شب قدر، فضیلت اور برکتوں کی رات

مولانا محمد ناصر خان چشتی  اتوار 4 اگست 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

ماہِ رمضان المبارک اور اس کی ستائیسویں شب یعنی ’’ شب قدر‘‘ کی عظمت و فضیلت اور اہمیت امت مسلمہ میں ہمیشہ سے مسلّم رہی ہے اور کیوں نہ رہتی کہ یہ رات تو گناہ گاروں کی مغفرت اور مجرموں کی جہنم سے نجات کی رات ہے۔ یہ رات تو عبادت و ریاضت، تسبیح و تلاوت، درود شریف کی کثرت، توبہ استغفار، کثرتِ نوافل، صدقات و خیرات، عجز و نیاز مندی اور مراقبہ و احتساب عمل کی رات ہے۔

اس رات کو ’’ شب قدر‘‘ ا س لیے کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اس رات میں ایک بڑی قدرومنزلت والی کتاب، بڑی قدر و منزلت والے رسولﷺ پر اور بڑی قدر و منزلت والی امت کے لیے نازل فرمائی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوں کہ اس شب میں اعمالِ صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ رب العزت میں ان کی بڑی قدر کی جاتی ہے، اس لیے اس شب کو ’’شبِ قدر‘‘ کہتے ہیں۔

 شب قدر، ہزار مہینوں سے بہتر

اﷲ تعالیٰ کا یہ بہت ہی بڑا انعام ہے کہ اس نے نبی اکرمؐ کی امت کو شب ِقدر کی صورت میں ایک بہت عظیم اور بے پایاں نعمت عطا فرمائی ہے۔ لیلتہ القدر کی عظمت و فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی قدر و منزلت میں قرآنِ مجید کی ایک پوری سورت ’’سورۃ القدر‘‘ کے نام سے نازل کی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’ بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ نے کیا جانا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر! ہزار مہینوں سے بہتر (رات) ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح (یعنی جبرائیل امین) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر (خیر) کے لیے اترتے ہیں، یہ (رات) طلوع فجر ہونے تک سراسر سلامتی ہے۔‘‘ (القدر، 1:5)

83 سال 4 ماہ کی عبادت

اس سورت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں (83  سال اور 4 ماہ) کی عبادت سے کہیں بہتر و افضل ہے۔ یہ حضور نبی اکرمؐ کی امت پر اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسانِ ہے کہ مختصر سے وقت میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے اتنی عظیم رات عطا فرمائی ہے۔ قرآنِ پاک میں اس رات کو ہزار مہینوں ( 30 ہزار راتوں) سے بھی افضل و اعلیٰ قرار دیا گیا ہے۔ وہ شخص جس کو اس عظیم رات کی معرفت اور حاضری نصیب ہو جائے اور وہ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں گزار دے تو گویا اس نے تراسی سال اور چار مہینوں سے بھی زیادہ زمانہ عبادت و ریاضت میں گزار دیا ہے اور اس زیادتی کا بھی حقیقی حال معلوم نہیں کہ ہزار مہینوں سے کتنا افضل ہے۔

لیلتہ القدر کا شانِ نزول

لیلتہ القدر کا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کی طبعی عمروں کو مختصر پایا اور خیال ہوا کہ وہ اس مختصر سی عمر میں اتنے اعمالِ صالحہ نہ کر سکیں گے جتنے کہ پہلی امتوں کے صالحین اور عبادت گزار بندوں نے اپنی طویل عمروں میں کیے تھے، پس اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری رسولؐ کو ’’شب قدر‘‘ عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل رات ہے۔ ساری رات فرشتوں کی آمد اور اللہ تعالیٰ کی بے حد و بے حساب رحمتوں، نعمتوں، برکتوں اور نوازشوں کے نزول کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور صاحبانِ ایمان کو بخشش و مغفرت اور نجات کی بشارتیں دی جاتی رہتی ہیں۔

شب قدر کی عظمت و فضیلت

اس عظیم الشان رات کی عظمت و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر آتی ہے تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام فرشوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر آتے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کے لیے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے یا بیٹھے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مشغول رہتا ہے، جب کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرشتے ان بندں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں۔‘‘ کتنا خوش نصیب اور بلند اقبال ہے وہ بندہ! جو اس رات کو اپنے پروردگار کی یاد میں بسر کرتا ہے۔ جبرائیل امین اور فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرنے کے لیے آسمان سے اُتر کر اس کے پاس آتے ہیں او ر اس کی مغفرت و بخشش کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔‘‘ (تفسیر ضیاء القرآن)

