کیا ہم مرچکے ہیں؟

اقبال خورشید  جمعرات 24 جولائی 2014

وہ سکون کی تلاش میں تھا۔ اور اِس تلاش نے ایک کٹھن روپ دھار لیا۔

اُس نے فاقوں کا لباس پہنا۔ کانٹوں کو بستر بنایا۔ تاریک غاروں، برفیلی چوٹیوں پر آسن جمائے۔ دھوپ میں خود کو جلا ڈالا۔ گیان دھیان کی نشستیں اتنی طویل ہو گئیں کہ چونٹیاں اُس کا بدن کھانے لگیں۔ پر کوششیں رائیگاں گئیں۔ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اور تب اس نے کٹھن تپسیا ترک کی۔ فاقوں سے دامن چھڑایا۔ گھاٹیوں سے نکل کر ایک درخت تلے بیٹھ گیا۔ اور وہاں، حقیقت اُس پر منکشف ہوئی۔ سچ کا ظہور ہوا۔ وہ پکارا اٹھا: ’’پا لیا۔ اور اب کبھی نہیں کھوئوں گا۔‘‘

کنفیوشس سچ ہی کہتا تھا: ’’دانائی گم شدہ جزیروں میں نہیں، بلکہ روزمرہ کی زندگی میں پوشیدہ ہے۔‘‘ جب کپل وستو کے شہزادے پر دانائی اتری، تو من شانت ہوا۔ چہرہ سکون سے دمک اٹھا۔ اس نے خواہش کو دُکھ ٹھہرایا۔ خواہش کو وابستگی اور وابستگی کو یادوں (ماضی) کی دَین قرار دیا۔

کامل سکون، جسے نروان کہا گیا، بدھ کی تعلیمات کا نچوڑ تھا۔ اور سکون میں کچھ ایسا سحر ہے کہ انسان صدیوں سے اِس کی تلاش میں ہے۔ اور یہی طلسم اُسے دولت، شہرت، گھر بار، سب تج کر یاتری بننے کی تحریک دیتا آیا ہے۔ دولت بے شک حسین ہے، مگر یہ کامل خوشی کی ضمانت نہیں۔ یہ متلاشیوں کے پائوں کی بیڑی نہیں بنتی۔ سکون کی تلاش ہی انسان میں علم کی جوت جگاتی ہے۔ عظیم دریافتوں اور ایجادات کے پیچھے بھی زندگی کو کچھ اور بہتر، کچھ اور پُرسکون بنانے ہی کا سپنا تھا۔

آج چہار سو بے سکونی چھائی ہے۔ انتشار سا انتشار ہے۔ اطمینان رخصت ہوا، اور مایوسی پھنکاری۔ شاید چند چہرے مطمئن ہوں۔ ورنہ بیش تر انسان بہتری کی امید کھو بیٹھے ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہوا؟ سکون کہاں روپوش ہو گیا؟ کیا دانائوں اور صوفیوں نے اُس راہ کی نشان دہی نہیں کی تھی، جو خوشی کی سرسبز وادی تک جاتی ہے؟ کیا مقدس کتابیں چپ ہیں؟

نہیں۔ قطعی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے حقیقت کو، جو سادگی میں پنہاں ہے، انتہائی گنجلک بنا دیا ہے۔ حقیقت، جو خود کو بڑی سہولت سے تاروں بھری رات یا کسی روشن صبح آشکار کر سکتی تھی، گم ہو گئی۔ ہم نے اپنے باغ میں کھلنے والے پھولوں کو نظرانداز کر دیا، اور تاریک جنگلوں میں نکل گئے۔ اب نہ تو ہمیں پنچھی پکارتے ہیں، نہ ہی پیڑ۔ ہم نے زندگی سے منہ موڑ کر موت پر مراقبہ کیا۔ اور یوں روحانی خوشی اور اطمینان کی تلاش کٹھن ہو گئی۔

دلوں کو جُھلساتے اس پُرآشوب دور میں ہر انسان سکون کا متلاشی ہے۔ سکون، جو اُسی جوہر سے تشکیل پاتا ہے، جس سے سچائی اور خوشی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اوروں کے مانند میری روح بھی جستجو میں نکلی۔ پُرخطر گھاٹیاں، دشت عبور کیے۔ تاریک غاروں میں آسن جمایا۔ قدیم مخطوطوں کی ورق گردانی کی، مگر اِس دشوار سفر میں کہیں خوشی نہیں ملی۔ ہاں، اُسے پایا، تو لوٹنے کے بعد۔ وہ برسات میں جھومتے درختوں میں، چہچہاتے پنچھیوں میں اور چٹختی کلیوں میں ظاہر ہوئی۔ کھلکھلاتے بچوں، والدین کی شفقت، خوابوں اور امیدوں میں اِس کی جھلک نظر آئی۔ ہاں، یہ محبت سے چھلکتی زندگی ہے، جو ہمیں خوشی کے خزانے تک لے جاتی ہے۔ مگر اُس پر قفل پڑا ہے۔ اگر آپ صوفیوں کے مانند ہر مرحلے سے گزرے ہیں، تو اِس قفل کو کھولنے میں وقت نہیں لگے گا۔ اِس کی چابی ہے؛ شکر گزاری!

