کبڈی کے پالے

حسن رضوی ایڈووکیٹ  ہفتہ 1 نومبر 2014

عمل کو علم پر فوقیت حاصل ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا میں یہ جملہ کرشن جی سے منسوب ہے۔ یہی خیال دوسری طرح انگریزی میں محاورہ بن گیا ہے کہ عمل لفظوں سے زیادہ گرج دار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے تو اس خیال کی تجسیم کردی کہ لاکھ حکیم سربہ جیب ایک کلیم سربکف، پھر اہمیت بھی بتا دی کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی، یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔ یہ تمہید کسی فلسفیانہ موضوع پر نہیں بلکہ موجود سیاسی تناظر میں ہے۔

ایک طرف عمل نظر آرہا ہے تو دوسری طرف علمی بحثیں ہو رہی ہیں۔ دھرنوں کے سلسلے میں کہا گیا کہ حکومت کو اربوں روپے کے نقصان پہنچ گیا، یہ تحقیقی اور علمی بات تھی لیکن دھرنے تو سیاسی بساط پر ایک دو مہروں کو پٹخ ہی گئے۔ اسی طرح یہ جابجا جلسے اور پھر ان میں شرکا کی تعداد یہ سب عملیت کا اظہار ہے۔ جب کہ تازہ ترین ایم کیو ایم کی اسٹریٹجی (تزویر) بڑے دور کا پتا دے رہی ہے۔ یکم محرم کو سندھ کے چار شہروں میں ہڑتال اور توہین رسالت کے ایشو کے ساتھ صوبوں کے قیام کا مطالبہ یہ سب کچھ محض کسی سودے بازی یا پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں ہو رہا۔ یہ نئے اور پرانے کا وہ تصادم ہے جس کا مشاہدہ ہم جنریشن گیپ کے نام پر کرتے رہتے ہیں۔

تاجر حضرات تو بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی تجارت میں قدم رکھتے ہوئے جمے جمائے تاجروں سے نوواردان کا سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت موجودہ صورت حال میں بن گئی ہے۔ 1971 کے بعد یا یوں کہیں کہ ’’خالص پاکستان‘‘ کے قیام سے اب تک دو ہی طاقتیں اقتدار کی حامل رہی ہیں۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو کی وارث جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری مسلم لیگ نون اور درمیان میں تیسری غیر جمہوری قوت ، سیاست میں حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کا باہمی مفاد میں اتحاد اور سیاسی طور پر اختلاف چلتا رہتا ہے۔ کوئی نئی طاقت ابھرے جو ان دونوں جماعتوں کی قائم کردہ روایات کو تبدیل کرسکے لیکن تیسری طاقت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی، الٹی اس کی نیک نیتی کو جمہور دشمنی کی علامت بناکر عوام کو گمراہ کیا گیا۔

وہ جو کہتے ہیں کہ حالات سدا ایک طرح نہیں رہتے، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یا یوں کہہ لیں کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ وہ عوام جو سیاسی معاملات میں لاتعلق رہتے تھے اب مہنگائی، بے روزگاری، اقربا پروری، تعیشات، مال مفت دل بے رحم کے مشاہدات اور اپنے اوپر گزرنے والے حادثات کی روشنی میں سیاسی میدان میں قدم رکھنے لگے۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ کو اولیت اس لیے بھی حاصل ہوگئی کہ محرومی کے ساتھ عوامی اتحاد بنانے میں آسانی تھی۔ قیادت بھی متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے تعلق رکھتی تھی۔ تیسری نئی سیاسی جماعت کا درجہ ایم کیو ایم نے حاصل کرلیا، باقی میدان میں وہی پرانے شاہ مدار جو 1971 سے اب تک اقتدار کی چھینا جھپٹی میں حصہ لے رہے تھے۔ ایم کیو ایم کا ایک ڈرابیک بھی تھا کہ وہ اردو بولنے والوں کے درمیان سے ابھری جو مخصوص حلقوں میں ہی مقیم ہیں۔

سارے پاکستان میں ان کی آبادی کسی بڑی قوت میں شمار نہیں ہوتی۔ محدودات کے باوجود ایم کیو ایم سیاسی کردار ادا کرتی رہی۔ باقی سیاسی جماعتیں اے این پی، جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام، مختلف مسلم لیگیں، یہ ساری سیاسی جماعتیں جو پرانی ہونے کے ساتھ اختیارات میں حصہ بٹاتی رہی تھیں قومی سطح پر کسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی، جس کی قیادت بھی وزن رکھتی ہو۔ معاشی ابتری نے آخرکار دو سیاسی جماعتوں کو ابھارا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک شامل ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کی طرح خود کو تحریک ہی کہلاتی ہیں، جب کہ تنظیم بننے میں بہرحال وہ کیڈر سے تہی دست ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کا تعلق اس کے کیڈر یا کارکنوں کے اخلاص و ایثار سے ہوتا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتوں میں اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مگر جو ابتدا میں عمل کے حوالے سے باتیں کی گئیں اس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو دونوں سیاسی جماعتیں دھرنوں اور سیاسی جلسوں کے ذریعے جس عمل سے گزر رہی ہیں وہ اپنا رنگ جلد ہی لے آئے گا۔ کیونکہ سیاست تو نام ہی جدوجہد کا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیاسی میدان کبڈی کے پالوں کی طرح تقسیم ہوگیا، ایک پالے میں ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور پی آئی ٹی ہوں گی، دوسری طرف ’’خالص پاکستان‘‘ کے نام پر بنائی ہوئی سیاسی جماعتیں ہوں گی۔ پیپلزپارٹی حتی الامکان جماعت اسلامی کو مخالف پالے میں جانے نہیں دے گی اور تماشائی کی صورت میں پالے کے باہر تالیاں بجاتی اور حوصلہ بڑھاتی نظر آئے گی۔ یہ منظر نامہ 2015 کے ابتدا ہی میں عروج پر پہنچ جائے گا۔

بھارت کی مودی سرکار اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے نواز حکومت پر اثرانداز ہوگی جس کے حصار سے نکلنے میں میاں نواز شریف مڈٹرم الیکشن کو خود ہی ترجیح دیں گے۔ یوں آنے والے حالات اتھل پتھل کا پتا دے رہے ہیں اور کبڈی میچ کے نتیجے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اسکرپٹ کی دہائی دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کلائمیکس کے ساتھ اسکرپٹ میں اینٹی کلائیمیکس کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