٭ ام المومنین حضر ت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور آپؐ کا یہ معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تھا تو آپؐ اپنا تہہ بند مضبوطی سے باندھ لیتے اور راتوں کو ذکر خداوندی سے زندہ کرتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی عبادت کے لیے جگاتے۔ حضر ت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ : ’’ رسول اللہﷺ (عبادت الٰہی میں) جتنا مجاہدہ ( کوشش) اس آخری عشرے میں فرماتے تھے، کسی دوسرے وقت میں ایسا مجاہدہ نہیں فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم)

حضرت سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’ لیلتہ القدر میں زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہوتا جہا ں فرشتے سجدے یا قیام کی حالت میں مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعا نہ مانگ رہے ہوں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام تما م مومنین سے مصافحہ کرتے ہیں اور سلام کہتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اگر تم اطاعت گزار ہو تو تم پر قبولیت اور احسان کے ساتھ سلام ہو۔ اگر تم گناہ گار ہو تو تم پر بخشش کے ساتھ سلام ہو۔ اگر تم سوئے ہوئے ہو تو تم پر رضاء الٰہی کے ساتھ سلام ہو۔ اگر تم قبر میں ہو تو تم پر خوشی اور خوشبو کے ساتھ سلام ہو۔ اس بات کی طرف اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ’’من کل امرٍ سلام‘‘ میں اشارہ ہے۔‘‘ ( غنیہ الطالبین)

 رحمت و مغفرت کی رات

لیلتہ القدر! وہ رات ہے جو صاحبان ایمان کے لیے مغفرت و رحمت اور بخشش کا پیغام لے کر آتی ہے۔ وہ رات جو رزق مانگنے والوں کو رزق، عافیت چاہنے والوں کو عافیت، صحت کی تمنا کرنے والوں کو تندرستی، خیر و بھلائی کے طلب گاروں کو خیر و بھلائی، اولاد کے خواہش مندوں کو اولاد کی نعمت، مغفرت کے متلاشیوں کو بخشش عطا کر جاتی ہے۔ اس عظیم الشان رات کی عبادت اور اجر و ثواب کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور سید عالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور اجر و ثواب کی نیت سے (نماز میں) قیام کرتا ہے، تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)

اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوا کہ شب قدر کی اصل عبادت ’’قیام اللیل‘‘ یعنی نماز ہے۔ اس لیے اس رات کو جتنا ہو سکے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر نماز (چاہے وہ فرض نماز ہو، واجب ہو یا نفل) پڑھنی چاہئے۔ اگر اس رات کی کوئی بھی عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے تو بندے کا بیڑا پار ہو جائے گا اور اس کی آخرت سنور جائے گی۔ نماز اور نوافل کی ادائیگی، تلاوت قرآن کریم، درود پاک کی کثرت کے علاوہ انسان خوب توبہ استغفار کرے اور اپنے تمام صغیرہ و کبیرہ اور دانستہ و نادانستہ گناہوں، خطائوں اور لغزشوں پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صدقِ دل سے توبہ و استغفار کریں اور خوب رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگ کر اپنے رب کریم کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔

شب ِقدر کی خاص دعاء

یوں تو قبولیتِ دعا کی خصوصی گھڑی ہر شب آتی ہے، لیکن شب قدر میں اس گھڑی کا رنگ اور انداز ہی کچھ اور ہوتا ہے، اس کی شان اور تاثیر ہی جدا ہوتی ہے۔ اس رات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس رات جو دعا بھی مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے، لہٰذا انسان کو چاہئے کہ وہ بڑی سرگرمی اور ذوق و شوق سے رمضان المبارک کے اس قیمتی لمحے میں بیدار رہے اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے گزار دے اور جب دعاء مانگے تو ایسی جامع دعا مانگے کہ پھر کوئی حسرت باقی نہ ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول ﷲ ﷺ! لیلتہ القدر نصیب ہو تو میں کیا دعا مانگوں؟ حضور سید عالمؐ فرمایا کہ یوں دعا کیا کرو۔ ’’ اے اﷲٰ! تو بہت درگزر کرنے والا ہے، تو درگزر کو بہت پسند کرتا ہے، پس تو میرے گناہوں سے بھی در گزر فرما دے۔‘‘ (جامع ترمذی، سنن ابنِ ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