کیا ہونے والا ہے

موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے نزدیک ہے، نئے انتخابات کا عمل سر پر آن پہنچا ہے، یہ موقع سیاسی گہما گہمی، کچھ کرکے دکھانے اور مستقبل میں کچھ کرنے کا عزم و اعلان اور لائحہ عمل پیش کرنے کا ہوتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنی صف بندیاں کرتی ہیں مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرتی اور عوام کے سامنے اپنا انتخابی منشور پیش کرتی ہیں۔

انتخابی عمل قواعد و ضوابط اور آئینی تقاضوں اور طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی عمل کو کامیاب بنانے اور اس کے شفاف، آزادانہ و منصفانہ، بروقت اور پرامن انعقاد کی کوششیں کرتی ہیں لیکن فی الحال ملک میں سیاسی کیفیت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے، بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کا رویہ نگراں عبوری حکومت کی تشکیل کے طریقہ کار اور اسمبلیوں کی رکنیت کے مسئلے پر غیر حقیقی اور عملی طور پر ناممکن مطالبات کی وجہ سے منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بن رہا ہے جس کی وجہ سے چہار سُو بے یقینی کی فضا بنی ہوئی ہے ۔ ہر سیاسی شعور رکھنے والا انتخابات کے بارے میں فکرمند اور تذبذب کا شکار ہے کہ آیا انتخابات ہوں گے یا موخر کردیے جائیں گے یا پھر انقلاب، انارکی یا کوئی معجزہ رونما ہوگا۔

ہر شخص موجودہ سیاسی بحران پر منہ جگالی اور رائے زنی تو ضرورت کرتا ہے لیکن اس کے ذہن میں یہ سوال تشنہ طلب رہتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟ خوش آیند بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں فوج، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا رویہ اور کردار بڑا مثبت، ذمے دارانہ اور حقیقت پسندانہ ہے۔ انھوں نے حالات پر گہری اور دانشمندانہ نظر رکھی ہوئی ہے اور آئین اور جمہوری نظام کو درپیش خطرات سے قوم کو بھی آگاہ کردیا ہے۔ آرمی چیف نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ فوج انتخابات میں اپنے آئینی کردار سے آگے نہیں جائے گی اور الیکشن کمیشن کی آئین کے مطابق معاونت کی جائے گی۔

چیف الیکشن کمشنر نے بھی خبردار کردیا ہے کہ انتخابات موخر کرنے کی سازش کی جارہی ہے، ان کی اولین ترجیح یہ ہے کہ انتخابات کا آزادانہ، منصفانہ اور بروقت انعقاد یقینی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کے احکامات اور چیف جسٹس کے بیانات سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عدلیہ آزادانہ منصفانہ اور بروقت انتخابات کے لیے کوشاں ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں چیف جسٹس نے عوام کو تلقین کی کہ وہ انتشار و افراتفری پھیلانے والی جماعتوں کی حمایت نہ کریں۔ ملک میں حکمرانی صرف منتخب نمایندوں کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے، پاکستان کے ہر شہری کو ملک کے اندر عارضی قیام کی صورت میں بھی ریاست اور آئین کا وفادار رہنا ہوگا۔

عین اس وقت جب انتخابات کے شیڈول اور نگراں عبوری حکومت کی تشکیل اور قیام کا اعلان متوقع ہے اور اس کے لیے مشاورت آخری مراحل میں ہے ایسے وقت نگراں حکومت کی تشکیل کے طریقہ کار اور اسمبلیوں کی رکنیت کے مسئلے پر چند دنوں کا الٹی میٹم جو عملی اور عقلی اعتبار سے ناقابل عمل ہو کی صورت حال کو گمبھیر اور ہنگامہ انگیز بنادینا کوئی مثبت سیاسی عمل نہیں ہے۔ سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا قدیمی نعرہ فوجی طالع آزماؤں کا ساختہ اور آزمودہ نسخہ ہے جسے عوام کے استحصال کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ایسا کون سا سیاسی فلٹر ہے جس سے چھن کر چشم زدن میں سارے کرپٹ سیاستدان و حکمراں علیحدہ ہوجائیں، ان کی سیاسی غلاظتیں اور کثافتیں اتنی زیادہ ہیں کہ آن واحد میں ان کا تدارک، بیخ کنی یا خاتمہ ناممکن ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا اس کا مطالبہ کرنے والے خود اتنے پاک صاف ہیں اور ان اصولوں پر پورا اترتے ہیں؟ غور طلب پہلو یہ ہے کہ علامہ قادری خود اور ان کی ہمنوا جماعتیں اپنے دعوے اور ایک دوسرے کے ساتھ کتنا مخلص ہیں اور ان کی یہ مفاہمت مستقبل میں بھی اسی طرح چل سکے گی؟ قادری صاحب کے ایجنڈے کو سب سے پہلے گود لینے والے عمران نے دعویٰ کیا ہے کہ دراصل قادری صاحب کا ایجنڈا انھی کا سیاسی ایجنڈا ہے اس لیے وہ اس کی دو ٹوک بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

