کشادہ گھروں کی بجائے حبس زدہ خیموں میں عید کیسی ہوگی ؟

روخان یوسف زئی / نوید جان  اتوار 27 جولائی 2014
 شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی عید کے حوالے سے رپورٹ ۔  فوٹو : فائل

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کی عید کے حوالے سے رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

 پہاڑی علاقوں کے سُہانے جون سے میدانی علاقوں کے آگ برساتے چھٹے اور ساتویں ماہ تک، خوش گوار سورج سے چبھتی دھوپ، سرسراتی ہوائوں سے لو کے تھپیڑوں، یخ بستہ زمین سے تپتے میدانوں، موسیقی بکھیرتے جھرنوں سے ٹریفک کے بے ہنگم شور، روح افزا چشموں سے روح فرسا آلودگی، باغات سے صحرائوں اور پرسکون گھروں سے حبس زدہ خیموں تک کا جاں سوز سفر، کس مپرسی کی حالت میں رخت سفر باندھنے والے شمالی وزیرستان کے باشندوں کی اپنے علاقے اور گھروں سے دوری، اپنوں کے بچھڑنے کے دکھ اور معاشی مسائل نے ان کے چہروں پر وہ اداسی طاری کردی ہے کہ گویا اس سے قبل انہوں نے زندگی کی رمق دیکھی ہی نہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ خوشی کا ایک اضافی رنگ بھی ان کے چہروں پر جھلکتا نظر آئے اور ظاہر ہے یہ رنگ آنے والی عید کا ہونا چاہیے مگر ’’زہ یومتاثریمہ اخترہ پہ ما مہ رازہ‘‘ (میں ایک متاثرہوں اے عید! میرے ہاں مت آنا) مسلمانوں کے لیے ماہ رمضان اور پھر اس کے بعد عیدالفطر کی خوشیاں اﷲ کی جانب سے انعام ہوتی ہیں اور ہر مسلمان چاہے بچہ ہو، جوان ہو یا عمررسیدہ شخص، ہر کوئی اس انعام یا نعمت سے ضرور فیض یاب ہوتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب یہ خوشی اپنے گھر کی دہلیز کے اندر اپنوں کے سنگ منائی جائے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے کیوں کہ نہ تو اپنے گھرکی دہلیز نہ حجرہ نہ اپنے۔ اس خوشی کی تیاری کا سامان ہی عنقا ہو تو کس طرح یہ خوشی منائی جاسکتی ہے۔

بڑے تو اپنی پلکوں میں داستان غم چھپاکر اس تہوار کو منالیں گے، لیکن ان کلیوں اور پھولوں کا کیا بنے گا جو رمضان کے پہلے روزے ہی سے عید کی تیاری میں ایک ایک لمحہ گِن گِن کر گزارتے رہے ہیں، کیوں کہ ان نقل مکانی کرنے والوں میں کم وبیش ساڑھے تین لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔ جو بے گھر ہوئے ہیں وہ کس طرح عید کی خوشیاں روایتی طورطریقوں کے ساتھ مناسکیں گے، لیکن ان کے اس دکھ کا اندازہ کسی اور کو شاید ہی ہو اور اس صورت حال پر پشتو کی یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ ’’زمین وہی جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو۔‘‘ تاہم درد دل رکھنے والے جب ان کیمپوں میں مقیم لوگوں کے چہروں کو پڑھنے یا ان کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کریں تو اس آگ کی تپش ضرور محسوس کی جاسکتی ہے۔

کیوں کہ ان کیمپوں اور ان سے باہر جہاں جہاں بھی متاثرین آباد ہیں ہر فرد اور ہر خاندان کی دکھ بھری داستان گو کہ الگ الگ ہے، لیکن درحقیقت ایک ہی ہے، جسے سن کر ان لوگوں کی تکلیف اور غم کو کافی حد تک سمجھا جاسکتا ہے اور ظاہر ہے اس المیے کی ذمہ دار وہ قوتیں ہیں جنہوں نے سرسبزوشاداب وادی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

