بلوچستان میں خواتین کا سیاسی سفر

’’خواتین کی عملی شمولیت کے بغیر آپ کی کوئی تحریک مکمل نہ ہو پائے گی‘‘ یہ فقرہ آج سے کوئی لگ بھگ سو سال قبل ہمارے سیاسی پیش امام میر یوسف عزیز مگسی نے اپنے ایک دوست کے نام خط میں تحریر کیا۔ ایک صدی گزر گئی، ہم آج تک اُن کے اِس ایک فقرے کی لاج نہ نباہ پائے۔ ریاست قلات کے اولین ایوان میں ایک بھی خاتون رکن شامل نہ تھی۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ریاست قلات میں اگلے سو برسوں میں بھی اس کا خواب تک نہ دیکھا جا سکتا تھا۔

یوسف عزیز کے قافلے کو آگے لے کر چلنے والے ہمارے جس قدر اکابرین تھے، سبھی اصلاح پسند تھے، انقلاب پسند کوئی نہ تھا اور قبائلی سماج میں عورتوں کی جدوجہد‘ انقلابی سیاست کی متقاضی تھی۔  یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد، قلات ضم ہو گیا اور ہمارے جو سیاسی قائدین اصلاحی سیاست کے خارزار کو چل نکلے، ان میں کسی کو اِس پچھڑے ہوئے طبقے کو ساتھ لینے کی توفیق نہ ہوئی۔ یوسف عزیز کے زمانے (1920ء) تک تو چلیے ہماری سیاست ابھی نومولود و نوآموز تھی، سو‘ اسے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے، مگر تب بھی مت بھولیے کہ جیکب آباد میں ہونے والی اولین کل ہند بلوچ کانفرنس کی قراردادوں میں ہمارے اکابرین نے اس طبقے کے حقوق کی بازیابی کی بات ضرور کی۔ یوں آیندہ نسلوں کو منزل کی اَور جانیوالی راہ سجھا دی۔

بلوچ آسماں پر یوسف عزیز کے قافلے کو آگے لے جانیوالی ہماری آیندہ نسل کی ترجمانی میر غوث بخش بزنجو نامی روشن ستارے کے حصے میں آئی، مگر المیہ دیکھیے کہ روشن خیال، ترقی پسند بزنجو کی ترقی پسند اور سوشلسٹ نقطہ نظر کی حامل سمجھی جانیوالی نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان بھر سے ایک بھی خاتون کو اپنا ہم سفر نہ بنا سکی۔

عورتوں کے حقوق کی بازیابی میں آگے آگے ہمارے یہ قابلِ احترام رہنما خود تو سیاست کرتے رہے، اپنی عورتوں کو روٹیاں پکانے پر ہی لگائے رکھا۔ حتیٰ کہ اپنی گورنری کے عہد میں شہنشاہِ ایران کی خاتونِ اول سے ملتے ہوئے بھی یہ نہ ہو سکا کہ اسے بھی اپنی ’خاتونِ آخر‘ سے ملوا دیتے۔ ان کی نو ماہ کی حکومت میں عورتوں سے متعلق کوئی بل تک اسمبلی میں نہ لایا جا سکا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہاں کہ انھی کی کاوشوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نو تشکیل شدہ آئین کے مطابق عورتوں کی مخصوص نشستوں پر جب نیپ کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشست پر ایک ایک خاتون کا انتخاب کرنا پڑا، تو پورے بلوچستان میں خواتین کا قحط پڑ گیا۔ بالآخر پشتون قاضی گھرانے میں بیاہ کر آنیوالے انگریز خاتون جینیفر موسیٰ قاضی اور لسبیلہ کے جام خاندان کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون فضیلہ عالیانی کے نام قرعہ فعال نکلا، یوں نیپ اس تاریخی فریضے کی تکمیل میں سرخرو ہوئی۔

اس فیصلے کی رو سے 1945ء میں جنم لینے والی فضیلہ عالیانی بلوچستان کی اولین مقامی خاتون ایم پی اے قرار پائیں۔ بعد ازاں نوے کی دَہائی میں یہ خاتون، نیپ کو تباہ کرنے والی پیپلز پارٹی کی جانب مراجعت کر گئیں۔ ’جہاں زیبا‘ کا خوب صورت مقامی نام اختیار کرنے والی جینیفر قاضی اور فضیلہ عالیانی مگر باضابطہ سیاسی کارکن نہ تھیں۔ حتیٰ کہ ساٹھ کی دَہائی میں تشکیل پانے والی اولین بلوچ طلبہ تنظیم بھی کئی دہائیوں تک یہ فریضہ انجام نہ دے پائی۔

جس طرح نیپ کی توڑ پھوڑ کے بعد ہماری سیاست دو متوازی دھاروں (پارلیمانی و مزاحمتی) طرز پہ چل نکلی تھی، ہماری آیندہ سیاسی تشکیل انھی خطوط پہ ہوئی۔ پارلیمانی طرزِ سیاست اصلاح پسندی کا قائل تھا اور جدید خطوط پر استوار تھا، اس کے باوجود ان کے ہاں خواتین کی عملی شمولیت ایک عرصے تک مفقود رہی۔ اس ضمن میں اولین قدم کمیونسٹ پارٹی کی طلبہ تنظیم ڈی ایس ایف یا دوسری جانب این ایس ایف کے ہاں اٹھتا نظر آتا ہے۔

