سامراج اور مسلم دنیا

زمرد نقوی  اتوار 30 ستمبر 2012
زمرد نقوی

زمرد نقوی

مسلمان سربراہ مملکت نے اقوام متحدہ سے امریکی صدر کے خطاب کے جواب میں مذاہب کی توہین کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مغربی ملکوں کو اسلام فوبیا کو ختم کرنا چاہیے جو گستاخانہ فلم سے پیدا ہونے والے طوفان کے بعد شروع ہوا ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انڈونیشیا کے صدر نے کہا کہ یہ فلم مذہبی ہتک کا بدنما چہرہ ہے۔ ہر کسی کو اخلاقیات اور نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے۔ آزادی اظہار لامحدود نہیں ہے۔ ایک ایسی بین الاقوامی دستاویز بنائی جائے جو مذہبی عقائد کی بنیاد پر تشدد اور مخالفت اکسانے کو مؤثر طور پر روک سکے۔ اردن کے شاہ نے فلم اور اس کے نتیجے میں تشدد کی مخالفت کی۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا کہ اسلام فوبیا ایک تشویشناک عمل ہے جو امن اور بقائے باہمی کو کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

مصر کے صدر محمد مرسی نے کہا کہ قاہرہ میں امریکی مخالف مظاہروں کے باوجود امریکا کی طرف سے عرب ممالک میں انقلاب کی حمایت سے ایک دوسرے کے احترام کا موقعہ مل سکتا ہے۔ نیویارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصر کے صدر نے کہا کہ مصر میں غیر مسلموں اور خواتین کے حقوق محفوظ ہیں۔ مصر کے ایک نئے جمہوری ملک کے طور پر ایک سیکولر ریاست کی شکل میں برقرار رہے گا۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پر زور انداز میں بین الاقوامی برادری سے کہا ہے کہ وہ آزادی اظہار کو مجرمانہ شکل دیے جانے پر خاموش تماشائی نہ بنے رہیں جس نے پوری دنیا کی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ گستاخانہ فلم بنانے والے اقوام کو تقسیم کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں جب کہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام عالم پر مخصوص طرز زندگی مسلط کیا جارہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام بہت جلد دم توڑ دے گا۔ دنیا کی معیشت کو منصفانہ خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔ سپرپاورز کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ موجودہ ورلڈ آرڈر نے دنیا کو مشکلات سے دوچار کررکھا ہے۔ دنیا کا نظام ناانصافی پر مبنی ہے۔ ایران کو اسرائیل سے مسلسل خطرہ ہے۔ غیر تہذیب یافتہ صہیونی عظیم ایرانی قوم کے خلاف فوج کشی چاہتے ہیں۔ مسلمان عیسائیوں، یہودیوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں۔ عالمی حکمران اشرافیہ مذاہب کے مابین اختلافات کو ہوا دیتی ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کو ’’حکمران اقلیت‘‘ کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔ ایرانی صدر کی تقریر کے موقعے پر امریکا اور اسرائیل کے وفود اقوام متحدہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرگئے۔

احمدی نژاد نے کہا کہ عالمی برادری امریکی غنڈہ گردی سے تنگ آچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں دہشت گردی کرانے میں مغربی ممالک کا ہاتھ ہے جن کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے۔ نائن الیون ایک ڈراما تھا کیونکہ اصل حقائق سامنے نہیں لائے گئے۔ ایران نائن الیون کے پس پردہ حقائق سامنے لائے گا۔ دنیا کو نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے۔ ایٹمی مسئلہ نان ایشو ہے۔ اسے عالمی طاقت نے انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ بہت جلد دنیا کو عالمی شہنشاہ کے احکامات سے نجات ملے گی۔ امریکا کی عالمی برادری کے خلاف جارحیت ہو یا ایٹمی معاملہ ان پر حال ہی میں تہران میں منعقد ہونے والی ناوابستہ ممالک کی کانفرنس ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنائی نے تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