وہاں کے مکینوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا اور ان کی سیاست، ثقافت، رسم ورواج اور تہذیب کو پیروں تلے روند ڈالا، یہ پناہ گزین اگر ایک طرف عسکریت پسندوں کوکوستے رہتے ہیں، تو دوسری طرف حکومت اور فوج سے بھی شاکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومت اور ایجنسیوں نے عسکریت پسندی کے موجودہ تناور درخت کو اس وقت کیوں جڑ سے نہیں اکھاڑا جس وقت یہ ایک معمولی سا کم زور پودا تھا؟ بہرکیف ہم نے ابھی ان سے آنے والی عید کی تیاریوں اور یہ تہوار منانے کے حوالے سے اپنا سوال مکمل کیا ہی نہیں تھا کہ ان کی آنکھیں یکدم یوں چھلک پڑیں جیسے برسوں کا لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک نے آسمان کی طرف نظریں اٹھاکر ایک لمبی آہ بھری۔ وہ پشتو کے اس ٹپے کی تصویر نظر آرہے تھے:

اول بہ ماتہ خلق ناست وہ
اوس بیاج گر شوم جولئی بل تہ غوڑاومہ

(پہلے لوگ مجھ سے مانگا کرتے تھے اب میں دوسروں کے سامنے جھولی پھیلاکے کھڑا ہوں)

اپنی داستانِ الم سناتے ہوئے شمالی وزیرستان کے گائوں دتہ خیل سے ہجرت کرکے بنوں پہنچنے والے اصل مرجان نے کہا،’’خدا ایسا وقت کسی پر بھی نہ لائے وہ منظر اُف خدایا! توپوں کی گھن گرج، گولیوں کی بارش اور تڑتڑاہٹ، بچوں کی چیخ وپکار جب ہمارے گائوں میں اچانک آپریشن شروع کیا گیا اور ہر طرف ’’ڈز ڈز‘‘ کی آوازیں، تو ہمارے سمیت بہت سے خاندانوں کو اپنے بال بچوں کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی اور ہم بے سروسامانی کے عالم میں گھروں سے بھاگ نکلے اس وقت میری جیب میں صرف آٹھ سو پچاس روپے تھے اور اتنا وقت نہیں تھا کہ مزید رقم کا بندوبست کیا جاتا۔

اس لیے ہزاروں لوگوں کی طرح میں بھی اپنے پانچ بچوں اور بیوی کو لیے پیدل روانہ ہوگیا، لیکن بنوں پہنچنے تک ان پیسوں پر ہم نے صرف بچوں کے لیے بسکٹ اور چپس خریدے، علاقے میں پیش آنے والے حالات اور راستے کی تکالیف تو ایک طرف یہاں پہنچنے پر مزید کئی مصائب نے ہمارا استقبال کیا اور کئی روز تک دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد کیمپ میں پہنچے، پہلے توہم نے تین راتیں کھلے آسمان تلے بسر کیں، تین دنوں کے بعد امدادی ٹیم کے نمائندوں کی منت سماجت کرنے کے بعد ہمیں رہنے کے لیے ایک خیمہ تو دے دیا گیا لیکن یہاں بھی سکون کی ایک سانس میسر نہیں ہوئی، کیوں کہ اتنے مسائل ہیں کہ زندگی بوجھ محسوس ہونے لگی ہے۔

اگر ہمیں اس بات کا علم ہوتا کہ یہاں آکر یہ ذلت اٹھانی پڑے گی، ایک وقت کی روٹی کے لیے ترستے رہیں گے اور پھول جیسے معصوم بچوں کو بھیک تک مانگنا پڑے گی، تو ہم یہاں آنے کے بجائے وہیں اپنے ہی گائوں پر موت کی آغوش میں جانے کو ترجیح دیتے۔‘‘ اصل مرجان ایک پائوں سے معذور ہے اور گردوں کا مریض بھی ہے۔ اس کا ایک لمبے عرصے سے علاج چل رہا ہے، لیکن کیمپ میں اس کو جو دوائیں دی جارہی ہیں وہ کتنی معیاری ہیںِ ان سے اسے افاقہ ہوجائے گا یا تکلیف مزید بڑھ جائے گی؟ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی معصوم بچیاں صبح سویرے خیمے سے نکل کر سڑک کے کنارے بھیک مانگتی ہیں۔

