لِینگ کَوَان گھاٹی میں ریلوے لائن کی تعمیر

(یہ چینی عوام کے اُس دَور کی کہانی ہے جب اُنہوں نے ملکی اور غیرملکی دشمنوں کے خلاف ایک لمبی جنگ کے بعد 1949 میں آزادی حاصل کی تھی۔ اُنہیں اچھی قیادت اور اچھے حکم راں ملے تھے۔ اُن میں ملک کو ترقی دینے اور خوش حالی پیدا کرنے کا بھرپور جذبہ تھا۔ یہ 1950 سے 1960 کا زمانہ ہے جب ملک کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے ملانے کے لیے 970 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن تعمیر کی گئی۔ سارا پہاڑی علاقہ تھا جس میں گہری گہری گھاٹیاں،

دریا اور اونچے اونچے پہاڑ تھے۔ اس کہانی میں چینی بچوں کے جذبات اور حوصلوں کا اظہار کیا گیا ہے۔کہانی کے مصنّف تُو پھَنگ چھَنگ (Tu Peng Cheng) ایک ممتاز چینی ادیب ہیں۔ وہ 1921 میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے جنگ ِ آزادی میں چینی عوام کی جوش وخروش کے ساتھ شرکت کے موضوع پر بہت سی کہانیاں لکھی ہیں۔ انہوں نے اگرچہ بچوں کے لیے کہانیاں نہیں لکھیں تاہم، اُن کی کہانیوں میں بچوں کے لیے وطن سے محبت، اچھے اچھے کام کرنے، فرائض کا خیال رکھنے اور اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے حوالے سے پیغام ضرور ہوتا ہے۔ ’’لینگ کوان گھاٹی‘‘ تُو پھَنگ چھَنگ کی ایک ایسی ہی کہانی ہے۔)

زمین پر ہر طرف سفیدی اور آسمان سے زمین تک برف باریک پتلی لائنوں میں سفر کرتی دکھائی دے رہی تھی۔ برف تقریباً آدھے فٹ کے قریب پہنچ چکی تھی۔ مَیں تیزی سے اپنے راستے پر گام زن تھا جو مستقبل کی ریلوے لائن تھی۔ اگرچہ مَیں کچھ دور پہاڑوں کے پیچھے سے آنے والی مشینری کی آواز سن سکتا تھا لیکن مجھے نہ کام کی جگہ اور نہ ہی مزدور نظر آئے۔

مَیں جیسے ہی لینگ کوان گھاٹی میں داخل ہوا میری کپکپی اور بڑھ گئی۔ یہاں موسم ٹھیک ہونے کے باوجود سورج نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ بالکل آسمان پر تو نہیں لیکن آسمان ایک ہاتھ کے فاصلے پر ضرور محسوس ہوتا ہے۔ شام کا دُھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ روئی کی طرح گرتے برف کے گالے اور سَنسَناتی ہوائیں ہر قدم کو مشکل ترین بنارہی تھیں۔

لینگ کوان گھاٹی میں تعمیراتی کام زوروشور سے جاری تھے۔ ہر جگہ لوگ کام کررہے تھے۔ جنریٹرز، سیمنٹ مِکسر اور اَپرکمپریسرز کی آوازیں گویا زمین ہلارہی تھیں۔ سیکڑوں برقی بلب اپنی مدہم روشنی پھیلائے ہوئے تھے۔ برقی تاریں کسی مکڑی کے جال کی مانند تنی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ میں اپنے سر پر سے گزرتی لفٹز کو بھی دیکھ سکتا تھا جو خام مال سے لدی ہوئی تھیں۔

سردی اور بھوک کی زیادتی سے میں نے بے اختیار اپنے ہاتھوں کو رگڑ ڈالا۔ مجھے کسی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں تھوڑی دیر آرام کرسکوں۔ اگر مَیں کل دس بجے تک بھی مٹیریل ڈپو تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تو خیر ہے لیکن اگر اس اندھیرے میں کسی گہری کھائی میں جا گروں تو مٹیریل ڈپو کے چیف کی موت واقع ہوجائے گی اور میں ابھی سے ’’استعمال شدہ‘‘ لوگوں کی فہرست میں شامل ہونا نہیں چاہتا تھا۔

میں نے ایک راستہ منتخب کیا جو ایک غار کے دَہانے تک جاتا تھا۔ وہاں لٹکا ہوا ایک پردہ اس بات کی نشان دہی کررہا تھا کہ غار میں کوئی رہائش پذیر ہے۔ شاید یہاں کام کرنے والے مزدور۔۔۔! میں نے بمشکل خود کو غار کے دَہانے تک پہنچایا اور اندر داخل ہوا۔

یہ عجیب غار تھا۔ دروازے میں سات یا آٹھ سال کا ایک بچہ ایک چھوٹے اسٹول پر بیٹھا تھا۔ اس کی کہنیاں گھٹنوں پر تھیں اور اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ اس کے رخسار سردی کی وجہ سے سرخ تھے۔ وہ پردے میں سے ایک سوراخ کے ذریعے مقابل چٹان کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔ جوںہی مَیں اندر داخل ہوا، اس نے اُچٹتی سی ایک نظر مجھ پر ڈالی اور پھر باہر دیکھنے لگا۔

غار بڑا ہونے کے باوجود گرم تھا جہاں کھانے کے کچھ برتن اور چولہا تھا۔ ایک بیڈ کے اوپر دیوار پر ایک تصویر لگی تھی جس میں ایک گل گوتھنا سا بچہ شلجم اُکھاڑ رہا تھا۔ غار کی تمام دیواروں پر پرانے اخبار چسپاں تھے جو دھوئیں سے سیاہی مائل ہوچکے تھے۔

