ہمیں نا دیکھ زمانے کی گرد آنکھوں سے

یہ خبر ہم وطنوں کے لیے بڑی حیرت اور اطمینان کی ہے کہ دنیا بھر میں کرپشن کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2015 میں وطن عزیز میں کرپشن میں کمی آنے کی نوید دی ہے اور اس رپورٹ سے ایک حد تک ملک میں گڈ گورننس یا بیڈ گورننس کی اترتی چڑھتی صورتحال کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے برسر اقتدار آنے کے وقت گورننس، سرکاری محکموں کی کارکردگی اور مجموعی ملکی معیشت کی صورتحال کسی طور بھی ایسی نہیں تھی جسے قابل رشک کہا جاسکے۔ مئی 2013 میں برسر اقتدار آنے والی حکومت نے فوری طور پر جو اقدامات کیے ان کے نتیجے میں کرپشن میں پاکستان کا نمبر جو 2012 میں 36 تھا، 2013 میں 49، 2014 میں 50 اور 2015 میں 53 ہوگیا۔

اس سے پہلے کے برسوں یعنی 2007، 2008، 2009، 2010 اور 2011 میں یہ نمبر بالترتیب 42، 42، 42، 36 اور 50 رہا۔ اس نمبر کو اگرچہ ملک کی مجموعی گورننس اور معیشت کے حق میں یا برخلاف دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا مگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں پاکستان کے مالیاتی اشاریوں کے حوالے سے حوصلہ افزا تصویر پیش کرتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عوام کے تاثرات ہندسوں کی زبان میں پیش کی جانے والی تصاویر سے عموماً مختلف ہوتے ہیں۔

اہم ترین بات اس حوالے سے یہ ہے کہ پاکستانی عوام اور حکمران دونوں میں یہ ادراک زیادہ واضح محسوس ہورہا ہے کہ کرپشن بھی دہشتگردی کی مانند بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ مہلک اور ملک کی جڑوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرنیوالا ناسور ہے، جس سے چھٹکارا پانا ملکی بقا و سالمیت کی بھی ناگزیر ضرورت ہے۔ ’’آئین پاکستان‘‘ میں عام شہری کو عزت کی روٹی، تعلیم، علاج معالجے اور رہائش دینے کی ضمانت موجود ہونے کے باوجود مذکورہ ثمرات کرپٹ حکومتوں نے کبھی نہیں عوام تک پہنچائے اور انھیں ہمیشہ ان کے بنیادی حقوق سے محروم ہی رکھا۔ ایک چشم کشا رپورٹ کیمطابق پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، گویا 4380 ارب روپے سالانہ کی کرپشن ہو رہی ہے۔

کرپشن کا یہ حجم ناقابل یقین ہے لیکن کیا کیا جائے کہ خود سرکاری ادارے اس کی توثیق کرتے ہیں۔ہر کوئی اقتدار میں آنے کے لیے اعلان کرتا ہے کہ سب کا احتساب ہوگا اور سرعام ہوگا، لیکن یہی حکمران اقتدار میں آنے کے بعد انسداد کرپشن کے لیے نت نئے ادارے بھی بناتے ہیں، جن پر کثیر سرمایہ قوم کا خرچ ہوتا ہے مگر ان اداروں کو حکمران اپنے مخالفین کو ڈرا دھمکا اور دبا کر اپنے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اپنی مرضی کا انصاف چاہتے ہیں اور اپنے منظور نظر لوگوں کے کیس کھولنے پر حکومت تلملا اٹھتی ہے اور انصاف کا ہمارے ملک میں لطیفہ یہ ہے کہ ہر کرپٹ چاہتا ہے کہ اس کے بجائے دوسرے کا احتساب ہو۔اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ حکومت ہی قومی خرابیوں یا عارضوں کی اصل جڑ ہوتی ہے اور یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جن معاشروں میں قانون صرف کمزوروں کے لیے ہو اور طاقتوروں پر نافذ نہ کیا جاسکے ان کا سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ معاشرے بے لاگ انصاف ہی سے زندہ رہتے ہیں۔