بچپن وہ دور ہے جس میں چہروں پر زندگی اور خوشی رقص کرتی دکھائی دیتی ہے، لیکن شمالی وزیرستان سے ہجرت کرنے والے بچوں اور بچیوں کے چہروں پر ایک عجیب سی خوف کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور ایک ٹراما کی سی کیفیت ہے۔ وہی ہوائی جہاز جس کی آواز سن کر گائوں کے بچے گھروں سے نکل کر تالیاں بجاتے یا گھرکی چھت پر کھڑے ہوکر اس کا نظارہ کرتے، ان بچوں کے لیے خوف کی علامت ہے۔ بنوں کیمپ میں موجود بچے اب جہاز کی آواز سن کر چیخیں مارتے ہوئے خیموں کی طرف بھاگ کر مائوں کی آغوش میں جا چھپتے ہیں۔

جہاز کی آواز سنتے ہی بچوں پر کپکپی سی طاری ہوجاتی ہے۔ انہیں بہت سمجھایا گیا کہ یہ بم باری کرنے والا جہاز نہیں ہے لیکن ان کو کسی طور یقین نہیں آرہا اور جہاز کی آواز سنتے ہی وہ مختلف خیموں میں جاچھپتے ہیں۔

کیمپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں کسی قبرستان کا گمان ہوتا ہے۔ زندہ لوگوں کا قبرستان۔ جگہ جگہ لگے خیمے قبروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ’’درگور‘‘ لوگ فریاد کی حد تک لب کھول ہی لیتے ہیں۔ ایف آر بنوں کے علاقے میں قائم بکا خیل کیمپ ایک وسیع وعریض اور چٹیل میدان پر مشتمل ہے، جہاں گردوغبار اُڑتا رہتا ہے۔

یہاں موجود پناہ گزین جنہوں نے ساری زندگی سرسبزوشاداب پہاڑوں، لہلہاتے کھیتوں، رنگ برنگے پرندوں کی چہچہاہٹ میں آبشاروں اور جھرنوں کی مدھر موسیقی سنتے ہوئے گزاری ہے، ان کے لیے اس کیمپ میں وقت گزارنا کسی جیل یا صحرا سے کم نہیں، کیوں کہ یہاں تو کسی سایہ دار درخت اور پرندے کا نام ونشان تک نہیں، یہاں انہیں ایک چیز وافر مقدار میں میسر ہے اور وہ ہے چلچلاتی ہوئی دھوپ، شدید گرمی، گردوغبار، خطرناک سانپ بچھو اور مچھروں کا بسیرا۔

جب ہم نے ہمت کرکے وہاں کی چند باپردہ خواتین سے آنے والی عید کی تیاریوں کے بارے میں سوال کیا تو اپنے مخصوص لب ولہجے میں وہ کہنے لگیں،’’بھائی! آپ کس عید کی بات کررہے ہیں۔ یہ عید تو آپ لوگوں کی ہوگی۔ آپ لوگ ہی خوشیاں منائیں گے۔ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے، جوتے اور طرح طرح کی چیزیں خریدیں گے، لیکن بھائی! نہ ہم یہ سب کچھ خرید سکتے ہیں اور اگر خرید بھی لیں تو اسے استعمال کرنے سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ہوگی۔

ہاں یہ خوشی تب ہوتی جب ہم اپنے گھروں، اپنے علاقوں میں ہوتے۔ روایتی طور پر ہر عید کو نمازفجر کے فوراً بعد ہم ٹولیوں کی شکل میں قریبی قبرستان جاکر اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتی تھیں، انہیں یاد کرتیں، تلاوت کرتیں اور ان کی بخشش کی دعائیں مانگتی تھیں، لیکن اب ہم خود زندہ لاشیں ہیں۔ ایسے حال میں ہم کس طرح عید کی خوشیاں مناسکتی ہیں۔ اسی دوران ایک عمررسیدہ خاتون بھرائی ہوئی آواز میں بولی کہ ہمارے ہاں ہاں عید اچھی ہوتی ہے۔