گھر پر کوئی نہیں ہے؟ میں نے اپنے کوٹ اور ٹوپی سے برف جھاڑتے ہوئے پوچھا۔

وہ چھوٹابچہ اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے اور سینہ تانے یوں میری طرف بڑھا جیسے جَتانا چاہتا ہوکہ مَیں بھی کسی نوجوان سے کم طاقت نہیں رکھتا۔ میں نے دوبارہ اسے مخاطب کیا، کیوں چھوٹے بچے؟

میری بہن کا نام پائوچِنگ ہے اور میرا چِِنگ یو۔ وہ سختی سے گویا ہوا۔

یہاں کام کرنے والے مزدور عام طور پر اپنے بچوں کے نام ان ہی تکمیل شدہ یا زیرتکمیل کاموں کے نام پر رکھتے ہیں۔ مثلاً چِنگ یو ایک تعمیرشدہ ریلوے لائن اور پائوچِنگ مستقبل قریب میں تعمیرکی جانے والی ریلوے لائن کا نام تھا۔

یہاں کا موسم۔۔۔۔ یعنی برف کب تک رکے گی انکل؟ چِنگ یو گویا ہوا۔

جتنی جلدی یہاں ٹیلی فون لائن آجائے گی اور ہم دوسروں سے رابطہ کرسکیں گے، تب مَیں تمہیں بتا دوںگا۔ میں نے مذاق کیا مگر چنگ یو پھٹ پڑا۔ مجھے یہ بچکانہ پن پسند نہیں۔ آپ کی جیب میں اخبار ہے، آپ مجھے موسم کی صورت حال بتا سکتے ہیں۔

کیوں پوچھنا چاہتے ہو؟ کیا تم اس موسم میں باہر کھیل نہیں سکتے اس لیے!؟ میں نے ہاتھ سینکتے ہوئے پوچھا۔

نہیں۔ پاپا کہتے ہیںکہ اگر یہ موسم ٹھیک نہ ہوا تو ہمیں اپنا کام روکنا پڑے گا۔ چنگ یو بولا۔

وہ کیا کرتے ہیں؟ مَیں نے پوچھا۔

وہ پہاڑ کھودتے ہیں۔ وہ دُور ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

میں نے اپنے برف سے اَٹے ہوئے جوتے نکالے اور انہیں جھاڑنے لگا۔ زمین پر یوں زور سے جوتے جھاڑنے پر ایک دَم چِنگ یو بولا، آرام سے انکل! میری بہن جاگ جائے گی۔

تم واقعی اپنی بہن کا خیال بہت اچھی طرح رکھتے ہو۔ میں نے کہا۔

میری امی کہتی ہیںکہ اسے سنبھالنا میری ذمے داری ہے۔ پھر جب وہ گھر آجاتی ہیں تو میں آزاد ہوجاتا ہوں یعنی میری ڈیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔

او۔۔۔۔! تو تم روزانہ ڈیوٹی پر ہوتے ہو؟ میں نے اسے چُمکارا۔ تمہاری ماں کہاں ہیں؟

اس نے غار سے نیچے روڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، وہ ٹریفک وارڈن ہیں۔ میں نے نیچے دیکھا تو روڈ پر ٹیلی فون پول کے پاس برف کا ایک ’’مجسمہ‘‘ نظر آیا جو ٹریفک سنبھال رہا تھا۔ گو روڈ اتنی وسیع نہ تھی مگر وہاں ٹریفک رواں دواں تھی۔

اگرچہ آج برف کی وجہ سے گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ چنگ یو کی ماں چاہتی تو گھر پر آرام کرسکتی تھی مگر وہ اپنا کام مستعدی سے کررہی تھی اور باربار دور پہاڑی پر اپنے شوہر کی طرف ہاتھ بھی ہلا رہی تھی جو پہاڑ کھودنے کے لیے آسمان اور زمین کے درمیان معلق تھا، اور وقفے وقفے سے اپنے بیٹے کو بھی دیکھ رہی تھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ اس کا یہ عمل اس کے بیٹے اور شوہر کی ہمت بندھا رہا ہوگا۔ میں چنگ یو ی طرف متوجہ ہوا جس نے اپنی بہن کو اٹھا رکھا تھا۔ اس کا سر نیند کی وجہ سے ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا اور وہ اونگھ رہا تھا۔

بیٹا! بہتر ہے کہ کچھ دیر آرام کرلو، میں تمہاری بہن کو سنبھال لوںگا۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ اس نے سُتی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور سمجھا کہ شاید اس کے ماں باپ آگئے ہیں مگر دوسرے ہی لمحے وہ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں کی پُشت سے اپنی آنکھیں رگڑ کر بولا، میری مما اور بابا کہتے ہیںکہ ’’آدمی کو وہ جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے جہاں اس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہو۔‘‘

میں نے پیار سے اس کے گال پر چپت لگائی اور کھڑا ہوگیا۔ اپنا کوٹ پہنا، ہیٹ کو زور سے نیچے کیا اور غارسے نکل کر اپنا راستہ لیا۔ سڑک جو چٹان میں دھماکے سے بنائی گئی تھی، کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا آگے بڑھا۔ بچے کے الفاظ میرے دماغ میں گونج رہے تھے۔

’’آدمی کو وہ جگہ نہیں چھوڑنی چاہیے جہاں اس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہو۔‘‘

ایک کام میرا منتظر تھا اور میں مزید دیر کیے بغیر اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا تھا۔