بیمار ذہنوں کے انبار

بدترین بیماری جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے، جسمانی بیماری سے صرف ایک شخص متاثر ہوتا ہے جب کہ ذہنی بیماری کے جراثیم کروڑوں لوگوں کو بیمار کرسکتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے سماج میں بیمار ذہنوں کے انبار کے انبار لگ چکے ہیں ہماری قوم کو نفرت، کرپشن، بدنیتی، تعصب ، توہمات اور جہالت کی بیماری گھن کی طرح کھا رہی ہے، ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ سماج میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو سستی یا بزدلی کی وجہ سے جسے قدامت پسندی بھی کہتے ہیں، ہر نئی چیز کے خلاف ہوتے ہیں اور اپنی حالت پر قائم رہنے کے لیے وہ ہر قسم کی سختی اور زبردستی کو جائز سمجھتے ہیں ارسطو اور افلاطون انسان کو بذات خود بالکل بے بس اور بیکار قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اس پر خاص زور دیتے ہیں کہ ریاست اور ہر سماج کو اپنے آدرش یا نصب العین مقررکر لینے چاہیں اور اپنی تعلیم کو اس ڈھنگ کا بنانا چاہیے کہ ہر بچے میں اپنے فرائض ادا کرنے کی خواہش پیدا ہو اور وہ اس راستے پر استقلال سے چلتا رہے جو سماج نے اپنے لیے مقرر کیا ہو افلاطون نے اپنی ریاست کو عدل پر مبنی کہا اور عدل کرنا اس نے اپنے سیاسی اخلاق کا سب سے بڑا فرض ثابت کیا۔

ارسطو نے افلاطون کی طرح خیالی ریاست نہیں بنائی لیکن اخلاقی ترقی اور انسانی فطرت کی پوری نشوونما اس کے نزدیک بھی ریاست اور سماجی زندگی کی روح تھی وہ کہتا ہے جس ریاست نے اپنے لیے یہ آدرش مقرر نہ کیا ہو وہ ریاست نہیں اور جو انسان اس فرض سے غافل ہو وہ انسان نہیں ۔ ہیگل بھی ریاست کو ایک بہت بلند درجہ دیتا ہے اس کے نزدیک جب تک سماج ریاست کی شکل نہ پائے اس وقت تک اس میں اور ریاست میں وہی فرق ہے جو انسان اور مردہ گوشت پوست میں ہے۔ سماج کو ایک ذات ، خصوصیت، مقصد یہ سب چیزیں اس وقت میسر ہوتی ہیں جب وہ ایک ریاست بن جائے، ریاست گویا ایک اعلیٰ شخصیت ہے جو قوم کے آدرش یا نصب العین کو اپنی ذات میں رکھتی ہے اور جس کے بغیر قوم ایک گمنام اور بے معنی پریشانیوں کا مجموعہ ہے اگر ریاست ایک شخص ایک خیال اور ایک مقصد بن جائے تو اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں ہستیاں ایک دل میں دھڑک رہی ہیں۔

یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ سفر کرنا ہے اگرآپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کرینگے تو وقت آگے چلا جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائینگے اور پھر آپ کبھی بھی وقت کو پکڑ نہیں پائینگے ہمارے ساتھ میں بھی بالکل ایسا ہی سوا سفر کے آغاز کے بعد ہم وہیں کھڑے رہے اور وقت میلوں دور میلوں دور آگے نکل گیا، اب ہم لاکھ کوشش کرتے ہیں اسے پکڑنے کی لیکن ہر بار ناکام وہیں لوٹ آتے ہیں جہاں سے سفرکا آغاز کیا تھا، قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں ’’قانون کی عظمت اور آئین کی حرمت چادر عصمت کے مترادف ہے یہ اگر ایک دفعہ چاک ہوجائے تو اسے رفو کرنا انسان کے اختیار میں نہیں رہتا ، ایک لغزش دوسری لغزش کا پیش خیمہ بن جاتی ہے اور عقوبت کا ارتکاب جرم عادت ثانیہ بن جاتی ہے اور رفتہ رفتہ راج نراج حکومت اور طوائف الملوکی، قانون اور بدنظمی، آئین اور آمریت کے فرق کا ادراک کمزور ہو جاتا ہے۔ ‘‘ ہم نے کسی نہ کسی طریقے سے آزادی تو حاصل کرلی لیکن ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ آزاد ہونے کے بعد ہمیں کرنا کیا ہے جانا کہاں ہے نہ ہم نے اپنی منزل طے کی اور نہ ہی اصول بنائے اور نہ ہی آئین۔

