فلم ’’ بن حر‘‘ کی یادیں

نادر شاہ عادل  اتوار 21 ستمبر 2014

یہ 1981-82ء کی بات ہے ۔ رمضان کا پہلا عشرہ تھا ۔ آجکل لندن میں مقیم سینئر صحافی محمد سرور جو اس وقت کراچی کے ایک روزنامہ میں نیوز ایڈیٹر تھے ہاتھ میں اے پی پی اور پی پی آئی  کی (کریڈ) خبر دبائے کہنے لگے ’’شاہ جی! آپ کے لیے زبردست خبر ہے، آپکے دوست کراچی آ رہے ہیں، شام کو افطار کرائیں۔‘‘ میں حیرت و تجسس کے ملے جلے جذبہ سے مسکرایا اور کہنے لگا ’’کیوں نہیں، ضرور۔ مگر یہ دوست کون ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی انھوں نے دونوں خبریں میرے سپرد کیں  جو دنیا کی عہد آفریں فلم ’’بن حر‘‘ BEN HUR کے ہیرو چارلٹن ہسٹن کی کراچی آمد کی تھی۔

وہ افغان پناہ گزینوں کی پاکستان میں حالت زار پر دستاویزی فلم کی تیاری کے سلسلہ میں کراچی پہنچے تھے جہاں انھوں  نے علی الصبح امریکن قونصلیٹ کی لائبریری میں ہنگامی پریس کانفرنس کی، بعد میں ڈائریکٹر پبلک افیئرز شیلا آسٹرین نے میری چارلٹن ہسٹن سے ملاقات کرائی۔ میں نے انھیں 8 سالوں پر محیط وہ ساری تصاویر اور ان کے خطوط دکھائے جو انھوں  نے مجھے بھیجے تھے، چارلٹن بہت خوش ہوئے، گفتگو مختصر مگر بہت یادگار رہی، شیلا سے کہنے لگے اس صحافی نے مجھ پر کئی مضامین لکھے مجھے ایک ایمبرائیڈرڈ ٹوپی بھیجی تھی، میں ان کا ممنون ہوں۔

وہ منفرد سندھی ٹوپی تھی جو انھیں بھیجی گئی تھی۔ اس پر ان کا اظہار ممنونیت پر مبنی خط اور اس کے ساتھ دستخط شدہ تصویر بھی میرے ریکارڈ میں رہی، ان کی سیکرٹری کورا سومرز کے نیوز لیٹرز کافی عرصہ تک آتے رہے پھر سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ان کی چار دستخط شدہ تصویریں، نیوز لیٹرز اور ذاتی خطوط بارش یا پھر میری نادانی کی نذر ہو گئے۔

چارلٹن ہسٹن جنھیں ہالی ووڈ کی تاریخی و مذہبی فلموں میں کاسٹ کرنے والے ہدایتکار مائیکل اینجلو کے تراشیدہ مجسمہ سے تشبیہہ دیتے تھے واقعی فلم ’’بن حر‘‘  کی طرح اپنے عہد سے کئی صدی آگے کی ’’لارجر دین لائف‘‘ شخصیت کے طور یاد رہیں گے۔ وہ 15 اپریل2008ء کو انتقال کر گئے۔ ان سے متعلق یادوں کی یہ قندیل ’’بن حر‘‘  کے ری میک کی ایک مختصر سی خبر نے جلائی  جس میں بتایا گیا ہے کہ لیڈنگ رول برطانوی نژاد ایکٹر جیک ہسٹن کریں گے جو لیجنڈری ہدایتکار جان ہسٹن کے اداکارانہ خاندانی سلسلہ کے ذہین ترین جواں سال اداکار اسٹار ہیں۔ ری میک ’’بن حر‘‘ کے ہدایتکار تیمور بیکمام بیتوف ہیں جن کے کریڈٹ پر ’ابراہم لنکن‘، ’ڈے واچ‘ ، ’نائٹ واچ‘ اور ’ویمپائر ہنٹر‘  ہیں۔