رمضان کے پہلے ہی روز سے اپنے اور بچوں کے لیے نئے کپڑوں کی خریداری اور ان کی سلائی کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ ہم لوگ عید سے ایک ہفتے قبل چوڑیوں، سرمے، کاجل، دنداسے اور میک اپ کے سامان کا بندبست کرلیتی ہیں۔ تین دن تک گائوں کی عورتیں اور لڑکیاں ایک مخصوص مقام پر عید منایا کرتی ہیں، جہاں مردوں کا آنا ممنوع ہوتا ہے۔

رات گئے منہدی لگائی جاتی ہے اور صبح ناشتے کے لیے سویوں، حلوے، انڈے اور دیسی گھی میں تلے ہوئے پراٹھوں کے لیے تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں اور جب عید کو علی الصبح ناشتے کی تیاری شروع ہوجایا کرتی ہے تو اڑوس پڑوس میں روایتی سویوں اور حلوے کی پلیٹیں بھربھر کے ان کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس روز بچوں کو عیدی دینے، اڑوس پڑوس اور رشتے داروں سے عید ملنے کا مزہ اور خوشی اس دفعہ ہمیں بہت تڑپائے گی۔

ان خواتین کا کہنا ہے کہ اس دفعہ کیمپوں اور دیگر مقامات پر رہائش پذیر متاثرہ خاندانوں کو اگرچہ کئی مشکلات درپیش ہیں، تاہم سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ہم خواتین ہیں، جو کہ شدید تپتی اور جھلستی گرمی میں، اپنے کلچر کی وجہ سے، کیمپوں کے اندر رہنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزینوں میں بیش تر خاندان صاحب ثروت ہیں، لیکن اس افتاد نے انہیں لاچار بنادیا ہے۔ یہ خاندان کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، ان کی عورتیں بھی سات پردوں میں یہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہیں۔ سرخ و سپید رنگت شدید گرمی میں جھلس کر رہ گئی ہے۔

ایک خاتون نے اپنا نام گل پری بتاتے ہوئے کہا کہ میرا خاوند دو سال قبل ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہوچکا ہے۔ میرے چھے بچے ہیں جن میں چار بیٹیاں ہیں۔ ہم پہلے ہی سے غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اب ان حالات میں، میں کس طرح اپنے بچوں کو عید کے حوالے سے چیزیں دے سکتی ہوں اور کس طرح ہم عید کی خوشیاں مناسکتے ہیں؟

شمالی وزیرستان کے متاثرین کے ساتھ آنے والے ساڑھے تین لاکھ سے زاید بچوں کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی کی صورت حال ہے، جب کہ ان کے والدین اس حوالے سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ بھوک، پیاس، شدید گرمی، غربت اور غریب الوطنی کی کیفیت سے دوچار اور عید کی خوشیوں سے محروم یہ بچے جب اپنی اور اپنے والدین کی حالت زار دیکھتے ہیں تو مزید ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ان کے لیے عید کی خوشیاں منانا تو دور کی بات، سیکڑوں بچے گردش ایام کے باعث محنت مزدوری پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مزدوری کرنے والے بچوں میں بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جو عام لوگوں کے گھروں یا اسکولوں اور کالجوں میں رہائش پذیر ہیں۔ متاثرین اپن میزبان گھرانوں کے افراد کے ساتھ مختلف کاموں میںہاتھ بٹاتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ حکومت یا کسی بھی غیرسرکاری تنظیم نے بچوں کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے ہیں، چناں چہ ان بچوں کے غلط ہاتھوں میں استعمال ہونے کا خدشہ بھی پایا جاتا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت اور سرائے نورنگ میں اس وقت حکومت اور غیرسرکاری امدادی اداروں کی تمام تر توجہ راشن کی تقسیم پر مرکوز ہے لیکن آنے والی عیدالفطر کے حوالے سے متاثرین اپنے بچوں کے کپڑوں اور نئے جوتوں کے لیے بھی پریشان ہی۔ دیگر متاثرین کی طرح نوجوانوں کی عید بھی اس دفعہ افسردگی کی عالم میں گزرے گی، کیوں کہ تاریخی طور پر ہر سال عید کے تہوار پر شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ٹولیاں رزمک، بنوں اور دیگر شہروں میں اپنے روایتی انداز میں عید مناتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ پورے سال میں صرف دو بار عیدین کے موقع پر خوب ہلا گلا کرنا وزیرستان کے نوجوانوں کی واحد تفریح ہے۔