گزشتہ 68 سالوں سے اسی چوراہے پر بیٹھے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک قوم ایک خیال ایک سوچ ایک مقصد، ایک دل بننے کے بجائے ایک ایسی بھیڑ میں تبدیل ہوئے جہاں جہالت، نفرت ، تعصب ، کرپشن ، لوٹ مار، انتہا پسندی، قدامت پسندی، بنیاد پرستی غرض دنیا بھرکی تمام غلاظتیں اور ذلتیں موجود ہیں ہر فرد کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے آج پورا پاکستان لہولہان ہے روشنی سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم اندھیروں سے اپنے سر ٹکرا رہے ہیں ہمیں اندھیرے اتنے پیارے ہوچکے ہیں کہ ہم ان سے نکل کر روشنی کی سمت جانا ہی نہیں چاہتے جھوٹی کہانیاں سننا ہمارا قومی مشغلہ بن گیا ہے۔ سوچنے سے ہمیں نفرت ہوگئی ہے غوروفکر سے ہمیں کراہت آتی ہے ۔ دانشمندانہ اور سمجھداری کی باتیں ہمیں گالیاں لگتی ہیں پوری دنیا اور سمجھدار، دانشمند لوگ چلا چلا کر ہم سے فریاد کررہے ہیں کہ خدا کے واسطے جاگو بربادی ، تباہی ذلت کا سیلاب تمہارے گھروں میں داخل ہوگیا ہے ہم ہیں کہ اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں اپنی تباہی، بربادی، ذلت کا کوئی بھی احساس نہیں ہے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آسمان کانپ رہا ہے زمین تھرتھرا رہی ہے ہم اور جانوروں میں اب کچھ زیادہ فرق باقی نہیں رہاہے ۔ ہم احمقوں کی بھیڑ بن چکے ہیں ۔

حکایت رومی رحمتہ اللہ علیہ ہے ۔ ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے ایک پہاڑکی طرف جارہے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی خونخوار شیر ان کا تعاقب کر رہا ہے ایک شخص آپ کے پیچھے دوڑا اور پوچھا کہ یا حضرت آپ کے پیچھے توکوئی شے نہیں ہے پھر آپ پرندے کی طرح کیوں اڑتے جارہے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کی بات سنی ان سنی کردی اور بدستور پہاڑکی طرف بھاگتے رہے ۔ وہ شخص آپ کی تیز رفتار ی کا ساتھ نہ دے سکا تو دور سے آواز دی کہ اے اللہ کے نبی خدا کے لیے ایک لمحے کے لیے ٹہر جائیے میرے لیے آپ کے پیچھے بھاگنا ممکن نہیں، بسا اتنا بتا دیجیے کہ آپ اس طرح کیوں بھاگ رہے ہیں ۔ جب کہ آپ کے پیچھے نہ کوئی شیر ہے اور نہ کوئی دشمن ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ایک احمق آدمی سے بھاگ رہا ہوں ۔ اس نے کہا یا حضرت کیا آپ مسیحا نہیں ہیں جن سے اندھے اور بہرے شفا پاتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’ہاں ‘‘ ۔ اس نے کہا ’ کیا آپ وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مردے پر کلام الٰہی پڑھتے ہیں تو وہ گرفتار کیے ہوئے شیرکی طرح جھوم کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔‘‘

آپ نے فرمایا ’’ ہاں میں وہی ہوں ‘‘ اس نے کہا ’’کیا آپ وہ نہیں ہیں کہ مٹی کے پرندے بنا کر ان پر دم کر دیں تو وہ اسی وقت ہوا میں اڑ نے لگیں ‘‘ آپ نے فرمایا کہ بے شک میں وہی ہوں، پھر اس نے شخص نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قدر قوت عطا کررکھی ہے تو پھر آپ کو کس کا خوف ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس رب العزت کی قسم کہ جس کے اسم اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروں پر پڑھا تو وہ شفایاب ہوگئے ۔ پہاڑوں پر پڑھا تو وہ پھٹ گئے، مردوں پر پڑھا وہ جی اٹھے ۔ وہی اسم اعظم میں نے احمق پر لاکھوں بار پڑھا لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس شخص نے حیرت سے پوچھا کہ یا حضرت یہ کیا بات ہے کہ خدا کا نام اندھوں ، بہروں اورمردوں وغیرہ پر تو اثر کرتا ہے لیکن احمق پر کوئی اثر نہیں کرتا حالانکہ حماقت بھی ایک مرض ہے اور اسم اعظم سب امراض کی دوا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ احمق کو بیماری تو خدا کا قہر ہے ۔اس کے بر عکس اندھا پن محض ایک ابتلاء ہے جو شخص ابتلاء میں گرفتار ہو۔اس کا ابتلاء بالآخر اس کے لیے رحمتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اور جو احمقی میں مبتلا نہ ہو اس کے لیے رحمتیں ہی رحمتیں ہیں۔

پاکستانی عوام خدا کے واسطے جاگ جاؤ خوشحالی، ترقی، آزادی، روشنی اور نیا پاکستان تمہارا منتظر ہے۔ بند ذہنوں کے جالے صاف کردو، بندکھڑکیاں ، دروازے کھول دو تاکہ تازہ ہوا خیال، سوچ ، ارادے ، مقصد آسکیں اور تمہارا نصیب بدل سکے، احمقی شر ہے اس کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد ہی کہنا رحمت ہے ۔