آؤ دکھ شیئر کریں

سید نور اظہر جعفری  منگل 21 اکتوبر 2014

ایک SMS ہے جو مجھے ایک دوست کی طرف سے موصول ہوا ہے۔

The Perfect Lesson Which i Got From Life !!! Do Not Be Too Honest In This World Because Straight Trees Are Always Chosen First For Cutting

اور ظاہر ہے کہ یہ صرف مجھے ہی نہیں موصول ہوا، نجانے کہاں کہاں سے سفر کرتا ہوا مجھ تک پہنچا، میرے END پر تو یہ DEAD ہوگیا کیوں کہ میں نے اسے کہیں اور نہیں بھیجا بلکہ یہی سوچا کہ یہ قوم کی امانت ہے، قوم کو ہی پیش کر دینی چاہیے۔ کس طرح اقدار کو تبدیل کیا جاتا ہے، ذہنوں کو بدل دیا جاتا ہے، اس کا ایک شاہکار یہ Message ہے۔ اصل کو مسخ کس طرح کرتے ہیں۔ ہمیں تعلیم دی جاتی تھی کہ غرور سے سر کو بلند کرکے اکڑ کر نہ چلو یارو، کیوں کہ طوفان میں صرف وہ درخت بچتے ہیں جن کے تنے نرم ہوتے ہیں اور جو جھکنا جانتے ہیں، یعنی انکساری اور عاجزی، مختار ہوکر، مجبور نظر، انا، اخلاقیات کے تحت یوں غریب کو یہ احساس نہ ہواکہ ہم کوئی اور ہیں، یہ کوئی اور… کسی کو کچھ دو تو اس سے نظریں نہ ملاؤ کہ تم سے نظریں ملاکر لینے والی آنکھ میں احساس شرمندگی نہ ہو۔ شرافت اور دیانت… یہ جوہر تھے ہمارے۔ تھے پر اعتراض بے شک کرلیجیے۔ اﷲ کرے کہ یہ ’’ہیں‘‘ میں بدل جائے۔

شرافت سے مراد یہی تھی کہ اگر اﷲ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے تو نظر جھکا کر اس کے بھی شکر گزار ہو، اس کے روبرو… اور مدد کی توفیق ہے تو مدد کرتے ہوئے اس کے سامنے خاکسار رہو جو تم سے مدد کا طالب ہے۔ بقول اشفاق احمد مرحوم ’’تم اﷲ کے دیے میں سے دے رہے ہو کون سا پلے سے دے رہے ہو‘‘ پلے تو کچھ ہے ہی نہیں سوائے عمل کے اور دوسری چیز تھی ’’دیانت‘‘… دیانت کو لوگ زیادہ تر مالی معاملات میں ہی تصور کرتے ہیں… جب کہ یہ اس سے کہیں زیادہ بلند تر بات ہے۔ ہر چیز میں دیانت، تعلقات سے معاملات تک دیانت اور ہم کہاں ہیں۔ کسی کو برا کہنا مقصود نہیں ہے۔ معاملات فہمی کا معاملہ ہے جو ملک کا حال ہوگا وہی صوبوں کا حال ہوگا۔

ایک کالم میں، میں نے سندھی کا لفظ ’’بھاتی‘‘ لکھا تھا۔ میرے بھائی نے اسے ایک گھر کے بھاتی لکھا۔ ’’بھاتی‘‘ بہت Perfect لفظ ہے، روٹی کھانے والے ساتھ، تو صوبے ملک کے بھاتی ہیں۔ صوبہ سندھ میں ڈھائی لاکھ راشی اہلکاروں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔ 60 ہزار راشی افسران میں سے کوئی بھی جیل نہیں گیا بلکہ آرام سے ملک سے باہر جانے آنے والی سہولتوں کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ اپنی ملازمتوں پر برقرار بھی ہیں اور باقاعدہ پرورش بھی لے رہے ہیں۔ یہ میرا اپنا یقین ہے کہ ہمارا کلمہ ایک ہے اور ترانہ بھی ایک ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں ہے کہ دوسرے صوبوں میں فرشتے بستے ہوں، اخبار والے ان صوبوں کے اعداد و شمار ممکن ہے وہاں کے ایڈیشنز میں لکھتے ہوں۔ یہاں جو میسر ہے وہ پیش کیا ہے اور چوں کہ خبر میں یہ بھی لکھا ہے کہ صوبائی وزیر اینٹی کرپشن و جیل خانہ جات منظور حسین وسان کی 2 جون کو دفتر میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی خبر کہ جس میں اینٹی کرپشن کے افسران کی سخت سرزنش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ 2013 سے درج تمام مقدمات، شکایات اور تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ وزارت کو پیش کریں۔

تازہ ترین یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ جہاں سے سبق پھر پڑھ عدالت کا، شجاعت کا سنتے آئے تھے وہاں کوئی اور ہی ’’اسباق‘‘ چل رہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے نئی ترقیاں پانے والے اور بھرتی ہونیوالے اساتذہ کو ’’سبق‘‘ پڑھایا جارہا ہے۔ کالج میں مختلف مضامین کے اساتذہ کی خالی جگہوں پر لالچ اور بددیانتی کی بدترین مثال یہ ہے کہ ایک جگہ 20 انگریزی کے لیکچرارز تعینات کردیے گئے ہیں، کتنا خوش قسمت ہے وہ کالج جس میں بیک وقت 20 انگریزی کے لیکچرارز ہیں۔ اس کالج کے مقابلے میں جہاں خالی اسامیاں انتظامیہ کا منہ چڑارہی ہیں، نئے ترقی پانے والوں کو گھروں پر فون کرکے محکمہ تعلیم کے ’’بالواسطہ‘‘ کارکنان پیغام دے رہے ہیں کہ ’’مرضی‘‘ کی پوسٹنگ چاہیے تو ایک ماہ کی تنخواہ ’’نذرانہ‘‘ کرنی ہوگی۔

