ملک کا نام مزید نہ روشن کیا جائے

سعد اللہ جان برق  بدھ 26 نومبر 2014
barq@email.com

[email protected]

یہ سن کر آپ کوحیرت بالکل بھی نہیں ہو گی کہ مملکت ناپرسان میں ان دنوں ایک بہت بڑا بحران چل رہا ہے کیونکہ یہ پیدائشی طور پر بحرانوں کی سرزمین ہے۔ یہاں بحران ہی پیدا ہوتے ہیں، بحران ہی پلتے ہیں، بحران ہی کھائے پئے اور اوڑھے پہنے جاتے ہیں۔ اندازہ اس سے لگایئے کہ اس وقت دنیا میں بحرانوں کی کل پیداوار کا ایک سو ایک فیصد مملکت ناپرسان میں ہی پیدا ہوتا ہے، کیونکہ بحرانوں کی پیداوار یہاں جراثیم کی طرح ایک سے دو ہونے، دو سے چار، چار سے آٹھ، آٹھ سے سولہ، سولہ سے بیتس اور اس طرح ایک کروڑ تک کے کلیے پر ہوتی ہے، چونکہ ایک بحران کو پیدا ہونے پھر بلوغت اور نسل چلانے کے لیے صرف ایک سکینڈ کا عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔

اس لیے بحران یہاں گنتی کی حدود سے آزاد ہے ۔کچھ عرصہ پہلے بحرانوں کی شرح پیداوار معلوم کرنے کے لیے حکومت نے 99 ہزار نو سو ننانوے ’’منشیوں‘‘ کو بٹھایا تھا لیکن دوسرے دن جب حکومت نے دیکھا تو وہاں ایک بھی نہیں تھا۔ سارے منشی بحرانوں نے کھا لیے تھے لیکن یہ جو نیا بحران پیدا ہوا ہے یہ بالکل ہی نئی قسم کا بحران ہے جیسے ’’سرکاری کاغذات‘‘ میں ’’روشن بحران‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دراصل مملکت کے جو سپوت اور سپوتنیاں دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے کے لیے نکلی ہوئی تھیں، انھوں نے مملکت ناپرسان کا نام اتنا روشن کر دیا کہ انتہائی چمک اور چکا چوند کی وجہ سے ’’ملک کا نام‘‘ کوئی دیکھ ہی نہیں پا رہا تھا۔

خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر ناپرسان کے لوگ اس طرح ملک کا نام روشن کرتے رہے تو کہیں ایک دن مملکت ناپرسان سورج سے بھی زیادہ روشن ہو کر دنیا کو جلا نہ ڈالے یا تمام لوگوں کو اندھا نہ کر دے، چنانچہ اب حکومت نے اعلان کیا ہے بلکہ وارننگ دی ہے بلکہ قانون بنایا ہے کہ اگر کسی بھی ناپرسانی سپوت یا سپوتنی نے ملک کے اندر یا باہر ایک واٹ روشنی بھی بنائی تو اس کی آنکھوں میں بجلی کا ’’بل‘‘ پھیر کر اندھا کر دیا جائے گا اور اسے محکمہ ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ میں زبردستی بھرتی کیا جائے گا، اس خطرناک صورت حال اور سنگین بحران پر ظاہر ہے کہ چینل ’’ہواں سے ہیاں تک‘‘ کا چپ رہنا ایسا ہے جیسے کوئی دھرنا دے اور وہ بھی چپ چاپ، چنانچہ ہم نے حسب معمول اپنے مشہور ٹاک شو ’’چونچ بہ چونچ‘‘ پر اس بحران کا چرچا کرنے کا بندوبست کیا، سب سے پہلے تو ہم نے مملکت ناپرسان کے ایک خصوصی خاندان کے ایک خصوصی بندے کو پکڑا جس کا خاندان سات پشتوں سے مملکت ناپرسان کا نام روشن کرنے میں لگا ہوا ہے۔

سیاست، حکومت، کھیل، گانے بجانے اور ناچنے نچانے کا کوئی ایسا کام نہیں جس میں اس خاندان کا کوئی سپوت یا سپوتنی ملک کا نام روشن نہ کر رہا ہو، اس لیے تو اس خاندان کو ’’چندے آفتاب چندے مہتاب‘‘ کا لقب شہنشاہ اکبر نے خود اپنے ’’منہ‘‘ سے دیا تھا، اس زمانے میں اس خاندان کا جد امجد شہر کا ’’چیف مشعلی‘‘ تھا اس کے بعد پشت در پشت اس خاندان کا یہی پیشہ رہا ہے۔ سکھوں، سفید انگریزوں اور پھر کالے انگریزوں کی حکومتوں میں روشنی کا سارا کام اسی خاندان کے لوگ کرتے تھے، جب بجلی آئی تو سارا خاندان محکمہ بجلی میں بھرتی ہو گیا اور ملک کا وہ نام روشن کر دیا وہ نام روشن کر دیا کہ پورا ملک روشنی کا ایک گولہ بن گیا۔ آج کل اس خاندان کے کچھ سپوت سیاست میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں تو کچھ مختلف کھیلوں میں چاند سورج لگارہے ہیں۔ اس خاندان کی خواتین بھی مردوں سے پیچھے نہیں ہیں چنانچہ وومن کرکٹ، وومن ہاکی، وومن کبڈی، وومن آنکھ مچولی سے لے کر فلم اور ٹی وی تک میں اس خاندان کی ممبرات ملک کا نام روشن کر رہی ہیں، جس روشن مینار کو اس وقت ہم نے اپنے پروگراموں میں مدعوکیا ہے اس کا نام ’’جگنو میاں‘‘ ہے۔ اس کی شہرت کا اندازہ ایک شعر سے ہوتا ہے جو آج کل ناپرسان کا قومی ترانہ ہے کہ

جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

جگنو میاں کی اس دم کا نام ’’آپڈا‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ باقی دو ماہرین کو تو آپ جانتے ہیں جو ہمارے چینل ہمارے ٹاک شو بلکہ پورے ملک کی گردن کے مشہور ’’پھوڑے‘‘ ہیں۔

اینکر : ہاں تو جناب جگنو میاں ۔۔۔ یہ مملکت ناپرسان میں روشنی کا کیا لفڑا ہے؟
جگنو : بہت بڑا لفڑہ ہے۔ ہر طرف سے سازشیں چل رہی ہیں۔ یہود و ہنود اور غیر ملکی طاقتیں مملکت کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں، اس کا وجود مٹانا چاہتی ہیں، اس لیے ساری قوم کو ایک مٹھی بلکہ مکا بن کر؟
چشم : آپ کہیں موسم لیگ کے رہنماء تو نہیں؟
علامہ : غلط موسم لیگ میں رہنماء نہیں ہوتے سب کے سب ممتاز رہنماء ہوتے ہیں۔
جگنو : بالکل ٹھیک فرمایا، میں تو خاندانی ممتاز رہنماء ہوں۔ میرے والد صاحب مملکت ناپرسان کے بابا اعظم کی بیل گاڑی چلاتے تھے۔

اینکر : اس روشنی والے لفڑے کے بارے میں بتایئے جناب…
جگنو : میں نے کہا نا کہ بہت بڑا لفڑا ہے اور یہ یہود و ہنود کا پیدا کیا ہوا ہے۔

اینکر : وہ کیوں؟
جگنو : دراصل مملکت ناپرسان جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، اس سے دشمنوں کو خطرہ ہے کہ کہیں مملکت ناپرسان ساری دنیا بلکہ چاند ستاروں کہکشاؤں اور سیاروں پر بھی قبضہ نہ کر لے۔

اینکر : اچھا تو یہ بات ہے۔
جگنو : اس لیے انھوں نے ایک بہت گہری چال چلی ہے تاکہ مملکت ناپرسان کو نقصان پہنچا سکیں۔
چشم : مگر ہم نے تو سنا ہے کہ مملکت ناپرسان کو جتنا نقصان اس کے اپنے پیٹ کے کیڑے پہنچا رہے ہیں…
علامہ : ہاں اور اس میں قسم قسم کے کیڑے شامل ہیں، سبز رنگ کے کیڑے تو بہت پرانے زمانے سے اس کے پیٹ میں تھے۔
چشم : وہ تھوڑا تھوڑا کر کے اس کا خون چوستے تھے۔
علامہ : لیکن اب کئی کئی رنگوں کے چتکبرے، سہ رنگے، دو رنگے، بدرنگے، نورنگے کیڑے بھی بہت ہو گئے ۔
چشم : دراصل یہ سب کے سب کیڑوں کی ترقی دادہ اقسام ہیں جو اسی سبز کیڑے سے ڈویلپ ہوئے ہیں۔
علامہ : لیکن ان میں کچھ اقسام تو بڑی خون چوس ہیں۔

اینکر : یہ آپ لوگ کس طرف نکل گئے، ہم روشنی پر بات کر رہے ہیں، ہاں جگنو میاں آپ ان دونوں کی بات پر کان نہ دھریں، یوں سمجھیں کہ یہ ناپرسان کے عوام لوگ ہیں بولتے رہتے ہیں۔
جگنو : ہاں یہ صرف بولنے کے لیے بولتے ہیں نا کہ سننے کے لیے، وہ میں بات کر رہا تھا کہ مملکت ناپرسان میں ابتداء ہی میں ملی نغموں، قومی ترانوں اور گیتوں کی پیداوار بہت زیادہ تھی جن کی وجہ سے ملک کے بچے بچے میں حب الوطنی اور ملی جذبات کوٹ کوٹ کربھر گئے۔

اینکر : اچھا ۔۔۔ پھر
جگنو : جس کی وجہ سے ناپرسان کا بچہ بچہ جہاں جہاں تھا ملک کا نام روشن کرنے لگا، چاہے وہ لیڈر تھے، کرکٹ کے کھلاڑی تھے یا کھلاڑنیاں تھیں، تاجر تھے، اداکار تھے، فن کار تھے، سیاہ کار تھے، سب کے سب اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ملک کا نام روشن کرنے میں مصروف ہو گئے۔

اینکر : یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
جگنو : لیکن حکومت ناپرسان کو خطرہ ہو گیا کہ کہیں ملک کا نام اتنا نہ روشن ہو جائے کہ اس کی چکا چوند سے سارے لوگ اپنی بینائی کھو بیٹھیں۔

اینکر : اچھا ۔
جگنو : اندازہ اس سے لگائیں کہ لوگوں نے کھانا پینا سونا جاگنا نہانا دھونا بلکہ بولنا اور سننا تک چھوڑ دیا اور صرف ملک کا نام روشن کرنے میں لگ گئے۔

اینکر : تو حکومت نے کیا کیا؟
جگنو : خطرہ تھا کہ کہیں اس گھر کو اس کے چراغوں ہی سے آگ نہ لگ جائے اس لیے اعلان کر دیا کہ خدا کے بندوں کچھ اور بھی کر لیا کرو۔

اینکر : لیکن آپ جو یہود و ہنود کی سازش والی بات کر رہے تھے۔
جگنو : وہ تو صرف ماحول کو گرمانے کے لیے لیڈری کر رہا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