ڈیوڈ کیمرون اور وزیرِاعظم پاکستان

کوئی بھی نظام مکمل نہیں ہوتا کیونکہ مکمل تر دکھائی دینے والے نظام میں بھی ہمیشہ بہتری کی صورت موجود رہتی ہے۔ وجہ جس کی محض ارتقاء کا قدرتی عمل ہے۔ انسان ارتقاء کا شکار ہے۔ انسانی رویے معاشرتی اقدار، معیشت اور سیاسی بندوبست میں نمو پاتے ہیں۔ اسی طرح نظام ہمیشہ انسانی ضروریات کے پیش نظر ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ انسان نظام پر اور نظام انسان پر ایک ہی وقت میں اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ قومیں جو نظام کے تحت زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہیں زیادہ کامیابی حاصل کرتی ہیں جبکہ نظام کو نظرانداز کرنے والی قومیں کسی گواچی گائے کی طرح اِدھر اُدھر منہ مارنے اور جگالی کرنے سے آگے نہیں بڑھ پاتیں۔

آج برطانیہ کا سیاسی اور حکومتی نظام اپنی مثال آپ ہے جبکہ وطنِ عزیز میں آئے روز برطانوی نظام، جموری رویوں اور انتظامِ حکومت کا موازنہ پاکستان اور اس کے حکمران طبقے سے کیا جاتا ہے۔ ذکر ہے ایک طرف ڈیوڈ کیمرون کے سیاسی اور ذاتی رویوں کا جہاں انہوں نے نہ صرف اپنی ایک ناکامی پر وزارتِ عظمی سے استعفی دیا بلکہ ڈائوننگ اسڑیٹ سے اپنا سامان بھی خود اٹھا کر شفٹ کیا۔ فی الحال بات یہیں روک کر ان اعلی سیاسی اور ذاتی رویوں کا سراغ ڈھونڈنے کی جسارت کرتے ہیں جو برطانیہ کو برطانیہ اور پاکستان کو پاکستان بناتی ہیں!

بنیاد رکھی جاتی ہے 1066ء میں جب ولیم آف نورمنڈے انگلستان کو فتح کرتا ہے اور زمیندار افراد پر مشتمل مشاورتی کونسل کی تشکیل دیتا ہے جس کا کلی مقصد بادشاہ کا قانون سازی سے قبل مشورہ کرنا ہے۔ اس نظام کو بعد ازاں جاگیردارانہ نظام سے جانا گیا۔ اگلا تاریخی قدم 1215ء میں اٹھایا گیا جب انگلستان کے بادشاہ جَون کی جانب سے فرانس کے خلاف جنگ کے لئے محصولات میں بے پناہ اضافہ کیے جانے کے باعث انگلستان کے اعلی درجے کے امراء نے علم بغاوت بلند کیا جس کے نتیجے میں ’میگنا کارٹا‘ یا گریٹ چارٹر ظہور پذیر ہوا جس کے تحت بادشاہ کی جانب سے محصولات کے لاگو کئے جانے اور وصولی کے اختیارات کو کسی حد تک محدود کرتے ہوئے انہیں شاہی مشاورتی کونسل یا لارڈز کی توثیق سے مشروط کیا گیا۔ یہی میگنا کارٹا بعد ازاں انگلستان کی قانون سازی میں اصول فراہم کرتا رہا اور آج بھی اسے انگلستان میں تاریخی اہمیت کا حامل دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ 1265ء میں مونٹی فورٹ نے مشاورتی کونسل میں شہروں اور قصبوں کے نمائندوں کوشریک کیا اور یوں ایسی پارلیمان کی بنیاد رکھی جس میں انگلستان کے اعلی امراء و پادریوں کے ساتھ ساتھ کمتر مفاد رکھنے والے افراد اور گروہوں کو بھی امورِ مملکت میں شراکت کا موقع ملا۔ 1275ء میں ایڈورڈ اول نے انتخابات کے ذریعے ہر شہر اور ضلع سے دو دو افراد کو پارلیمان میں شمولیت کا حکم جاری کیا۔ ان افراد کا کام بادشاہ کی بات سننا اور نئے محصولات کی توثیق کرنا تھا۔ پارلیمان کا یہ گروہ 1332ء کے بعد ایڈورڈ سوئم کے دور سے ہاوس آف کامن کہلایا۔ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حقِ رائے دہی انتہائی محدود افراد کو حاصل تھا جس کی شرط کم از کم اکیس برس کا صاخبِ جائیداد و حیثیت مرد ہونا تھا۔ خواتین کو سرے سے ایسا کوئی حق حاصل ہی نہیں تھا جبکہ ووٹ سب کے سامنے کھلے عام ڈالا جاتا تھا۔

