مانتا ہوں ناکام کہانی کا حصّہ ہوں، منوج بوہرا

ویرج ڈوبریل کا کردار ٹی وی چینل ’’لائف اوکے‘‘ کے شو ’’دل سے دی دعا‘‘ کا ہے، جسے منوج بوہرا نہایت عمدگی سے نبھا رہا ہے۔

یہ ڈراما اگرچہ ناظرین کی بھرپور توجہ حاصل نہیں کر سکا، لیکن اس کے بارے میں ناقدین بہت بری رائے کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ منوج بوہرا کا کردار بھی اپنے اندر کافی گنجائش رکھتا ہے اور وہ اس کے لیے اپنی صلاحیتوں کا خوب صورتی سے اظہار کر رہا ہے۔

تاہم اس کی ریٹنگ نہایت کم ہے اور یہ بات فن کار نے تسلیم کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں ہر ڈراما ناظرین کی توجہ حاصل کرے۔ ہمیں بہ طور فن کار اس قسم کی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں اپنے لیے ہمیشہ بہترین کردار کی تلاش میں رہتا ہوں۔ اور یہ ہر فن کار کی خواہش ہوتی ہے، مگر کبھی غلط فیصلہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ تاہم میرا کردار کافی گنجائش رکھتا ہے۔ اس لیے میں مطمئن ہوں۔

آئیے اس فن کار کے کیریر اور نجی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں۔

عام نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جس طرح شوبزنس کی رنگینیوں میں دل چسپی رکھتے ہیں اور فن کاروں کی ایک جھلک دیکھنے اور آٹو گراف لینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، منوج ان سے مختلف تھا۔ کیوں کہ کم عمری ہی میں اسے فلم انڈسٹری اور ٹی وی کے ان چھوٹے بڑے فن کاروں کو نہ صرف قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ وہ ان کے ساتھ گپیں ہانکنے کے علاوہ انھیں اپنی شرارتوں کا نشانہ بھی بناتا رہا تھا۔ پھر شعور کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اس نے بہ طور ایکٹر اپنا کیریر بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ معصوم شرارتوں کے دن گذر گئے اور عمر کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر اور مقصد حاصل کرنے کے لیے ان سینیر ایکٹرز سے اداکاری کے رموز سیکھے۔ اس نے یہ مرحلہ بھی اپنی لگن اور دل چسپی کے باعث طے کر لیا اور آج چھوٹے پردے پر جگمگاتے ستاروں کے درمیان اس کا نام نمایاں ہے۔

ہندوستان کے علاقے جودھ پور میں اس نے 28 اگست کو آنکھ کھولی۔ اس اداکار کے خاندان کے بیش تر افراد فلمی دنیا سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتا ہے ’’میں ممبئی میں پلا بڑھا۔ یہ شہر انڈسٹری میں قدم رکھنے والوں کے لیے پہلا زینہ ہے۔ مجھے کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ انڈسٹری کا راستہ میرے لیے نہایت آسان ثابت ہوا، لیکن یہاں خود کو منوانا بہت مشکل کام ہے۔‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’چھوٹی اسکرین اب فلمی پردے کے مقابلے میں زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے اور مقابلے کا رحجان بھی بڑھ گیا ہے۔ میں نے اپنے بڑوں کا نام کیش نہیں کروایا بلکہ خود اپنی صلاحیتوں کی بدولت آج اس مقام پر ہوں۔‘‘

ٹی وی پر اپنے پہلے شو کے بارے میں وہ بتاتا ہے ’’میرے لیے کیمرہ اور سیٹ وغیرہ نئی چیز نہیں تھے، لیکن جب میں پہلی بار سیریل ’’محبت‘‘ کے لیے شوٹ کروا رہا تھا تو میرے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ میں بے حد نروس دکھائی دے رہا تھا۔ بہرحال رفتہ رفتہ مجھ میں اعتماد بحال ہوتا گیا اور اب میں ہر آفر کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرتا ہوں۔‘‘ چھوٹی اسکرین کی مقبول کہانی ’’کسوٹی زندگی کی‘‘ اس کا پسندیدہ سیریل تھا اور اس کا کہنا ہے کہ یہی واحد ڈراما تھا، جس کی تقریباً تمام اقساط اس نے دیکھی ہیں۔ اگر وہ اداکار نہ ہوتا تو کیا بننا پسند کرتا، اس سوال کے جواب میں وہ کہتا ہے۔’’میں بہترین گُھڑسوار ہوتا اور اس کے مقابلوں میں حصہ لیتا۔ مجھے جانوروں میں گھوڑے بہت پسند ہیں اور میں نے گھڑ سواری کی باقاعدہ تربیت لے رکھی ہے، لیکن ٹی وی پر مصروفیات کے باعث اس شوق کو اب وقت نہیں دے پاتا۔‘‘

