میں یونہی تو حضرت کا عقیدت مند نہیں

وسعت اللہ خان  پير 10 جون 2013

کوئی پوچھے کہ پاکستانی سیاست میں میرا آئیڈیل کون ہے تو بلا تامل کہوں گا، حضرت مولانا فضل الرحمان۔میں نے بہت سے سابق و حاضر سیاستدانوں اور علما کی زندگی کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے مگر حضرت کا ہمسر دور دور تک نہیں۔دینی معاملات سمجھنے ہوں کہ دنیا کی تہہ چھاننا ہو۔حضرت جیسی پہلودار شخصیت کم ازکم عصرِ حاضر میں تو ناپید ہے۔میں تو اقبال کے اس مصرعے میں بھی حضرت کو ہی دیکھتا ہوں کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

درویش صفت مولانا مفتی محمود مرحوم کے پانچ بیٹوں میں حضرت صاحب سب سے بڑے ہیں۔آپ نے ولی عہد ہونے کے ناطے مفتی صاحب کی جمیعت علمائے اسلام کا بھی ایک مقدس ملکیت کی طرح خیال رکھا۔اور جب مولانا سمیع الحق اور بعد ازاں مولانا عصمت اللہ صاحب نے اپنے دھڑے الگ کرلیے تو باقی جماعت کو ممکنہ انتشار سے بچانے کے لیے آپ نے برادر عطا الرحمان ، برادر لطف الرحمان اور برادر عبید الرحمان وغیرہ کو بھی ان کی استطاعت کے اعتبار سے کاروبارِ سیاست و شریعت کے اسرار و رموز سے روشناس کرایا۔ شنید ہے کہ صاحبزادے اسد الرحمان کو بھی مستقبل شناس تربیت سے گذارا جارہا ہے۔

دین و دنیا سے مالا مال حضرت فضل الرحمان آج جس مقامِ محمود پر فائز ہیں، اس کے پیچھے بڑا کشٹ اور نفس کشی کی تپسیا ہے۔گوتم بدھ نے جو منزل فاقہ کشی سے گذر کے حاصل کی حضرت نے وہی منزل فاقہ شکنی سے گذر کر حاصل کرلی۔حالانکہ ابتدائی سیاسی زندگی پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو سن اکیاسی میں والدِ بزرگوار کی رحلت کے بعد حضرت کو بادلِ نخواستہ جمعیت کا سیکریٹری جنرل بننا پڑا۔یہ عہدہ پھولوں کی سیج نہیں تھا۔جنرل ضیا کا دور تھا۔ہر کوئی اپنی قیمت لگا رہا تھا یا لگوا رہا تھا۔مگر حضرت نے دیگر دینی سیاسی جماعتوں کے برعکس خود کو تحریکِ بحالیِ جمہوریت ایم آر ڈی کے کانٹوں میں گھسیٹا اور ضیا الحق سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔جب ضیا الحق کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد انیس سو اٹھاسی میں پہلے جماعتی انتخابات ہوئے تب تک حضرت انیس سو چوہتر سے پچاسی تک مختلف مرحلوں میں چھ سات برس قید و بند کی صعوبتوں کا تجربہ اٹھا چکے تھے۔

تاہم حضرت کی دوربین نگاہوں نے سن ستر سے سن اٹھاسی تک کے تلخ و شیریں تجربات سے بہت کچھ حاصل کیا۔غالباً بہت سوچ و بچار کے بعد حضرت کو عرفان ہوا کہ کیونکہ اب صرف والدِ گرامی کی درویشانہ وراثت ، قید و بند کے تجربے ، محض آئیڈیل ازم ، تحریک کی سختیوں اور حکمران طبقے کے سامنے ڈٹ جانے اور حق بات کہنے والوں کی قدر کرنے والے لوگ اٹھ گئے ہیں۔لہذا باہر بیٹھے بیٹھے سسٹم پر سنگ زنی لاحاصل ہے۔حکمت کا تقاضا ہے کہ موجودہ ناقص اور ریاکارانہ نظام کو اندر سے ہی اسی کی چالیں اسی پر الٹ کے مات دی جائے۔وہ دن اور آج کا دن حضرت نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور خود کو چٹان کی طرح ایک جگہ ساکت رکھنے کے بجائے پانی جیسا کرلیا اور پانی کو بھلا کون روک سکا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کایا کلپ کے بعد حضرت مسلسل مدارج ِ اولی طے کرتے چلے گئے۔انھوں نے دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق و فرائض کے حصول کے لیے بھی خود کو وقف کردیا اور آڑے وقت میں ہر ایک کے کام آنے کو شعار بنایا۔ مقصد اور نیت چونکہ کھرے تھے چنانچہ انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں سات ، انیس سو نوے میں چھ ، انیس سو ترانوے میں چار ، انیس سو ستانوے میں دو ، دو ہزار آٹھ میں چھ اور دو ہزار تیرہ میں چودہ پارلیمانی سیٹیں جیتیں۔سینیٹ میں سات نشستیں حاصل کیں اور اٹھاسی سے اب تک ہونے والے سات انتخابات میں صرف دو مرتبہ اپنی نشست ہارے بلکہ ہروائے گئے۔