ہمارے ارباب اختیار نہ جانے کب اس آفاقی حقیقت کو تسلیم کریں گے؟ کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج پاکستان کے بااثر لوگ اور ادارے ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کے تحت کام کر رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا پاکستان لاکھوں جانوں، عزتوں اور عصمتوں، آنسوؤں اور قربانیوں کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، یہ جن مقاصد کے لیے معرض وجود میں آیا یا دنیا کے نقشے پر ابھرا اس کے چند سال بعد ہی اس کے کرتا دھرتاؤں نے نظرانداز کردیا اور آج تک اس سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں جیسے یہ کوئی ارزاں جنس ہو۔قومی احتساب بیورو (NAB) پاکستان کا ایک انتہائی حساس اور اہم قومی ادارہ ہے جو 1999 میں کرپشن کے خاتمے کے لیے معرض وجود میں لایا گیا تھا، اس کے علاوہ 30 دیگر ادارے بھی کرپشن اور بدعنوانی کو کنٹرول کرنے کے لیے ملک میں کام کر رہے ہیں۔

اور اس بات میں کبھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کوئی بھی ادارہ ہو وہ انسان کا پھلتا ہوا سایہ ہوتا ہے اور اس کے سائے کا پھلنا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کے راست اقدامات کرتا ہے، کس طرح کے لوگوں کی تقرریاں کرتا ہے، ان سے ملکی مفاد میں کس نوعیت کے کام لیتا ہے اور ایسے رجال کار فراہم کرتا ہے جو جدت سے بھرپور خیالات پیش کرتے ہیں۔یہ ایک مسلم امر ہے کہ ملک میں اس وقت جو قومی احتساب بیورو (NAB) کام کر رہا ہے وہ ماضی میں قائم ہونیوالے اس نوعیت کے اداروں سے اس لیے مختلف ہے کہ اسے محض کسی حکومت کی خوشنودی کے لیے سرکاری اعلامیہ کی رو سے نہیں بلکہ باقاعدہ آئینی ضابطوں کے تحت اور پارلیمنٹ کی منظوری سے بنایا گیا ہے۔

یہ ایک خودمختار ادارہ ہے جسے پارلیمنٹ کا تحفظ حاصل ہے اور اس کا کام بدعنوانیوں میں ملوث سب کا شفاف انداز میں بے لاگ احتساب کرنا ہے۔ بہرحال کوئی کچھ بھی کہے نیب نے اپنے طور پر اور پھر خود حکومت نے احتساب کا نظام موثر بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل قدر ہیں اور ضرورت بہرطور اس امر کی ہے کہ احتساب قانون کے مطابق ہو اس سے بالاتر نہ ہو اور کوئی چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے، کیونکہ کرپشن اور اس سے جڑی برائیاں اس صورت میں ختم ہوں گی جب احتساب سب کا اور اپنے پرائے یا چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر انصاف کے تقاضوں کی مطابق ہو۔

نیب کو قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت کا بہت بڑا حصہ سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا میں موجود ملکی سرمائے کو وطن عزیز میں واپس لانے کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی ترقی میں کرپشن ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی بنا پر عشروں سے قومی وسائل بااختیار طبقوں کی لوٹ کھسوٹ کی نذر ہو رہے ہیں اور عام آدمی کے شب و روز کی تلخیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ لہٰذا حکومتی ایوانوں سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جانا چاہیے جو کرپشن کے خلاف مہم کو غیر موثر اور کمزور کرنے یا تاخیری حربوں کے مواقع پیدا کرنے کا سبب بنے۔

جہاں تک اداروں میں اصلاحات  کا تعلق ہے تو کسی بھی اقدام سے اہل دانش اور اہل سیاست کے کسی طبقے کو کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کیونکہ اداروں کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا اور ان کی کارکردگی میں تاحد امکان شفافیت لانے سے نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں بلکہ ان پر عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے، لیکن کسی مقتدر پارٹی کی طرف سے کسی احتسابی ادارے کو سرے سے ختم کرنے، اس کے پر کاٹ کر اسے اپاہج بنانے یا اس کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرکے اسے محض ایک نمائشی ادارے میں تبدیل کرنے کی ہرگز حمایت نہیں کی جاسکتی، کیونکہ خودمختار اور آزادانہ احتسابی ادارے ہی کسی نظام کا حسن ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں خوب سے خوب تر تو بنایا جانا چاہیے لیکن ان پر خط تنسیخ کھینچنے کی کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جس معاشرے سے احتساب اٹھ جاتا ہے فطرت خود اس کے احتساب کے لیے میدان میں آجاتی ہے۔