ری میک ’’بن حر‘‘  میں یہ جیک ہسٹن کا پہلا دھماکا خیز اسٹارٹنگ مرکزی تاریخی کردار ہوگا، وہ فلم ’کل یور ڈارلنگ‘، ’امریکن ہسل‘ ، ’براڈواک ایمپائر‘ ،اور’ پرائیڈ اینڈ پریجوڈس اینڈ زومبیز‘ میں شاندار اداکاری کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ ایک کردار مورگن فری مین ادا کریں گے۔ جیک ہسٹن سے پہلے اداکار ٹام ہڈلسن کا نام بھی آیا تھا مگر ڈراپ کر دیا گیا۔ بن حرکا ری میک26  فروری  2016 ء میں ریلیز کر دیا جائے گا۔ حقیقت میں 1958ء وہ سال تھا جب ’’رومن ہالیڈے‘‘ کے ہدایتکار ولیم وائلر کی زیر ہدایت ’’بن حر‘‘ کی فلمبندی شروع ہوئی اور7 جنوری 1959ء کو شوٹنگ اختتام کو پہنچی لیکن یاد رہے  1925ء اور اس کے بعد بھی MGM نے خاموش فلم ’’بن حر‘‘ بنائی تھی۔

اس ’’بن حر‘‘ کا ہیرو اطالوی ایکٹر ریمن نووارو تھا، اس کی ہدایات فریڈ نبلو نے دیں، خاموش ’’بن حر‘‘ کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے ایکسٹرا اداکاروں میں جان بیری مور، لائنل بیری مور، جان کرافورڈ، ڈگلس فیئربنکس، ہنری کنگ، جان گلبرٹ، کلارنس براؤن جب کہ اداکارائوں میں للین گش، ڈروتھی گش، اور ماریون ڈیویز جیسی ساحرائیں شامل تھیں یہ سب بعد میں ماضی کے مایہ ناز فلم اسٹار بن کر ابھرے۔

اسی فلم  کے 30 اسسٹنٹ ڈائریکٹرز میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو یونٹ منیجر یاکیما کانٹ کے ساتھ گھوڑوں (رتھوں) کی حیرت انگیز اور سنسنی خیز مناظر کی فلمبندی میں شامل تھا، اس نے یاکیما سے کہا کہ  اگر مجھے آئندہ وقت نے منتخب کیا تو میں ’’بن حر‘‘ کو اپنے انداز میں ڈائریکٹ کرونگا۔

یقین کیجیے موجودہ ’’بن حر‘‘  اسی ولیم وائلر کی ہدایات میں مکمل ہوئی۔ ولیم وائلر کے ’’بن حر‘‘ کے ایک منظر میں چارلٹن ہسٹن اور فلم کے ولن مسالا (اسٹیفن بوائڈ)  کے درمیان تند و تیز مکالمہ ہوتا ہے جس میں چارلٹن ہسٹن کہتے ہیں کہ I am a Jew، مگر لفظ ٰ Jew پر بار بار ری ٹیک سے ولیم وائلر سخت برہم ہو جاتے ہیں اور ہسٹن سے پوچھتے ہیں کہ اس چھوٹے سے فقرے کو آپ کیوں قلب و روح  کی گہرائی سے ادا نہیں کرتے؟ تو دیکھئے کیا لازوال جواب چارلٹن کی طرف سے وائلر کو ملتا ہے۔ ہسٹن ان سے بصد ادب کہتے ہیں کہ ’’کیونکہ میں یہودی نہیں ہوں۔‘‘

’’بن حر‘‘ کی کہانی ایک ناول سے ماخوذ ہے جو ایک ( ر) فوجی جنرل لیو والس نے ’’بن حر: اے ٹیل آف دی کرائسٹ‘‘ کے نام سے لکھی۔ اس فلم  نے 11 اکیڈمی ایوارڈز اور ان گنت انعامات و اعزازات پائے، یہ دنیا کی عظیم ترین فلموں میں شمار ہوتی ہے،1977ء میں ’’بن حر‘‘ کو امریکا کے نیشنل فلم رجسٹری کے تحت لائبریری آف کانگریس میں اپنے وقت کے تاریخی، ثقافتی، اور سنیما ٹوگرافک جمالیاتی اہمیت کے حامل شہ پارہ  کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ ’’بن حر‘‘ کی 9 منٹ کی رتھوں کی ریس تاریخ فلم سازی میں ایک ریکارڈ ہے۔

50ء کی دھائی میں، کیا فلم ٹیکنالوجی تھی، کتنے کیمروں، کرینوں اور ہیلی کاپٹروں سے اس کی عکس بندی ہوئی۔ ولیم وائلر کو ’’بن حر‘‘  نے وہ اعزاز بخشا جو کسی بھی عہد کے فلم ڈائریکٹر کا خواب ہوتا ہے۔ چارلٹن ہسٹن،ا سٹیفن بوائڈ، جیک ہاکنز، ہیو گریفتھ  اور اداکارہ حیا حراریت نے خالص حسیات، احساسات، محسوسات اور بے داغ، بے ساختہ اور لطیف و درشت جذبوں  کو سیلولائیڈ پر منتقل کیا، یہ فن کی خون جگر سے نمود  کا زمانہ تھا، حیا حراریت جیسا معصوم حسن اور روح میں اترنے والی اداکاری میں نے پھر کبھی نہیں دیکھی۔

