(پاکستان ایک نظر میں) - کیا یہ سب سازش کا حصہ ہے؟

سعید احمد  منگل 26 اگست 2014
نہ برف اِس طرف سے پگھل رہی اور نہ اُس طرف سے۔  نتیجہ سرد جنگ کی صورت میں نکلتا جارہا ہے اور خوف و خطرات کے بادل ہیں کہ گہرے سے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ ں۔ فوٹو: ایکسپریس

نہ برف اِس طرف سے پگھل رہی اور نہ اُس طرف سے۔ نتیجہ سرد جنگ کی صورت میں نکلتا جارہا ہے اور خوف و خطرات کے بادل ہیں کہ گہرے سے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ ں۔ فوٹو: ایکسپریس

جب میں نے سیاسیات کے طالبعلم کی حیثیت سے ایم اے فائنل ایئر میں قدم رکھا تو ہمیں بین الاقوامی تعلقات میں کونسپریسی تھیوری کے نام سے ایک سبق بھی پڑھایا گیا جس میں بتایاگیا کہ کس طریقے سے کچھ شاطر کھلاڑی اپنے مقاصد کےحصول کے لئے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں اور یہ کونسپریسی تھیوری ایک دن، چند ہفتوں یا مہینوں کا کھیل نہیں بلکہ اس میں بعض اوقات سالوں بھی لگ جاتے ہیں اور مناسب موقع دیکھ پر اپنے کھیل کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔

میں گزشتہ 2 ہفتوں سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کھیلا جانے والا تماشہ دیکھ رہا ہوں تو مجھے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ پاکستان کے خلاف یہ سب ایک سازش کا حصہ ہے  جس کا ماحول تو مئی سے ہی بننا شروع ہو گیا تھا جب لندن میں شیخ الاسلام اور پاکستانی سیاست کے 2 ناکام ترین گجراتی کھلاڑیوں کے درمیان ملاقات ہوئی اور پھر پاکستان میں افراتفری پھیلانے کے لئے ایک گرینڈ الائنس بھی تشکیل دیا گیا۔

اب آپ سوچ رہے ہونگے کے میں یہاں سازش کی بو کیسے سونگ رہا ہوں تو وجہ یہ ہے کہ 14 اگست کو 2 علیحدہ علیحدہ لانگ مارچ لاہور سے نکلتے ہیں، پلان کے مطابق راستے مختلف چنے جاتے ہیں مگر رستے میں آگے پیچھے ہو جاتے ہیں لیکن پھر اسلام آباد بھی تقریبا تھوڑے سے وقفے کے فرق سے 16 اگست کو ایک ساتھ ہی ڈیرے جما لئے جاتے ہیں، اس کے بعد آپ صرف ان دونوں دھرنوں میں پائی جانے والی مماثلت تو دیکھیں جو شاید آپ کو ایک ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے جڑواں بھائیوں میں بھی نظر نہ آئے۔ ایک پارلیمنٹ پر حملے کا اعلان کرتا ہے تو دوسرا وزیراعظم ہاؤس پر چڑھائی کی بات کرتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ نواز شریف کے استعفیٰ کے بغیر اسلام آباد سے نہیں جاؤں گا تو دوسرا کہتا ہے کہ دونوں بھائی مستعفیٰ ہوجائیں، ایک کہتا ہے کہ پارلیمنٹ میں سب چور لٹیرے بیٹھے ہیں تو دوسرا اس سسٹم کا ہی باغی ہے۔ ایک 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتا ہے تو دوسرا 2 روز کی دھمکی دے دیتا ہے۔ حتیٰ کہ دونوں حضرات کی تقاریر کے ٹائم پر بھی غور کیا جائے تو تقریبا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

بات یہاں بھی نہیں رُکتی بلکہ ان دھرنوں میں ایسے ایسے بیانات  آتے ہیں کہ انسان حیران و پریشان ہوجاتا ہے  جس میں کبھی عمران خان کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے طاقت کا استعمال کیا تو معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔  تو کبھی طاہرالقادری پارلیمنٹ کے گھیراو اور منتخب نمائندوں کو یرغمال بنانے کا اعلان کردیتے ہیں جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوگئی تھی اور پھر لہرا لہرا کے کفن دکھاتے ہیں جیسے حکومت نے اِن پر ظلم و زیادتی کی انتہا کردی ہو جبکہ ایسا کچھ نہیں بلکہ اِن لوگوں پر اسلام آباد میں تو ایک ڈنڈا بھی نہیں پڑا۔ یہ بیانات تو پھر قابل حضم ہیں مگر گزشتہ روز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے جاری ہونے والے بیان نے تو جیسے مملکت خداداد میں بسنے والوں پر خوف کا حملہ کردیا ہو ۔۔۔ الطاف حسین نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ لوگ 12 بجے کے بعد گھروں سے نہ نکلے کیونکہ وہ بہت خون خرابہ دیکھ رہے ہیں۔

یہ سب ایسے بیانات ہیں جو مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ نہیں اِس سب کے پیچھے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے تو ضرور کیونکہ معاملہ تو یہ بہت پہلے سنبھل سکتا تھا لیکن فریقین کی جانب سے روا رکھے جانے والے رویوں نے پورے کھیل کو سنگینی کی دلدل میں ڈال دیا ہے۔

یہ مسئلہ تو اُس وقت بھی ٹھیک ہوسکتا تھا اگر وزیراعظم نواز شریف 4 حلقے پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ مان لیتے، مسئلہ تو اُس وقت بھی حل ہوسکتا تھا کہ جب 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کے بعد وزیراعظم نواز شریف عمران خان کے پاس چلے جاتے اور کہتے کہ بتائیے کیا مسئلہ ہے ہم مل بیٹھ کر ابھی حل کردیتے ہیں کہ آخر یہ ہمارا ملک ہے۔ مسئلہ تو اُس وقت بھی حل ہوسکتا تھا جب وزیراعظم نواز شریف نے پوری قوم کے سامنے عمران خان کو یقین دلایا کہ ووٹوں کی گنتی سمیت الیکن ریفارمز پر بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں۔

لیکن  ہوا کیا۔ نہ برف اِس طرف سے پگھلی اور نہ اُس طرف سے۔۔۔۔ نتیجہ سرد جنگ کی صورت میں نکلتا جارہا ہے اور خو ف و خطرات کے بادل ہیں کہ گہرے سے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں بلیک لسٹ ہوتا جارہا ہے جہاں بیرونی ممالک کے وزرائے اعظم اپنے طے شدہ دوروں پر بھی نہیں آسکتے  تو کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ ملک ایک بار پھر آمریت کے گہرے اندھیرے میں دکھیلا جارہا ہے جہاں سب کا کھیل ختم ہوجائے گا اور سب کو گھر بھیج دیا جائے گا ۔۔۔ اب مجھے آپ خود بتائیے کہ میرا یہ خوف بجا ہے کہ نہیں کہ کیا یہ سب سازش ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