اس مرتبہ وزیرستان کے عوام کو رمضان المبارک کی خوشیاں نصیب ہوسکی ہیں اور نہ نوجوانوں کو امید ہے کہ ان کی حالت عیدالفطر تک بہتر ہوپائے گی اور وہ روایتی انداز میں عید منانے کے قابل ہوسکیں گے۔ فی الوقت شمالی وزیرستان کے نوجوانوں کی واحد مصروفیت امدادی سامان کا حصول، گھر کے افراد کے لیے چھت اور بیماریوں سے بچائو کی تدبیر کرنا ہے۔ یہ نوجوان سارا سارا دن راشن کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو عیدین کے موقع پر ٹولیوں کی صورت میں رزمک، بنوں شہر اور مضافاتی علاقوں، ہوٹلوں کے احاطے میں یا پھر پارکوں اور ٹرانسپورٹ اڈوں پر، جہاں ان کا دل کرتا، ڈھول کی تھاپ پر رقصاں ہوجاتے اور اپنا روایتی رقص ’’اتھن‘‘ یا ’’’اتھنڑ‘‘ پیش کرکے لوگوں کے دلوں کو گرماتے اور داد وصول کرتے ہیں۔

رزمک کے قریب گرڈی روغہ کے 20 سالہ منصوراﷲ سے ہم نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اپنے علاقے میں عید کی تیاریوں کے سلسلے میں ہم نوجوان نئے کپڑے، نئے جوتے اور نئی ٹوپیاں خریدتے جب کہ بڑے مشران لنگیاں اور قبائلی دستار ضرور خریدتے ہیں، تاکہ عید کے دن پہن کر خوشی مناسکیں، لیکن اس بار یہ سب کچھ ممکن نہیں، کیوںکہ اگر ہم کپڑے خرید بھی لیں تو قبائلی ٹوپیاں، لنگیاں اور دستار کہاں سے لائیں گے۔ قبائلی عوام کھانے پینے کے زیادہ شوقین ہوتے ہیں، اس لیے عید کے دن مختلف قسم کے پکوان پکائے جاتے ہیں، جس میں دُنبے اور بکرے کا گوشت اور چاول شامل ہوتے ہیں۔

عید کے دن سیرو تفریح کے لیے ہم رزمک جاتے گاڑیوں کی چھتوں پر اپنا روایتی رقص کرتے ہیں، جب کہ گاڑیوں کے اندر ڈھول پارٹی ہوتی ہے۔ رزمک جانے کے لیے نئی انگوٹھیاں اور گھڑیاں ضرور پہنتے تھے، لیکن اس بار ہمیں لکی مروت کے لوگوں کی رسم ورواج کا کیا علم کہ یہ لوگ عید کس طرح مناتے ہیں۔ اس لیے اس مرتبہ ہم عید خاموشی سے گزاریں گے۔ میران شاہ کے علاقے لونڈ محمدخیل بویا کے 18سالہ سلیم خان داوڑ نے بتایا کہ ہم اپنے علاقے میں عید انتہائی جوش وخروش سے مناتے ہیں اور خوب ہلہ گلہ ہوتا ہے۔

وہاں جو خوشی ہوتی تھی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ نہ ہی وہ احساس آپ کو دلاسکتے ہیں، گائوں میں مختلف پروگرام ہوتے اور ڈھول کی تھاپ پر خوب رقص ہوتا تھا، جیسی عید ہم اپنے گائوں میں دوستوں اور رشتے داروں سے مل کر مناتے اب یہاں ممکن نہیں، کیوں کہ نہ ہمارے گائوں والے موجود ہیں اور نہ ہی ہمارے رشتہ دار۔