اس لیے نئی ’’بن حر‘‘  کے ری میک  کا معاملہ ایک اور ’’بن حر‘‘ کی محض مارکیٹنگ نقطہ نظر سے عکس بندی کا نہیں ہیں۔ ’’بن حر‘‘ کو ولیم وائلر نے سنگتراش کی طرح تراشا ہے، ری میک در حقیقت مشین بمقابلہ انسانی جذبات کی معرکہ آرائی ہو گی، اسے ڈیجیٹلائزیشن، اینی میشن،  جدید تدوین اور تحیر خیز صوتی و بصری اثرات  کی ماضی کی ایک کلاسیک فلم سے ستیزہ کاری کا رزمیہ کہا جائے گا۔ یہ فلم آرٹ میں مادہ کی جوہر سے یا ممولے کی شہباز سے جنگ کا  نیا باب کہلائے گا۔

فن  اداکاری پر اتھارٹی رچرڈ بولس لیفسکی کہتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ایسے اداکار کی ضرورت ہے جو فرانسیسی اور جرمن رومانویت میں فرق کر سکتا ہو، جو علم الابدان  سے گہری واقفیت رکھتا ہو، یہ وہی ہدایتکار ہے جو میتھڈ اسکول آف ایکٹنگ کے برعکس اداکاری کو جوہر قابل کا پیدائشی اثاثہ قرار دیتا ہے جس کا نظریہ فن یہ ہے کہ اداکار قلعی گر یا میکانک نہیں، اداکار وہی بنتا ہے جسے فطرت نے اس فن کے لیے چنا ہو۔

’’بن حر‘‘ کے مرکزی کردار کو مارلن برانڈو، پال نیومین، راک ہڈسن، برٹ لنکاسٹر نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، آنجہانی چارلٹن ہسٹن اپنے پورے کیریئر میں کسی سیکس سکینڈل کا نشانہ نہیں بنے،  تاہم انھوں نے میریلن منرو اور بعد ازاں عظیم اطالوی اداکارہ صوفیہ لورین کے ساتھ کام کرنے سے معذرت کی۔ چارلٹن ہسٹن سر لارنس اولیوئیر کے زبردست مداح تھے، ان کا کہنا تھا  کہ اس بڑے اداکار سے میں نے چھ ہفتے میں اداکاری کے جو رموز سیکھے دوسرے اداکار عمر بھر نہیں سیکھ پاتے۔  میرے خمیر سے ایک بہترین اداکار اٹھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ’’بن حر‘‘ صرف ایک کمرشل فلم تھی، جواب ہے جی نہیں۔ یہ مکمل فلمی نصاب ہے۔ فلم کی سب سے منفرد تربیت گاہ اور کوچنگ انسٹرکٹر ہے۔ اس ناول نے 1852ء میں غلامی کے موضوع پر لکھے جانے والے ہیریٹ بیچر اسٹو کے ناول ’’انکل ٹامز کیبن‘‘ پر سبقت حاصل کی، بعد میں ’’گون ود دی ونڈ‘‘ نے بازی جیت لی، تینوں فلمیں بے مثال ندرت اور فنکارانہ مہارت کا نمونہ ہیں، ’’انکل ٹامز کیبن‘‘  میں ہربرٹ لوم کی سفاکانہ اور او ڈبلیو فشر کی درویشانہ اور دردانگیز اداکاری تو آج دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔

’’بن حر‘‘ کو  تاریخ فلم سازی میں اس لیے بھی فوقیت حاصل رہیگی کہ اس نے فلم آرٹ میں تخلیق و تنوع اور اداکاری کے نئے افق روشن کیے۔ اسٹیفن بوائڈ نے بن حر کے بعد ’فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں کراسٹوفر پلمر، سر ایلک گینس، اور ’چنگیز خان‘  میں عمر شریف کے مقابل کمال کی اداکاری کی۔ ’’بن حر‘‘ رجحان سازی اور بلند ترین تخلیقی، جمالیاتی، اداکارانہ اور فنی جہت کا عظیم استعارہ ہے، اس لیے ابھی اس کے رے میک کو آنے دیں، ری میک سنگ میل  بھی ثابت ہو سکتا ہے، مگر زمانہ دیکھ لے گا کہ محدود تکنیکی وسائل کی آئینہ دار کلاسیک فلم اور جدید و ڈیجیٹل فلم آرٹ کی چکا چوند کے مقابلہ میں جیت کس کی ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