قادری صاحب کے لاہور کے حالیہ جلسے نے عمران خان کے جلسے کی دھول بہت جلدی بٹھا دی ہے۔ جس طرح عمران خان کے سیاسی شو کے بعد اس میں جوق درجوق شامل ہونے والے پیشہ ور سیاستدانوں کی قطاریں لگ گئی تھیں مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاستدان اپنے نظریات اور وابستگیاں بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف کی چھتری تلے آبیٹھے تھے یقیناً عمران خان کو بھی یہ فکر دامن گیر ہوگی کہ قادری صاحب کے نئے سیاسی شو کے نتیجے میں ان کی پارٹی میں نووارد سیاسی پنچھی بھی کہیں قادری صاحب کی چھتری پر نہ جابیٹھیں۔ اسی لیے نائب وزیراعظم اور عمران خان نے قادری صاحب کے مارچ کی بھرپور تائید و حمایت تو ضرور کی ہے لیکن اپنے سیاسی پنچھیوں کی شرکت سے انکار کردیا ہے۔

پاکستانی عوام انتہائی بدنصیب اور حکمراں و سیاستدان بے حد سنگدل، بے حس، کرپٹ اور دھوکا باز ہیں۔ جمہوریت، انقلاب اسلام اور سب سے پہلے پاکستان جیسے کھوکھلے نعرے دھوکے، فریب اور ملک و قوم کے استحصال کے لیے لگائے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا جب تک عوام میں سیاسی شعور بیدار نہیں ہوجاتا۔ اسباب و وسائل حکمرانوں کا حق رہیں گے اور بھوک، افلاس، بدامنی، قتل و غارت گری، مہنگائی، بیروزگاری اور بہتر مستقبل کے سپنے عوام کے حصے میں آتے رہیں گے۔

سی این جی کی لائنیں، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ طویل ہوتی رہے گی، صنعتوں کی بندش اور منتقلی بھی ہوتی رہے گی، لاشیں گرتی رہیں گی اور موبائل سروسز معطل ہوتی رہیں گی، کھربوں کی زمین قبضہ میں بھی کی جاتی رہے گی اور کوڑیوں کے دام اور انعام واکرام اور نوازشات میں دی جاتی رہے گی، اتحادی ڈرون حملے کرتے رہیں گے اور پسندیدہ ملک سرحدی جھڑپیں اور الزام تراشیاں جاری رکھے گا۔ انقلابی نعروں کا نتیجہ بھی صرف چہرے بدلنے اور موجودہ کرپٹ اور غلامانہ نظام کے دوام کی صورت میں نکلے گا۔ علامہ قادری اسلام آباد کو التحریر اسکوائر بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔

انقلابات صرف دعوئوں یا خواہشات سے نہیں آتے اس کے لیے سیاسی تدبر اور فن کی ضرورت ہوتی ہے، عوامی تحریک سیاسی تدبر کے فن اور سائنس سے بھی مزین نظر نہیں آتی جو اسے حقیقی معنوں میں سیاسی عمل میں شرکت کا اہل ثابت کرسکے چہ جائیکہ ملک میں کوئی فکری یا سیاسی انقلاب برپا کرسکے۔

علامہ صاحب اگر ناقابل عمل الٹی میٹم دینے کے بجائے اپنے نعرے اور مطالبات کے حصول کے لیے جو حقیقتاً ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اگر کوئی قابل عمل لائحہ عمل دیتے تو عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجاتیں، مثلاً وہ یہ مطالبات رکھتے کہ کوئی جماعت آئین کے تحت اہلیت نہ رکھنے والے امیدوار کو انتخابی ٹکٹ نہیں دے گی اگر ایسا کیا تو عوامی تحریک فوری طور پر اس کی نامزدگی کو عدالت اور الیکشن کمیشن میں چیلنج کرے گی اور اس حلقے میں دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایسے نااہل امیدوار کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑا کرے گی تاکہ قانون اور سیاسی سطح پر ایسے افراد کا قلع قمع کیا جاسکے۔

یا ایک انتخابی ضابطہ اخلاق بناکر عوامی دباؤ کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو پیش کیا جاتا کہ وہ چیدہ چیدہ باتیں جو قادری صاحب کا ایجنڈا ہیں تمام سیاسی جماعتیں انھیں اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں اور عمل کی یقین دہانی کرائیں یا یہ کہ جو سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے تحت معیار پر پورا نہ اترتی ہوں مثلاً اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتی یا پارٹی الیکشن وغیرہ نہیں کراتی ہیں ان کے انتخابی عمل میں شرکت کی پابندی پر عمل درآمد کرایا جائے۔

سیاسی جماعتوں سے اس بات کی یقین دہانی حاصل کی جاتی کہ وہ برسر اقتدار آکر کرپشن اور نااہلیت کے خلاف فوری بھرپور اور موثر کارروائی کریں گی اور اگر ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو پھر اس الٹی میٹم کا سامنا کریں گی جس کا اعلان قادری صاحب کرچکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہر دور میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن عوام، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ ملک اس وقت جس نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کے پیش نظر کسی بھی قسم کی محاذ آرائی ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فی الحال محاذ آرائی کے بجائے صبر وتحمل اور دانشمندی سے پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے قانونی اور مہذب انداز میں معاملات طے کیے جائیں۔