دنیا خاص طور پر مسلم دنیا میں امریکا نے ایران کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈا اور غلط فہمیاں پھیلائی ہیں اس کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی نظام اور امریکا کے حوالے سے ان قابل قدر خیالات کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے۔ اپنے خطاب میں وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے کنٹرول روم کا اختیار چند مغربی ممالک کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا اور اس کے ہمنوا انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب مغربی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ بات کرتے ہیں ڈیموکریسی کی لیکن اس کی جگہ مختلف ملکوں میں اپنی فوجی مداخلت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ وہ بات کرتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی لیکن شہروں اوہر قصبوں میں آباد نہتے عوام پر بموں کی بارش کردیتے ہیں۔ ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکا کے انسانوں کی جانیں بے قیمت اور امریکا اور مغربی یورپ میں بسنے والے انسانوں کی جانیں بہت قیمتی قرار دی جاتی ہیں۔

وہ اپنے مفادات کو بین الاقوامی قوانین کا نام دے کر اپنی غیرقانونی باتوں کو عالمی برادری کے مطالبے کا نام دے کر قوموں پر مسلط کردیتے ہیں۔ اپنی اجارہ داری والے منظم میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے وہ اپنے جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی کیمیائی اور اسی طرح کے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ناقابل معافی اور عظیم گناہ سمجھتا ہے۔ ہم نے جوہری ہتھیار سے پاک مشرق وسطیٰ کا نعرہ بلند کیا ہے اور اس کی پابندی بھی کررہے ہیں لیکن عالمی قوانین کی رو سے ایٹمی توانائی اور ایٹمی ایندھن کی پیداوار کا پر امن استعمال ہمارا حق ہے لیکن چند مغربی ممالک جوہری ایندھن کی پیداوار پر بھی اپنی ’’اجارہ داری‘‘ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

طرف تماشا یہ ہے کہ امریکا جس کے پاس سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں ایک طرف اگر ایٹمی عدم پھیلائو کا علم بردار بنا ہوا ہے تو دوسری طرف اس نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرکے اسے اس حساس علاقے کے لیے بہت بڑے خطرے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ مغربی ممالک کے مؤثر میڈیا نیٹ ورک کا کمال ہی ہے کہ اس کا دن رات کا مسلسل پروپیگنڈا مسلمانوں کے ذہن کو برین واش کرتے ہوئے جھوٹ کو سچ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال شام کا بحران ہے۔ مغربی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے شام کے حوالے سے جو بھی خبر آتی ہے ہمارے اخبارات اسے چھاپنے کے لیے ’’مجبور‘‘ ہیں۔ کوئی آزاد ذریعہ نہیں جس سے حقیقت کا پتہ چل سکے۔ شام کے حوالے سے خبریں اس انداز سے مسلم دنیا میں پھیلائی جارہی ہیں جس سے امریکا اور اسرائیل کے مؤقف کی تائید ہوکہ شامی حکومت اپنے عوام پر ظلم کررہی ہے۔

عراق پر قبضہ کرنے اور دنیا کو ہمنوا بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ یہی کچھ آج کل سامراجی میڈیا شام میں کررہا ہے۔ شام پر امریکی قبضہ کرانے کے لیے اگر ایک طرف ترکی قطر اور عرب بادشاہتیں سرگرم عمل ہیں تو دوسری طرف افغانستان اور پاکستان کے جہادی بھی اسی ’’نیک کام‘‘ میں شام کے محاذ پر مصروف عمل ہیں۔ اس کا توڑ یہی ہے کہ مسلمانوںکو بھی چاہیے کہ مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ہر خبر پر ایمان نہ لائیں۔ اور اس قول کی تفسیر بنیں کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ یعنی اسے کوئی دھوکا نہیں دے سکتا……’’نہ اپنے نہ پرائے‘‘۔
امریکا کی عالمی چوہدراہٹ ختم ہونے والی ہے۔ دنیا میں طاقت کے نئے مراکز 2015 سے 2018کے درمیان وجود میں آجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