بظاہر دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست میں اوسطاً دو سے چودہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کی سو سے زائد سیٹیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے آگے بہت زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔مگر حضرت کبھی بھی عددی چکر کے چکر میں نہیں پڑے بلکہ انھوں نے میدانِ سیاست کے مشاق کھلاڑی کے طور پر اپنی قلیل عددی قوت کے ساتھ ہی حریف پر ایسے ایسے داؤ پیچ ڈالے کہ آخر میں اسے حضرت کے آسمانی اعتماد سے مرعوب ہوتے ہی بنی۔

کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ حضرت اپنی انتخابی نشستوں کو دراصل وہ سیاسی لیموں سمجھتے ہیں جسے کسی کے بھی کھانے پر چھڑک کے شریک ِ ضیافت ہوا جاسکتا ہے۔مگر اس طرح کی باتیں بہتان طرازی کے سوا کچھ نہیں۔یہ نادان نہیں جانتے کہ اگرچہ جدید سیاست کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر کھڑی ہے مگر حضرت نے کبھی بھی اقتدار کو حتمی منزل نہیں جانا۔اگر ایسا ہوتا تو انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے بعد وہ بلا جھجک محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس چلے جاتے۔مگر عورت کی حکمرانی کے جائز و ناجائز ہونے کا شرعی مسئلہ حضرت کے لیے کسی بھی دنیاوی منصب سے زیادہ اہم تھا۔اور جب حضرت کو شرحِ صدر ہوگئی کہ بعض حالات میں زنانہ حکمرانی مجبوری بن جائے تو اسے طوعاً کرہاً قبول کرنا ہی حکمت ہے۔تب بھی حضرت نے محترمہ کی غیر مشروط حمایت کا اتاؤلا پن نہیں دکھایا بلکہ اس یقین دہانی کے بعد ہی ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے کہ بے نظیر حکومت نفاذِ شریعت کے کام میں ہرگز ہرگز پہلو تہی نہیں کرے گی۔اب اگر کوئی پہلو تہی ہوئی بھی تو محترمہ جانیں اور ان کا ایمان جانے۔

چونکہ حضرت ایک وضع دار و حلیم الطبع شخصیت ہیں لہذا ایک دفعہ جس کو اپنا کہہ دیں پھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔چونکہ وہ اور پیپلز پارٹی ایم آر ڈی میں بھی ساتھ تھے۔چونکہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کا پہلے دورِ حکومت میں بھی ساتھ دیا تھا۔ لہذا جب پی پی کا دوسرا دورِ حکومت آیا تو بی بی نے نازک ریاستی معاملات کے بارے میں حضرت پر ہی سب سے زیادہ اعتماد کیا اور نا صرف انھیں قومی اسمبلی کی امورِ خارجہ سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی کی سربراہی پر با اصرار آمادہ کرلیا بلکہ فوج کی تائید سے حضرت کو افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے طالبان کی تخلیق کے کام میں بھی شامل کرلیا۔مولانا نے اس کارِ خیر میں مدارس کے طلبا کو بھی شریک کیا۔ یوں کچھ ہی عرصے میں افغانستان میں عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم ہوگئی اور اس حکومت نے مولانا کے خوابوں کی تعبیر شریعت کے ویسے نفاذ کی صورت میں فراہم کی جیسی تعبیر مولانا پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اس کامیاب تجربے کے بعد اسٹیبلشمنٹ ایک ایسا کمبل بن گئی جس سے حضرت تو جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر کمبل جان نہیں چھوڑ رہا۔

