بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے پھر 286 ارب روپے تک پہنچ گئے

بزنس رپورٹر  جمعرات 17 اپريل 2014
بجلی کی لاگت وریونیو میں فرق670 ارب، سبسڈی 300 ارب روپے تک پہنچ جائیگی، آمدنی 4 فیصد کم، لائن لائسز بڑھ گئے، آئندہ ماہ 12 تا 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا اندیشہ۔  فوٹو: فائل

بجلی کی لاگت وریونیو میں فرق670 ارب، سبسڈی 300 ارب روپے تک پہنچ جائیگی، آمدنی 4 فیصد کم، لائن لائسز بڑھ گئے، آئندہ ماہ 12 تا 18 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا اندیشہ۔ فوٹو: فائل

کراچی: حکومت کے ذمے واجب الادا گردشی قرضہ ایک بار پھر 286 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ ہر ماہ گردشی قرضے میں 28.6 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

قبل ازیں حکومت نے 28 جون 2013 کو سابقہ تمام گردشی قرضہ ادا کردیا تھا، سال 2013-14 کے لیے بجٹ سبسڈی 150 ارب روپے تھی جو سال کے آخر میں ریونیو اور ادائیگی کے درمیان مجموعی فرق ہوگا۔ وزارت خزانہ ہر ماہ 25 ارب روپے سبسڈی کے جاری کررہی ہے، 286 ارب روپے کا یہ گردشی قرضہ سبسڈی ایڈجسٹمنٹ کے بعد ہے، اس کا مطلب ہے کہ رواں مالی سال تقریباً 670 ارب روپے کی کمی درپیش ہوگی جس میں سے 300 ارب روپے سبسڈی کے ذریعے دیے جائیں گے جبکہ 370 ارب روپے جون 2014 تک واجب الادا ہوں گے، رواں سال بجلی کی پیداوار میں اضافے اور صنعتی وکمرشل صارفین کے لیے بجلی کے نرخ اکتوبر 2013 میں بڑھائے جانے کے باوجود بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کے واجبات میں اضافہ حیرت انگیز ہے جس سے پاور سیکٹر منیجرز کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔

جون 2014 تک 2500 میگا واٹ کا اضافہ سسٹم میں متوقع تھا (جیسا حکومتی سطح پر دعویٰ کیا گیا تھا)، اگر ان خامیوں پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ معاملات حکومت کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے، حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سسٹم میں 1700 میگاواٹ کا اضافہ کیا، یہ اضافہ گیس اور آئل پر چلنے والے پلانٹس کی استعمال میں نہ آنے والی گنجائش کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، بجلی کی پیداواری لاگت اور قیمت کے فرق کو ٹیرف میں اضافہ کرکے پورا کیا گیا، اس دوران ریونیو کم یعنی گزشتہ برس 80 فیصد سے زائد کے مقابلے میں 76 فیصدرہا جبکہ لائن لاسز بھی زیادہ رہے، پاور سیکٹر کے فی الوقت حکومت اور نجی صارفین کے ذمے 420 ارب روپے واجب الادا ہیں، اسی طرح 420 ارب روپے کی رقم میں کافی بڑا حصہ گھوسٹ صارفین اور زائد بلنگ کا بھی ہے، اس رقم میں خراب گورننس کی وجہ سے روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

اگر حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر سے یہ رقم وصول ہوجاتی ہے تو آئی پی پیز کے واجبات میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگی، یکم اپریل 2014 تک نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے ذمے واجبات 286.148 ارب روپے تک پہنچ گئے، پاور پالیسی 1994 کے تحت قائم ہونے والے پاور پروڈیوسرز کے 149.75 ارب روپے واجب الادا ہیں، حبکو کے 60 ارب روپے سے زائد اور کیپکو کے 59 ارب روپے سے زائد واجب الاداہیں، اسی طرح حبکو اور کیپکو کو یہ ادائیگیاں پی ایس او کو کرنی ہیں، پاور پالیسی 2002 کے تحت قائم ہونے والے آئی پی پیز کے 39.26 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

نشاط پاور کے 4.4 ارب روپے، نشاط چونیاں کے 4.1 ارب روپے، اٹلس پاور کے تقریباً 3.9 ارب روپے، حبکو نارووال کے 3.6 ارب روپے، لبرٹی کے 5.2 ارب روپے، اٹک جین کے 5.1 ارب روپے اس گردشی قرضے میں شامل ہیں، حکومتی پاور کمپنیوں کے 78 ارب روپے بھی واجب الادا ہیں، مئی سے گرمیوں کے موسم میں شدت کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوجائے گا جس سے 12 سے 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوگی، حکومت کو پاور سیکٹر کی ادائیگیوں کیلیے انتظام کرنا ہو گا تاکہ پاور سیکٹر مکمل گنجائش کے ساتھ بجلی پیدا کرسکے اور صنعتوں اور عوام کو مشکلات سے بچایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