عملی طور پر حالانکہ اس تمام عرصہ میں پارلیمان کا کام امورِ مملکت پر محض گفت و شنید کرنا اور بادشاہ کی خواہشات اور اقدامات کی توثیق تھا لیکن محصولات کے معاملے پر دونوں فریق اپنے اختیارات کے استعمال کے عوض ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہوئے اپنے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنا لیتے تھے۔ 1376ء میں ہاوس آف کامن نے بادشاہ کے سامنے لارڈز کے ہمراہ اپنی شکایات پیش کرنے کے مقصد سے اپنا نمائندہ منتخب کیا جسے اسپیکر کہا گیا۔ چودھویں صدی کے اختتام تک یہ ایوانِ زیریں قوت پکڑ چکا تھا اور بادشاہ کے کئی وزراء اور ایک چانسلر پر اعتراضات اٹھا کر برخاست کرا چکا تھا۔ پندرہویں صدی کے درمیان پہنچتے پہنچتے یہ ایوان بادشاہوں کی ہوسِ اقتدار اور پیسے کی لالچ کو توثیق بخشتے ہوئے اپنے لئے اتنے اختیارات حاصل کرچکا تھا کہ انگلستان کا کوئی بھی قانون ہاوس آف کامن کی مرضی و منشاء کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ 1430ء میں حق رائے دہی کی شرائط مزید سخت کردی گئیں تھیں۔ اب صرف اکیس سال کا وہ مرد حق رائے دہی استعمال کرسکتا تھا جو کم سے کم چالیس شلنگ کی جائیداد کا مالک بھی ہو۔ یہ قانون اگلی چار صدیوں تک قائم رہا۔

پھر سترہویں صدی میں پارلیمان نے بادشاہ چارلس اول کے خلاف اختیارات سلب کئے جانے پر شدید اختلافات کے باعث باقائدہ جنگ لڑی اور انگلستان میں خانہ جنگی رہی جس میں کامیابی کے بعد پارلیمان نے انگلستان سے بادشاہت ہی کا خاتمہ کرکے اسے جموری مملکت کا درجہ دیا لیکن پھر فوجی سربراہ اور ڈکٹیٹر کر وم ویل کی بدترین کارکردگی کے نتیجے میں بالآخر بادشاہی نظام کو دوبارہ نافذ کردیا گیا۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے الحاق کے ساتھ برطانیہ کی پارلیمان کا ظہور ہوتا ہے اور اسی صدی کے اختتام پر برطانیہ کا الحاق آئرلینڈ سے بھی ہوجاتا ہے۔ انقلابِ فرانس کے اثرات سے بچنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ افراد کو حقِ رائے دہی دینے اور تجارتی یونینوں کو امورِ مملکت میں شریک کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی جس کے باعث سیاسی نظام میں تبدیلیاں ناگزیر ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ 1832ء میں ریفارم ایکٹ لایا گیا جس نے حقِ رائے دہی کے لئے جائیداد کی شرائط کچھ نرم کیں اور تمام علاقوں میں نمائندگی کو بہترکیا۔ 1867ء میں ایک اور ریفارم ایکٹ لایا گیا جس نے جائیداد کی شرط ختم کرکے کام کرنے والے مرد حضرات کو حقِ رائے دہی دیا اور علاقوں کی نمائندگی مزید بہتر کی گئی۔ اب کل آبادی کا 7 سے 8 فیصد حصہ حقِ رائے دہی استعمال کرسکتا تھا۔ 1872ء میں کھلے عام ووٹنگ کا خاتمہ کیا گیا۔ 1883ء میں انتخابات میں پیسے کے غلط استعمال اور غیر قانونی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی۔ 1884ء میں تمام علاقوں میں ووٹروں کو مساوی سیاسی حقوق دیے گئے۔ 1885ء میں انتخابی سیٹوں کی تقسیم میں خامیاں دور کی گئیں۔ 1911ء میں ایوانِ بالا یا ہاوس آف لارڈز کے ویٹو کا اختیار ختم کردیا گیا۔ 1918ء میں تیس سال کی خواتین کو پہلی بار حقِ رائے دہی دیا گیا۔ 1928ء میں خواتین کو مرد حضرات کے مساوی حقِ رائے دہی دے دیا گیا اور 1969ء میں عمر کی حد کم کرکے 18 برس کردی گئی۔

موجودہ سیاسی نظام تک پہنچنے اور رویے سیکھنے میں برطانیہ کو دس صدیاں لگی ہیں۔ رویے ایک دن میں نہ پیدا ہوتے ہیں نہ ٹھیک ہوتے ہیں۔ رویے آس پاس کے ماحول کی بنیاد پر پروان چڑھتے ہیں۔ نظام چلتے رہیں تو ارتقاء کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جاتے ہیں۔ برطانوی وزیرِاعظم اپنا سامان خود اٹھانے میں نہیں ہچکچاتا جبکہ پاکستانی وزیراعظم اسی قوم کا باشندہ ہے جو بستر سے اٹھ کر خود پانی پینا بھی اپنی توہین سمجھتی ہے۔ یہ ایک ایسی قوم کا حال ہے جو اپنی گلی میں پڑے کچرے کو اٹھا کر پاس پڑے کوڑے کے ڈرم میں ڈالنا بھی شرمناک محسوس کرتی ہے۔ یہاں تو کسی کمتر حیثیت والے سے تہذیب سے بات کرنا بھی غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو سیاسی نظام کو دو سال سے زیادہ چلتا نہیں دیکھ سکتے، ہمیں متلی ہونے لگتی ہے، ہم سست، نااہل و مسیحا پرست قوم ہیں! یہ ہمارے رویے ہیں جو صدیوں میں پروان چڑھے ہیں۔ لیکن بہرطور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ملک کا حکمران رول ماڈل ہونا چاہیے اور اسی لئے اس سے توقع بھی زیادہ ہوتی ہے۔

اِس لیے بہتر تو یہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کے جس خالی جہاز کو پاکستان سے منگوا کر اپنے گھرانے کے ہمراہ برطانیہ سے وطن واپس آئے ہیں اس کا پورا کرایہ اپنی ذاتی جیب سے ادا کرکے ایک اچھی مثال قائم کریں اور عوامی ٹیکس کا یہ پیسہ کسی بہتر مقصد کے لئے استعمال کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