کراچی سے باغ آزاد کشمیر تک

کچھ ساتھیوں کے بلاوے پر اورگرمیوں کے دو ہفتے گزارنے کے لیے باغ، آزادکشمیر جانا ہوا۔ یہ وہی کشمیر ہے جہاں ریشم کے مزدوروں نے ہڑتال کی تھی اور کسانوں کی عظیم الشان ہڑتال ہوئی تھی۔ سرکارکو ٹیکس نہ دینے کے شرط پہ ہڑتال کی۔

حکمرانوں نے ہمارے سات کسان رہنماؤں ملی خان، سبزعلی خان اور مسافرخان سمیت منگ میں ایک زیتون کے درخت کے ساتھ الٹا لٹکا کر ان کی کھال کھینچی گئی تھی مگر سلام ہے ان رہنماؤں کو جنھوں نے اپنی جان تو قربان کر دی مگر معافی نہیں مانگی۔ یہ ہے جدوجہد اور جرات کی انتہا۔ جس پر پورے برصغیر اور دنیا بھر کے محنت کشوں کو فخر ہے کہ ہمارے رہنما،کارکنوں کو نہیں دھکیلتے بلکہ خود آگے بڑھ کر قربانی دیتے ہیں۔

یہ لڑائی کشمیر میں ہی نہیں بلکہ اس طبقاتی سماج یعنی عالمی سرمایہ داری کے خلاف دنیا بھرکی پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش عوام لڑ رہے ہیں۔کہیں کامیابی حاصل کر رہے ہیں،کہیں جدوجہدکر رہے ہیں اورکہیں وقتی طور پر شکست بھی ہو رہی ہے۔ جب تک طبقات رہیں گے، استحصال بھی ہو گا اور طبقاتی لڑائی بھی۔

بہرحال ہم جولائی کے آخری ہفتے میں آزاد کشمیرکے لیے بذریعہ ٹرین روانہ ہو گئے۔ راولپنڈی اسٹیشن پہ گاڑی پہنچی تو ہمارے دو ساتھی علی ناصر اور ممتاز آرزو اسٹیشن پر استقبال کر نے پہنچ گئے۔ رات کو ممتاز آرزوکے گھر رہے اور دوسرے دن باغ کے لیے روا نہ ہو گئے۔ چند گھنٹوں بعد باغ ( ڈھلی) بس اڈے پر پہنچے تو را جہ رفیق نے استقبال کیا۔ میرے ساتھ تارا اور روزا بھی تھیں، پھر ہم النور ہو ٹل میں ٹھہرے۔ راجہ رفیق میرے 25 سال پرانے ساتھی ہیں۔ جن کے باغ کے زلزلے میں ماں اور پانچ ماہ کی بیٹی فوت ہوگئی تھی اور ایک بیٹی معذور ہو گئی۔

رفیق جس اسکول میں پڑھاتے تھے اسی اسکول میں دوسرے کمرے میں ان کی بیٹی پڑھ رہی تھی اور اسی کے ساتھ حادثہ ہوا جو معذور ہو گئی۔ وہ علا مہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ وہ چل پھر نہیں سکتی مگر بے حد ذہین ہے۔ راجہ رفیق نے جن لوگوں سے ملا قات کرائی ان میں ایک استاد بشیر چغتائی تھے دوسرے استاد خاور ندیم تھے، ایک بینکر ظہیر اور باغ ٹائمزکے صحافی طاہر نذیر تھے۔

دو روزکے بعد ایک اور استاد پروفیسر خان میرے ہوٹل میں آئے اور اپنے ساتھ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ جنھوں نے این ایس ایف کے خواجہ عابد اور دیگر طلبہ سے ملا قات کروائی، آزادکشمیر ہیلتھ ورکرز کے رہنما حسین اور پی ڈبلیو ڈی کے رہنما شکیل سے ملاقات کروائی۔ انھیں کے گھر پر میرے ایک دیرینہ ساتھی ممتاز راٹھور کی اہلیہ شمع اپنے بچوں کے ہمراہ ہم سے ملا قات کرنے آئیں۔