چھوٹی اسکرین پر منوج بوہرا نے بے شمار فن کاروں کے ساتھ کام کیا۔ وہ شروتی الفت، ٹینا پاریکھ، شویتا اور سینیر اداکارہ فریدہ جلال کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ان کی فنی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہے اور انھیں چھوٹے پردے کی سپر اسٹار قرار دیتا ہے۔ چھٹیوں میں سیر و تفریح کے لیے اس کا انتخاب مالدیپ ہوتا ہے۔ اس کے مطابق وہاں زندگی جنت کے مانند محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے مالدیپ ایک حیرت انگیز مقام ہے۔ میں اس کے سحر میں گویا ڈوب جاتا ہوں۔

انسان کبھی نہ کبھی محبت جیسے نرم و نازک اور کومل جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر کسی نہ کسی کو دل دے بیٹھتا ہے۔ ٹیلی ویژن انڈسٹری کے کئی فن کاروں کی محبت کے قصے عام ہوئے اور کئی نے آپس میں شادیاں کیں اور آج خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ اس معاملے میں بہت محتاط ہے۔ اس کا کہنا ہے ’’میں کام اور محبت دونوں میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا، یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک کا انتخاب کر لیا، اور وہ تھی اداکاری، لیکن پھر شادی کرنا پڑی۔ تیجے سندھو کے بعد میری زندگی کا فلسفہ ہی تبدیل ہو گیا۔ میں بہت خوش ہوں۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی ہے اور ہم دونوں میں بے حد پیار ہے۔‘‘

گذشتہ دنوں اداکار کے مستقبل اور ناظرین میں پسندیدگی کے حوالے سے ایک سروے بھی کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں ووٹ اس کے حق میں دیے گئے۔ سروے میں حصہ لینے والوں نے اس کی پرفارمینس کو سراہتے ہوئے اسے مِنی اسکرین کا اسٹار قرار دیا۔ ٹیلی ویژن پر جہاں نئے آرٹسٹ شان دار پرفارمینس کی بدولت پسند کیے جا رہے ہیں، وہیں منوج بوہرا جیسے سینیرز کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ نئے اور پرانے آرٹسٹوں کے مابین مقابلے کا یہ سفر جاری ہے اور مختلف شوز میں پرفارم کرنے والے آرٹسٹ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے محنت کررہے ہیں۔ وہ بھی دن رات مستقل مزاجی سے اپنے کام میں مگن ہے۔ ٹی وی کا یہ اداکار بڑے پردے کی ہیروئن رانی مکر جی سے بہت متاثر ہے اور اسے بہترین پرفارمر کہتا ہے۔ وہ بولی وڈ میں اپنی پہلی فلم رانی مکر جی کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔

اپنی پسند اور ناپسند کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ لمبے بال، اور بڑی آنکھوں والی لڑکیاں اُسے بھاتی ہیں۔ اُسے زرد رنگ بہت پسند ہے جب کہ سرخ بھی اچّھا لگتا ہے۔ وہ اپنی غذا کے حوالے سے بہت محتاط رہتا ہے۔ ہر وقت منہ چلاتے رہنا اور اناپ شناپ کھانا اُس کے نزدیک جسمانی صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے اور یہی مختلف بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ وہ سگریٹ پیتا تھا، لیکن اب اس بُری عادت کو ترک کر چکا ہے۔ وہ نجومیوں اور قیافہ شناسوں پر تو یقین نہیں رکھتا، لیکن ایک (ون)، وہ ہندسہ ہے، جسے اداکار اپنا لکی نمبر قرار دیتا ہے۔ دال چاول اس کی پسندیدہ ڈش ہے۔

وہ بتاتا ہے کہ عام اسٹوڈنٹس کی طرح اُسے زمانۂ طالب علمی میں امتحانات کے دوران نقل کرنے کی عادت تھی اور متعدد بار ٹیچرز نے اُسے جھاڑ بھی پلائی۔ اس کی پسندیدہ فلم ’’انداز اپنا اپنا، میٹرکس ‘‘ ہے۔ وہ سوشل ورکر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اسے لوگوں کی خدمت کر کے راحت ملتی ہے۔ مسقبل میں وہ پروڈیوسر بن کر اس شعبے میں نام کمانے کی آرزو رکھتا ہے۔ وہ اُن اداکاروں میں سے ایک ہے جنھوں نے نہ صرف اپنی جان دار پرفارمینس کی وجہ سے نہایت کم وقت میں لاکھوں لوگوں کی توجہ حاصل کر لی بلکہ عام زندگی میں بھی اپنی خوش گفتاری اور ہونٹوں پر ہمہ وقت رقصاں مسکراہٹ کے باعث لوگوں کا جیت لیتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسے پروڈکشن کے شعبے میں ضرور اپنی قسمت آزمانا چاہیے کیوں کہ اسی طرح نئے اور باصلاحیت آرٹسٹ سامنے آئیں گے۔