یہ لیکچرار یا پروفیسرز جو یقینا یہ ’’نذرانہ‘‘ دینگے وہ کیا پڑھائینگے، کونسی تعلیم ہوگی، آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ معاملے بہت ہیں، میں نے تو صرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھتا چلا گیا کس طرح کس مخصوص کالج یا فرد کا نام کیا لکھوں ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہوا ہے اور اس کے ’’ڈانڈے‘‘ اوپر تک ہوں گے۔ مقدس پیشے کے اس ’’بازاری‘‘ انداز کا دکھ ضرور ہے۔ وہ آپ سے ’’شیئر‘‘ کرلیا ہے۔ زیادہ تر تو ہم اب یہی کرتے ہیں ’’آؤ دکھ شیئر کریں‘‘ حکومت نے عوام کے ’’گھٹنے‘‘ توڑ دیے ہیں۔

تو جس SMS کا ذکر میں نے کیا ہے وہ در اصل ہماری نئی سوچ کا مظہر ہے۔ حالات کے مطابق اس SMS کو تبدیل کیا گیا ہے۔ کہاں کس نے کیا، کیوں کیا، چھوڑیے۔ لاکھوں ذہن اب تک اس سے متاثر ہوچکے ہوں گے مگر میں نے اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی تو یہ ہمارے معاشرے پر ایک گہرا طنز ہے، اور ایسے ہی نہیں ہے، اس کے شواہد ہیں کہ ہر مقدمے میں عموماً وہ لوگ جھوٹی گواہیوں پر سزا پا جاتے ہیں جنھوں نے وہ جرم کیا نہیں ہوتا یا ایسے جرم کرنے والے کے خلاف آواز بلند کی ہو۔ اخبار میں ہی دیکھا تھا کہ اب ممبئی کی طرح ہمارے ملک میں بھی ’’کرائم سنڈیکیٹ‘‘ قائم ہوچکے ہیں اور ان کا ایک کام یہی ہوتا ہے کہ سچ کو سزا دینا تاکہ جھوٹ پنپ سکے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہ نہ ہو، ہمارا معاشرہ ایک آئیڈیل معاشرہ بن جائے، ہم دنیا کے باعزت ملک بن جائیں۔ مگر یہ بہت سی طاقتوں کو گوارا نہیں ہے۔ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ وہ ہمیں ایک آئیڈیل قوم اور ملک نہیں بننے دیں گے۔ اس کے لیے پہلے ’’اندرونی اتحاد‘‘ چاہیے اور ہم رکھتے ہیں، ہر قسم کا ’’عدم اتحاد‘‘۔ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں سے الگ ہوں تو ہم ملک کے دشمنوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالیں۔ ہمیں معروف کردیاگیا ہے۔

اس SMS کو اچھی طرح دیکھیے۔ میں نے اب تک اس کا ترجمہ پیش نہیں کیا، شاید میرے قاری متذبذب ہوںگے۔ ترجمہ ہے ’’زندگی سے میں نے ایک مکمل سبق سیکھا ہے، دنیا میں بہت زیادہ ایماندار بننے کی کوشش نہ کرو، کیوں کہ جو درخت سیدھے ہوتے ہیں انھیں کاٹنے کے لیے پہلے منتخب کیا جاتا ہے‘‘۔ ہے نا سیدھا سیدھا صراط مستقیم کو چھوڑنے کا مشورہ، اقدار کو رد کرنے کی دعوت، ظلم اور بے ایمانی کو عام کرنے کا راستہ اور ترکیب۔ یہ ہے ہمارا موجودہ معاشرہ جس نے Message بنایا، اس پر بھی افسوس ہے جس نے اسے عام کیا، وہ بھی کچھ اچھا نہیں کررہے، دشمنوں کا آلہ کار بننے جیسا عمل ہے یہ۔ ہمارا نوجوان اور اقبال کا شاہین، اقبال کے شعر کو یوں سمجھے گا، معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔

ہے ’’دولت‘‘ ہی مطلوب و مقصود مومن
ہو مال غنیمت، یا کشور کشائی

بڑے بڑے زیر زمین چھوٹے ہوگئے کچھ نہ ملا، کچھ نہ رہا، دنیا کو مستقل اپنے شکار کی آماجگاہ سمجھنے والے چاہے کتنے بھی بڑے ہوں، کفن میں ہاتھ خالی رہتے ہیں۔ اگر اب بھی نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے دنیا سے، تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

افسوس تو ضرور ہے مگر مایوس نہیں، اپنی قوم کے ضمیر سے واقف ہیں ہم، اس سب کا علاج ہے، وہ ہے جہد مسلسل۔ مثبت مسلسل جدوجہد ایک افیم زدہ قوم۔ تقریباً ہماری آزادی اتنے ہی عرصے میں آج دنیا کے سب سے بڑے عفریت ورلڈ پاور کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہے، چھوٹے قد کے بڑے لوگ جن سے یہ طاقت کا ایمپائر خوف زدہ ہے، کیسے ہوگا یہ سب کچھ؟ رہنما چاہیے، سچ کا راج چاہیے، ہوسکتا ہے، سب کچھ ہوسکتا ہے، برسوں کا کام دنوں میں کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے درد دل کی ضرورت ہے، ہے کوئی جو اس قوم کے رہنماؤں کو درد دل فراہم کرسکے؟ شاید اس کے لیے بھی ٹینڈر کھولنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