شمالی وزیرستان کے علاقے موسکی کے رہنے والے 14سالہ حمیدالرحمٰن نے بتایا کہ ہماری عید تو ڈھول اور رزمک کے ساتھ منسلک ہے، کیوںکہ ڈھول کی تھاپ پراتھن (اتھنڑ) کرتے اور سیرسپاٹے کے لیے رزمک جاتے تھے، اس عید پر نہ تو ڈھول ہوگا اور نہ ہی رزمک جاسکتے ہیں۔ رزمک سے واپسی پر رات گئے تک محفل موسیقی ہوا کرتی تھی، جس میں مقامی شوقیہ گلوکار حصہ لیا کرتے تھے۔ اس محفل میں وزیرستان کے جوانوں اور بڑوں کے کارناموں پر مشتمل گیت گائے جاتے تھے، لیکن ہم یہاں کچھ بھی نہیں کرسکتے کیوںکہ یہ ہمارا اپنا علاقہ نہیں ہے۔

حکیم خیل عیدک میرعلی کا سات سالا حمید داوڑ اور گڑدی روغہ کا 8 سالہ عظمت اﷲ کہتے ہیں کہ عید کا مطلب ہے نئے کپڑے پہننا، نئے جوتے اور نئی ٹوپی پہن کر بازار جانا اور رقص کرنا، عید کے دن انڈے لڑانا، مگر اس بار یہ ممکن ہی نہیں۔ حمید نے اپنے بڑے بھائی کے MP-3کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس عید پر ہم MP-3پر رقص کریں گے۔

16سالہ طاہراﷲ نے افسردہ لہجے میں کہا کہ اب تو وہ دوست بھی نہیں رہے، پتا نہیں کہاں ہوں گے، جن کے ساتھ ہم ہلہ گلہ کرتے تھے۔80 سالہ اول گل جو خاصہ دارفورس سے ریٹائرڈ ہیں، نے بتایا کہ ملازمت کے دوران بھی کبھی عید اپنے گھر سے باہر نہیں منائی۔ اس بار تو عید پر نئے کپڑے بھی نہیں سلوائے۔ میرے خیال میں تو ہماری کوئی عید نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے نوجوانوں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ عید کے موقع پر ایک ہی رنگ کے کپڑے زیب تن کرتے ہیں، بال بڑھاتے ہیں، لیکن اب یہ زندہ دل نوجوان آئی ڈی پیز بن کر حسرت و یاس کی تصویر بنے ہیں۔

شمالی وزیرستان متاثرین قومی کمیٹی کے صدر نثارعلی خان سے جب آنے والی عید کی تیاریوں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ آبدیدہ ہوکر کہنے لگے،’’صبح ہی جب بچوں نے عید کے لیے نئے کپڑوں، منہدی، چوڑیوں اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کیا تو اپنی بے چارگی، بے بسی اور غریب الوطنی پر خوب رونا آیا۔

کیمپ میں زندگی کی سہولیات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے گھر اور کیمپ میں قائم فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ساتھ ہی مقامیت اور ہجرت کے حالات میں موجود فرق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، کیوں کہ کسی اچانک پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں ایسا ہی ہوتا ہے اور حادثاتی حالات میں ظاہر ہے کہ آپ کواپنے گھر جیسی زندگی اور سہولیات نہیں مل سکتیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہم مصیبت کے ان دنوں کے لیے بھی تیار ہیں، کیوں کہ ہم پر جو گزری یا جو کچھ گزر رہی ہے ہم اسے صبر وتحمل سے برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بنوں میں قائم بکاخیل کمیپ اور دیگر علاقوں میں اپنے رشتے داروں کے ہاں قیام پذیر متاثرین کی امداد کے لیے مربوط کوششیں شروع کررکھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اور دیگر غیرسرکاری امدادی اداروں کو درست اعدادوشمار مہیا کرکے عیدپیکیج کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ اس سلسلے میں سروے کا کام شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت متاثرین کی نشان دہی کرکے ان کو حتی المقدور عید کی خوشیاں دینے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ آپریشن کے بارے میں نثارعلی خان کا کہنا تھا کہ موجودہ فوجی کارروائی ماضی کی طرح نہ ہو، بل کہ اس بار حقیقی معنوں میںاس وقت تک کارروائی نہ روکی جائے جب تک شرپسندوں کا مکمل صفایا نہیں ہو جاتا، جس کے فوراً بعد متاثرین کی بحالی کا عمل بھی جلد ازجلد مکمل کیا جائے اور نقل مکانی کرنے والوں کو جو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں ان کا ازالہ کیا جائے۔

