل کر طب و اطباء کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی قائم کردہ جماعت ’’پاکستان ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن ‘‘ کے نائب صدر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ اپنی علمی و عملی صلاحیتوں کی بنیاد پر قومی طبی کونسل کے ممبر بھی منتخب کیے گئے ہیں مجھے خوش ہے کہ ماہنامہ ’’غذا و صحت‘‘ کی مجلس ادارت نے حکیم راحت نسیم سوہدروی کے لیے خاص نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، اﷲ آپ کی ہر قدم پر مدد فرمائے۔

سوہدرہ میں پیدا ہونے والے حکیم راحت نسیم اپنے قصبے کی طرح سو دروازے رکھتے ہیں جو چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں، حکیم صاحب کا طالب ان تک پہنچنے کے لیے کوئی بھی در استعمال کرسکتا ہے۔محمود غزنوی کے ایاز نے سوہدری کو آباد کیا تھا اور شہر کے گرد مضبوط فصیل بنائی تھی جس میں داخلے کے لیے سو دروازے رکھے گئے تھے، اسی لیے اس کا نام سو درہ پڑگیا۔ یہ قصبہ وزیر آباد سے 6 کلومیٹر مشرق کی جانب شاہراہ سیالکوٹ پر واقع ہے، سوہدرہ کا بنانے والا ایاز بھی لاہور میں ابدی قیام کیے ہوئے ہے جہاں وزیر خاں مسجد میں ایاز کی آخری آرام گاہ موجود ہے اور حکیم راحت نسیم بھی سوہدرہ چھوڑ کر لاہور میں مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جہاں علم و ادب اور طب کی شمعیں روشن ہیں۔ سودر ہر وقت کھلے ہیں اور پروانے امنڈے چلے آتے ہیں۔ لاہور کی مشہور ادبی تنظیم ’’بزم چغتائی‘‘جس کے منتظم شاعر طارق چغتائی ہیں اس نہایت فعال ادبی تنظیم کے لیے بھی حکیم صاحب ہمہ وقت حاضر رہتے ہیں گزشتہ کئی سال سے بزم چغتائی کی ماہانہ ادبی نشست جاری ہے جہاں لاہور اور قریب کے شہروں سے ادیب شاعر جمع ہوتے ہیں اور ادب کی پیاس بجھاتے ہیں، کبھی کوئی نامور ادیب شاعر لاہور آیا ہوا ہو تو بزم چغتائی ان کے سواگت کے لیے کرسیٔ صدارت پیش کردیتی ہے۔

حکیم راحت نسیم نے اپنے قصبے سوہدرہ کی تاریخ کتابی شکل میں زمانے کے سامنے پیش کی ہے۔ حکیم صاحب نے صحیح فرمایا ہے کہ ’’جو قوم اپنے ماضی سے انحراف کرتی ہے وہ کبھی نہیں پنپ سکتی‘‘ اسی جذبے کے تحت حکیم صاحب نے اپنے قدیم تاریخی قصبے سوہدرہ کی تاریخ، تہذیب و تمدن کا مکمل احاطہ کیا ہے، تاریخ سے خصوصاً دلچسپی رکھنے والوں کے لیے سوہدرہ بیش بہا خزانہ ہے جو کتابی شکل میں موجود ہے کنوئیں کے بارے میں، میں نے لکھ دیا، اب جو پیاسا ہوگا وہ خود ہی پہنچ جائے گا کنویں کا نام ہے ’’سوہدرہ تاریخ کے آئینے میں‘‘۔