ٹرین کا الم ناک حادثہ

ایک اورالمناک حادثہ لاہور سے کراچی جانے والی شالیمارایکسپریس کی شیخوپورہ کے قریب آئل ٹینکرسے ٹکرکے بعد ٹرین کے انجن اوربوگیوں میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں انجن ڈرائیور اوراس کا اسسٹنٹ موقعے پرجاں بحق ہوگئے اور10 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیمیں تاخیر سے پہنچیں اورانھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مسافروں کوکھڑکیوں کے شیشے پتھر سے توڑکر باہر نکالنے کی کوشش کی، اور 9 بوگیوں کو بھی دھکا لگا کر باقی ٹرین سے الگ کیا ،فائربریگیڈ کو دوگھنٹے سے زائد کا وقت آگ بجھانے میں لگا۔ محکمانہ سطح پر تاحال ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے جس سے ان حادثات کا تدارک کیا جاسکے جب کہ عوامی سطح پر آگاہی نہ ہونے اورجلد بازی کی علت  لوگوں کو موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔آئل ٹینکر کے ڈرائیور اور پھاٹک مین کو پولیس نے گرفتارکیا ہے۔

پھاٹک مین کا کہنا ہے کہ اس نے بہت چیخ و پکار کرکے پہلے آئل ٹینکر والے کو روکا تھا لیکن عین ریلوے لائن پراس کا ٹینکر خراب ہوگیا، جب کہ ٹرین آنے سے پہلے اسٹاپ سگنل کے لیے کہا تو اس کی کسی نے نہیں سنی۔ کیا کوئی ایسا نظام نہیں کہ پھاٹک والا کسی ایمرجنسی کی صورت میں فوری طورپرآنی والی ٹرین کے ڈرائیورکوآگاہ کرسکے جب کہ اس جدید دور میں موبائل فون ہرکسی کے پاس موجود ہے۔ آئل ٹینکر والا بھی حادثے کا ذمے دار ہے جس نے عجلت کا مظاہرہ کیا۔ مسافروں اور ریلوے عملے پر نصف شب کو جو قیامت بیتی اس کا سوچ کر بھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

کبھی ایسا نہیں ہوا، کہ ریلوے کا محکمہ مسافروں کا خیال کرے، نہ تو ریسیکوآپریشن فوری طور پرشروع ہوتا ہے نہ ریسیکو ٹرین پہنچتی ہے بروقت ، مسافر رل جاتے ہیں جو زخمی ہوتے ہیں وہ جان سے جاتے ہیں۔ ریلوے ٹریک کو بحال کرنے کے لیے بھی کئی گھنٹے کی تاخیر سے ٹرینوں کی آمدورفت بھی متاثر ہوئی ہے،ایسی ہیوی کرینوں کی کمی ہے جوفوری طورپر ٹریک کو بحال کرسکیں۔ مین لائن کی ٹرینیں دوسرے راستے جائیں گی یعنی پورا نظام درہم برہم ہوا ہے۔ ریلوے حادثات کا تسلسل اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ غفلت پر سزا کا نظام موجود نہیں ہے، پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ جس زبوں حالی کا شکارہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