آپریشن ضرب عضب
دیرآید درست آید کے مصداق خیبرپختون خوا کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی اور غیرملکی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی15جون کو باقاعدہ طور پر شروع ہوئی، جب کہ اس سے ایک روز پہلے ٹارگیٹڈ کارروائی میں بھی درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

ابتدائی دنوں میں علاقے میں کرفیو لگاکر مخصوص اہداف پر محض فضائی کارروائیاں کی گئیں، جن میں ساڑھے تین سو سے زاید دہشت گردوں کا صفایا ہوا۔ علاقے سے آبادی کے انخلا کے بعد30 جون سے میران شاہ میں زمینی کارروائی شروع ہوئی تو فورسز کو اہم کام یابیاں ملیں۔ دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور بم بنانے کی دو فیکٹریاں بھی پکڑی گئیں، جہاں سے بارودی مواد اور دو سو کے قریب سلنڈر ملے، جنہیں سڑکوں پر نصب کرکے فورسز کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔

متاثرین کی تعداد ساڑھے نو لاکھ سے تجاوز کرگئی
چیف سیکرٹری کنٹرول روم پشاور کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن کے دوران کل 84 ہزار781خاندانوں اور9 لاکھ 55ہزار 996 افراد کی رجسٹریشن کر ائی گئی ہے، جب کہ نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ بڑی تعداد میں مویشی بھی لائے گئے ہیں۔

ضلع بنوں میں پی ڈی ایم اے نے ریلیف کیمپس قائم کر دیے ہیں، تاکہ ضلعی انتظامیہ کی ریلیف سرگرمیوں میں بھر پور مدد کی جا سکے، صوبائی حکومت نے اب تک پی ڈی ایم اے بنوں ریلیف کیمپس کے لیے34کروڑ90لاکھ روپے جاری کیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی ایف آر بنوں میں کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی نگرانی وفاقی ڈیزاسٹر منیجمینٹ اتھارٹی اور پاکستان آرمی مشترکہ طور پر کررہی ہے، تاکہ متاثرین کو تیار خوراک، پانی، رہائش اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جا سکیں اور عید پر وہ کسی پریشانی کا سامنا نہ کریں۔

اس ضمن میں پاک آرمی کی جانب سے عید پیکیج کے طور پر متاثرین میں امداد کی تقسیم کا مرحلہ ایک ہفتے قبل ہی شروع کیا گیا ہے، تاکہ ان متاثرین کو عید کے موقع پر اجنبیت کا احساس زیادہ نہ ستائے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے متاثرین کی بروقت دادرسی اور ان کو مزید محرومیوں سے بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ غیرسرکاری ادارے، مخیر افراد اور عام پاکستانی بھی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ان کی بھرپور امداد اور ہمت بڑھانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں، تاکہ یہ متاثرہ خاندان عید کی خوشیاں بھرپور طریقے سے مناسکیں۔