سن ستانوے کے انتخابات میں ان لوگوں نے جنھیں حضرت کی کامیابیاں ایک آنکھ نا بھاتی تھیں، ایک بار پھر سن نوے کے انتخابات کی طرح سازش کرکے انھیں اسمبلی کے درشن سے روک دیا۔مگر حضرت نے یہ پورا عرصہ نہائت خندہ پیشانی سے گذارا اور خود کو دینی خدمات میں منہمک کرلیا۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دورِ مشرف طلوع ہوا اور پھر نائن الیون آگیا اور پھر افغانستان پر امریکا نے چڑھائی کردی۔چنانچہ حضرت کے سامنے دو ہی راستے تھے۔یا تو مصلحت کوشی اختیار کریں یا پھر مظلوم کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔چنانچہ انھوں نے افغانستان پر امریکی جارحیت کے خلاف دیگر دینی قوتوں کو ساتھ لے کر پورے ملک میں مظاہرے منظم کیے اور امریکا نواز مشرف حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے۔حضرت کو نظربند کردیا گیا۔ان پر غداری ، بغاوت ، لوگوں کو حکومت کے خلاف اکسانے سمیت جانے کیا کیا الٹے سیدھے مقدمات بنائے گئے مگر حضرت نے طاغوت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ان کی اس ثابت قدمی سے مشرف حکومت اخلاقی طور پر خود کو نیچ اور کمزور محسوس کرنے لگی۔ لہذا اس نے اپنی خفت مٹانے اور احساسِ جرم کم کرنے کے لیے صرف پانچ ماہ بعد ہی حضرت پر سے سب مقدمات واپس لے لیے۔یہی نہیں بلکہ حضرت کی نگاہوں میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کے لیے اکتوبر دو ہزار دو کے عام انتخابات سے قبل چھ دینی جماعتوں پر مشتمل متحدہِ مجلسِ عمل کی تشکیل میں تکنیکی امداد بھی کی۔

مولانا نے کمال فراغ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ایم ایم اے کی صدارت قاضی حسین احمد کے لیے مان لی اور خود محض اتحاد کا سیکریٹری جنرل بننے پر اکتفا کیا۔جب نیت صاف ہو تو آسمانی و زمینی قوتیں بھی نیک طینتوں کے لیے کمر بستہ ہوجاتی ہیں۔چنانچہ دینی اتحاد کو ساٹھ نشستوں کی شکل میں وہ کامیابی ملی کہ خود حضرت اور ان کے ساتھی بھی ششدر رہ گئے۔انھوں نے با آواز بلند خدا کا شکر اور زیرِ لب احتشام ضمیر وغیرہ کا شکریہ ادا کیا اور صوبہِ سرحد کی حکومت بطور امانت سنبھالی۔ خود یا اپنے کسی قریبی کو وزیرِ اعلیٰ بنانے کے بجائے اکرم خان درانی کو اسی منصب پر متفقہ طور پر بٹھایا جس پر حضرت کے والدِ گرامی نے صرف چند ماہ بیٹھنے کے بعد مارچ تہتر میں بلوچستان حکومت کی بھٹو کے ہاتھوں برطرفی پر اصولوں کی خاطر لات ماردی اور پھر مرتے دم تک اقتدار کی جانب نا دیکھا۔

مگر دو ہزار دو میں ملک چونکہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ انیس ہزار پانچ سو اکتیسویں بار نازک دوراہے پر تھا لہذا حضرت نے نا صرف قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کا عہدہ قبول فرمایا بلکہ امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اوئے میڈم میں وزیرِ اعظم کا امیدوار ہوں۔تم اور تمہارا امریکا روک سکیں تو روک لیں۔

(وکی لیکس میں اگرچہ یہ واقعہ کسی اور طرح سے بیان کیا گیا ہے لیکن ہماری نظر میں وکی لیکس والوں نے حضرت کو تعصب کی آنکھ سے دیکھا ہے لہذا وکی لیکس کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ہے)۔

ہمارا اپنا خیال ہے کہ امریکا نے حضرت کو وزیرِ اعظم بننے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کیونکہ حضرت از قسم ِ ظفراللہ جمالی نہیں تھے۔

مگر حکومتِ وقت بطور اپوزیشن لیڈر حضرت کی اہمیت کیسے نظرانداز کرسکتی تھی۔چنانچہ جب مشرف صاحب بھارت کے دورے میں گند گھول آئے تو دونوں ملکوں کے درمیان خیر سگالی کی فضا بحال کرنے کے لیے مشرف کو بھی مجبوراً حضرت صاحب کی صلاحتیوں کا سہارا لینا پڑا۔آپ نے واجپائی صاحب سے بھی ملاقات کی اور بھارتی میڈیا نے آپ سے یہ بات بھی منسوب کی کہ کشمیر کا مسئلہ مذہبی سے زیادہ علاقائی ہے اور اگر بھارت آمادہ ہو تو ایک آؤٹ آف باکس حل کے طور پر لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد بنانے کا امکان بھی زیرِ بحث آسکتا ہے۔تاہم حکومتِ بھارت نے اس پر بھی کچھ زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
(کالم کا دوسرا اور آخری حصہ کل ملاحظہ کریں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