کامل سکون کے گہنے فقط اُسے نصیب ہوتے ہیں، جو ممنونیت سے لبریز ہو۔ احساس تشکر کے طلسم سے آشنا ہو۔ نعمتوں کا شکر ادا کرنا جانتا ہو۔ تمام مذاہب نے اسی کا درس دیا۔ گیانیوں نے یہی نصیحت کی، مگر انسان کیسا بدقسمت ہے۔ کان ہیں، پر سنتا نہیں، آنکھیں ہیں، پر دیکھتا نہیں۔ جہل نے دلوں پر مہر لگا دی۔

تو صاحبو، سکون زندگی میں پنہاں ہے۔ زندگی، جو ایک نعمت ہے۔ اور بزرگ کہتے ہیں؛ اطمینان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے جنم لیتا ہے۔ اور نعمتوں سے مراد فقط دولت، شہرت اور اختیارات نہیں۔ مراد ہر وہ شے ہے، جس کا فطرت نے روئے زمین کے ہر انسان کے لیے اہتمام کر رکھا ہے۔ جیسے ہوا، جس میں صحت بخش توانائی تیرتی ہے۔ پانی، جو زندگی عطا کرتا ہے۔ سورج، جو روشنی کا ذریعہ ہے۔ چاند، جو آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔ زمین، جو زرخیز اور شفیق ہے۔ ماں باپ، جو سائبان ہیں۔ استاد، جو تربیت گاہ ہیں۔ دوست، جو غم بانٹتے ہیں۔ کتابیں، جو علم کی روح پھونکتی ہیں۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں کا شکر بجا لائے۔ یہی کتاب المبین کا حکم ہے: ’’اگر خدا کے بندے ہو، تو اس کی نعمتوں کا شکر بھی ادا کرو۔‘‘ (البقرہ:172)

ہاں، شکر گزاری میں سکون کی روشنی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواب تج دیے جائیں۔ انسان خواہشات سے لاتعلق ہوجائے۔ بے شک صبر اور قناعت کی نصیحت ہے، مگر زمین پر اپنا وسیلہ تلاش کرنے کا بھی حکم ہے۔ خواہشات اور خواب برے نہیں، مگر اُن کی عدم تکمیل سے جنم لیتی مایوسی گھاتک ہے۔ اور احساس تشکر اُس مایوسی پر مرہم کا کام کرتا ہے۔ جو کچھ میسر ہے، اُس کا شکر ادا کرنے سے منزل کچھ قریب آجاتی ہے۔ خواب کچھ اور نکھر جاتے ہیں۔ یہی تو کہا گیا ہے: ’’اگر شکر کرو گے، تو میں تمھیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘ (سورہ ابراہیم:7)

کیسے کیسے دانائوں نے یہ نصیحت کی۔ سعدی اور رومی کی حکایات میں یہی درس پوشیدہ۔ ولیوں کی روشن مسکراہٹ کے پیچھے شکر گزاری کی قوت کارفرما۔ حضرت عیسیٰ معجزے دِکھانے کے بعد نہیں، اُس سے پہلے قدرت کا شکر ادا کرتے تھے۔ بدھ کے نزدیک احساس تشکر وہ اکلوتی شے ہے، جو بے ثبات دنیا میں اپنا جواز رکھتی ہے۔ لائو تسو کا دعویٰ ہے؛ اگر آپ زندگی کو قبول کر لیں، تو پوری دنیا آپ کی ہوجاتی ہے۔ نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے عالموں نے ہر موقعے پر اُن افراد کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے دوران تحقیق اُن کی معاونت کی۔

سپاس گزاری، چاہے قدرت کی ہو یا اپنے جیسے انسانوں کی، طلسماتی اثر رکھتی ہے۔ یہ فرد کو ماضی سے، جو تاریخ ہے، اور مستقبل سے، جو فقط چیستان ہے، نکال کر لمحۂ حال میں لے آتی ہے۔ سماج سے جوڑتی ہے۔ اُن غموں کو دھندلا دیتی ہے ، جو بے قیمتی اور محرومی سے جنم لیتے ہیں، اور توجہ اُن خوشیوں کی جانب مبذول کراتی ہے، جو چاروں طرف بکھری ہیں۔ تشکر نہ صرف روح، بلکہ ذہن پر بھی لطیف اثرات چھوڑتا ہے۔ جب دل تشکر سے بھر جاتا ہے، تب ہی انسان کے ہونٹوں پر حقیقی مسکراہٹ ابھرتی ہے۔ جب ہم اپنے جیسوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں، تو اپنی خوشی کا ایک ٹکڑا اُن میں منتقل کر دیتے ہیں۔ اور جب قدرت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، تو اُس کے قریب آجاتے ہیں۔ ’’سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا۔‘‘ (البقرہ:152)

عزیزو، سکون کا خزانہ پہاڑوں میں نہیں، زندگی میں پوشیدہ ہے۔ بس، قفل کھولنے کے لیے ممنونیت اور قبولیت کی کنجی چاہیے۔ مقامی امریکی باشندوں کی صف سے اٹھنے والے ایک گیانی نے کیا خوب کہا تھا: ’’جب صبح بیدار ہو، تو روشنی اور زندگی کے لیے قدرت کا شکریہ ادا کرو۔ جو خوراک اور خوشی میسر ہے، اُس کا شکر کرو۔ اور اگر تمھیں زندگی میں تشکر کا کوئی جواز نہ ملے، تو جان لو کہ تم مر چکے ہو۔‘‘

تو کیا ہم مر چکے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