وزیرستان ایک تعارف
وزیرستان کا علاقہ دریائے کرم اور بلوچستان کے علاقہ ژوب کے درمیان افغانستان کی مغربی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ مشرق کی جانب قدیم تاریخی شہر ضلع بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے چند علاقے ہیں۔ وزیرستان کا کُل رقبہ 4,172 مربع میل ہے۔ اس میں شمالی وزیرستان 1,617 مربع میل اور جنوبی وزیرستان 2,555 مربع میل ہے۔ اگرچہ وزیرستان کے جتنے بھی علاقے اور حصے ہیں۔ سبھی کو وزیرستان کہا جاتا ہے لیکن یہ انتظامی لحاظ سے دو بڑے حصوں میں تقسیم ہے، جسے شمالی اور جنوبی وزیرستان کا نام دیا گیا ہے۔

شمالی وزیرستان کے ساتھ افغانستان کا صوبہ خوست اور دیگر قبائلی علاقے جن میں شوال اور بیرمل، جب کہ جنوبی وزیرستان کے مشرق میں ضلع بنوں کے چند علاقے ہیں۔ شمالی وزیرستان کا بیش تر حصہ دشوار گزار پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ قبیلہ وزیر کے علاوہ قبیلہ داوڑ بھی انہی پہاڑیوں میں زندگی گزار رہا ہے چوںکہ یہاں قبیلہ وزیر کی واضح اکثریت ہے، اس لیے اس علاقے کا نام بھی وزیرستان رکھا گیا۔ شمالی وزیرستان کی کل آبادی تقریباً 2,52,200 نفوس پر مشتمل ہے، جن میں اکثریت وزیر قبیلے کے افراد کی ہے۔

وزیر قبیلے کے تعلق پختونوں کی ایک بہت بڑی شاخ کرلانڑی سے ہے اور یہ سلسلۂ نسب ایک نام ور بہادر سردار سلیمان سے جاملتا ہے، جو اپنے زمانے کا ایک رحم دل ، مہمان نواز اور جنگ جُو سردار تھا۔ سردار سلیمان کو قدرت نے ایک بیٹے سے نوازا تھا، جس کا نام ’’وزیر‘‘ تھا، وزیر کے دو بیٹے تھے ایک کا نام ’’خدرے‘‘ اور دوسرے کا ’’لالے‘‘ تھا۔ خدرے کے تین بیٹے موسیٰ ، محمود اور مبارک تھے۔ ان میں موسیٰ ’’درویش‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ موسیٰ درویش کے دو بیٹے تھے، ایک کا نام لقمان اور دوسرے کا احمد تھا، لقمان سے اتمان زئی اور احمد سے احمد زئی وزیر کی شاخیں وجود میں آئیں۔

ان دونوں شاخوں کو درویش خیل وزیر بھی کہا جاتا ہے۔ اتمان زئی شمالی اور احمد زئی جنوبی وزیرستان میں آباد ہیں، جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ان دونوں شاخوں کے مشترکہ مورث اعلیٰ بزرگ (یا جسے پشتو زبان میں مشرنیکہ کہتے ہیں) موسیٰ درویش ہیں۔ موسیٰ درویش کا مزار احمد زئی علاقے کے مغربی کنارے پر ڈیورنڈ لائن کے قریب واقع ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان دونوں میں نو نو تحصیلیں ہیں۔ شمالی وزیرستان کی تحصیلوں میں شیوہ، سپین ورم، میرعلی، میران شاہ، دتہ خیل، دوسلی، رزمک، گڑیوم اور غلام خان شامل ہیں۔

ان نو تحصیلوں میں مرکزی حیثیت میران شاہ اور رزمک کو حاصل ہے، جب کہ قدرتی وسائل کی بنیاد پر علاقہ شوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جنوبی وزیرستان کی تحصیلوں میں بیرمل، وانا، تیارزہ، لدھا، چلار توئے خولہ، سروکی، سراروغہ اور جنڈولہ شامل ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں وانا اور شکائی خوب صورت علاقے ہیں۔ وانا جنوبی وزیرستان ایجنسی کا صدر مقام ہے، جو احمد زئی وزیر کے علاقے میں پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ جنوبی وزیرستان میں احمد زئی وزیر اور محسود قبیلے کے علاوہ ارمڑ، متونڑی، سلمان خیل اور غلجی قبیلے بھی آباد ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