باقی تنظیمیں خانہ پُری تو کرتی نظر آئیں، مگر سیاسی عمل میں خواتین کی عملی شمولیت کے سوال پر ان سب کے ہاں ازکارِ رفتہ ’قبائلیت‘ آڑے آ جاتی۔ البتہ مذکورہ تنظیموں نے جس طرح نوجوان خواتین کو بالخصوص سیاسی عمل کا حصہ بنایا، اسی سے شہہ پا کر ہماری دیگر تنظیموں میں بھی یہ رحجان شروع ہوا۔ اَسی یا نوے کی دَ ہائی میں جو چند خواتین بلوچ سیاست میں دَر آئیں، مختلف صورتوں میں آج ہم انھی کوایوان میں دیکھ پاتے ہیں۔سچ مگر یہ ہے کہ خواتین کی بھرپور عملی سیاسی جدوجہد اکیسویں صدی تک مانع رہی۔ پارلیمانی سیاست میں یہ آمر پرویزمشرف کا تینتیس فی صد کا اعلان کردہ اضافہ تھا، جس نے ایوان میں خواتین کے تناسب کو قابلِ تحسین حد تک بڑھا دیا۔

دوسری جانب ہماری مزاحمتی سیاست شہروں کو آ پہنچی تو شہری طرز بھی اختیارکرنا پڑی۔ یوں بلوچ خواتین پینل کے نام سے بلوچستان کی خواتین کا اولین سیاسی محاذ اکیسویں صدی کے اولین برسوں میں کہیں جا کر تشکیل پایا۔ بلوچ قوم پرست و طلبہ تنظیموں میں پہلی بار خواتین اراکین کی قابلِ ذکر شمولیت عمل میں آئی اور اسی جدوجہد کے ثمر میں ہم نے دیکھا کہ اکیسویں صدی کے سولہویں برس میں بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون ایوان کی اسپیکر منتخب ہوئیں، تو دوسری جانب بلوچ طلبہ تنظیم کی قیادت پہلی بار کسی خاتون کے حصے میں آئی۔

اپنے اپنے تناظر میں یہ دونوں واقعات، بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا قابلِ ذکر حصہ ہیں۔راحیلہ حمید درا نی بلو چستان اسمبلی کی پہلی خا تون جب کہ مجمو عی طو ر پر تیرہویں اسپیکر ہیں۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی سے ذرائع ابلاغ میں ماسٹر اور ایل ایل بی کی ڈگری حا صل کر چکی ہیں۔ راحیلہ حمید درا نی نے سال 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے پلیٹ فا رم سے سیاست کا ا س وقت آغاز کیا جب انھیں خواتین کے لیے مختص نشست پر کا میا بی ملی۔ انھیں سال 2013ء کے عا م انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر کا میا بی ملی۔

یہ خاتون بنیادی طور پر سیاسی کم اور سماجی ورکر زیادہ ہیں، اس لیے انھوں نے اپنی پارلیمانی سیاست کے عہد میں سیاسی کام کم اور سماجی کام زیادہ کیے۔ کوئٹہ کا شاید ہی کوئی ادارہ، کوئی گلی محلہ ایسا مل سکے، جہاں اس خاتون کے نام کی تختی نہ ہو۔ جہاں انھوں نے اپنے سماجی کام کے نقوش نہ چھوڑے ہوں۔ کہیں کمپیوٹر کی فراہمی، کہیں بچیوں کے اسکول کی عمارت، کہیں عمارت کا بیت الخلا، کہیں لائبریری کا قیام، کہیں لائبریری کے لیے کتابوں کی فراہمی، الغرض ہر جا موجود رہیں۔

اس لیے ان کا اس عہدے کے لیے انتخاب ہر لحاظ سے قابلِ تحسین ہے۔ بالخصوص اسے اس پس منظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مونچھوں کو تاؤ دیتے ہمارے نوابی وزرا، جو گھروں میں عورت کواپنے پاؤں کی جوتی بنا کر رکھتے آئے ہیں، ایوان میں جب انھیں اسی عورت کی اجازت سے اس کو مخاطب کر کے بات کرنا پڑے گی، تب ان پہ کیا گزرے گی! کیا معلوم یہ تجربہ انھیں عورت کے معاملے میں انسان دوست بنا سکے۔دوسری جانب ہماری مزاحمتی تحریک میں عورتوں کی عملی شمولیت ایک نئے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دے رہی ہے۔ مند سے تعلق رکھنے والی بی ایس او کی نو منتخب چیئرپرسن کریمہ بلوچ نے اس تنظیم میں بہ طور عمومی رکن کے اپنا سفر شروع کیا۔ مرکزی کمیٹی کی رکنیت سے ہوتی ہوئی، وائس چیئر پرسن اور پھر چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔ یہ انتخاب ہر لحاظ سے ہمارا قابلِ ذکر اثاثہ ہے، اسے قابلِ فخر بنانا اب قیادت کا امتحان ہے۔

مزاحمتی تحریک چونکہ اصلاحی نہیں، انقلابی ہوتی ہے، اس لیے خواتین کے معاملے میں بھی انھیں اصلاحی نہیں ‘ انقلابی ہونا چاہیے۔اس ضمن میں سب سے دوغلا کردار ہمارے اہلِ دانش کا رہا ہے، جو یوں تو خواتین سے متعلق نہایت ترقی پسندانہ رویہ رکھتے ہیں لیکن یہ ساری روشن خیالی اپنے گھرکی دہلیز پہ آ کے دم توڑ دیتی ہے۔ اور اس کے لیے ان کے پاس نہایت ’جدلیاتی دلیل‘ ہوتی ہے کہ عورتوں کی آزادی اور جدوجہد کو مشینی انداز میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ قبائلی سماج میں ترقی پسندی کی بھی اور ہی مبادیات ہوتی ہیں!