یونائیٹیڈ کشمیر پارٹی کے رہنما پروفیسر ایم خالد سے ملا قات ہوئی جوکہ شاہ ولی اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی کے پیروکاروں میں سے تھے۔ انھوں نے مجھے اپنی پارٹی کا منشور پیش کیا جس میں لکھا ہوا ہے کہ ’’ہماری پارٹی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سوشلسٹ معیشت کے قائل ہیں۔ بقول ان کے مولانا عبید اللہ سندھی نے لینن اورکمال اتا ترک سے ملا قات کے بعد سوشلسٹ نظریے اور سیکولر ریاست کے حامی ہوگئے یعنی لینن سے ملاقات کر کے سوشلسٹ اورکمال اتا ترک سے مل کر نیشنلسٹ ہو گئے۔

واضح رہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی اعلیٰ پائے کے اسلامک اسکالر، محقق اور مقرر تھے۔ جن کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ آزاد کشمیر ہیلتھ ورکرز نے اپنے دیرینہ مطالبے اسکیل کو اپ گریڈ کرنے اور دیگر مطالبات پر کامیاب ہڑ تال کی اور کچھ مطالبے منوائے بھی۔

یہ تو رہی حقوق اور اصولوں کی بات، جہاں تک کشمیر کے لوگوں اور ماحول کی بات ہے تو اس کی کوئی مثال نہیں۔ کشمیر میں پاکستان سے زیادہ شرح خواندگی ہے۔ یہاں کی بیشتر لڑکیاں اور خواتین خواندہ ہیں۔ یہاں صفائی ستھرائی کا نظام کراچی سے بہتر ہے۔ لوگ خود اپنے گھروں اور خاص کر واش روم بہت صاف ستھرا رکھتے ہیں اور سرکاری طور پہ بھی کو ڑا اٹھا نے کا بہتر نظام ہے۔ باغ میں نالا (مال کے نام سے) بہتا ہے، اس کا پا نی پہاڑوں کی چوٹی سے چشموں سے نیچے آتا ہے اور مال سے گزر کر دریا ئے جہلم میں جا گرتا ہے۔

اس نالے کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے، اور مچھلیاں کھانے میں بہت لذیذ ہوتی ہیں۔ یہاں کے باسی نالے سے ہی مچھلیاں پکڑکر کھاتے ہیں۔کشمیر کی سڑکیں بہتر ہوئی ہیں اور مزید بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔ اسی طرح پاکستان ریلوے کی ٹرینوں کی صورتحال بھی پہلے سے بہتر ہوئی ہیں۔ واش روم، برتھ، سیٹ، پانی اور صفائی کا بہتر نظام ہے۔ بہت بہتر تو نہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ پہلے سے بہتر ہے۔ کشمیر میں راجہ رفیق اورکامریڈ خان نے تو مہمانداری کی انتہا کر دی۔ خانصاحب کا تو پورا خاندان خدمت میں لگا ہوا تھا، انھوں نے خود بس اڈے پر آ کر ہمیں انتہائی خلوص سے رخصت کیا۔ ہم سے جب راجہ رفیق رخصت ہو رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

میں اسی روز سہ پہر اسلام آباد پہنچ گیا جہاں علی ناصر نے پرتپاک استقبال کیا۔ پھر وہ اپنے گھر لے گئے اور رات کو ایک نشست صیاد رفیق، ممتاز آرزو اور نور محمد مری سے ہوئی۔ بعد ازاں علی ناصر نے اپنی اہلیہ اور بچوں سمیت پورے خاندان سے ملا قات کروائی۔ وہ انتہائی پرخلوص، باشعور اور انسان دوست تھے۔

بہرحال کشمیر کے عوام ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں ۔آزادکشمیر میں 2600ء میگا واٹ بجلی کی پیداوار ہوتی ہے اورکشمیر کو 1500 میگا واٹ کی ضرورت ہے، وہ بھی انھیں میسر نہیں۔ بیشتر بجلی پاکستان چلی جاتی ہے اورکشمیریوں کو مفت ملنا تو درکنارکراچی کی طرح وہاں بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جب کہ بجلی کی پیداوار ہوتی وہاں یہ حال ہے ۔