پراؤڈ پاکستان

ڈاکٹر ناصر مستحسن  جمعرات 18 دسمبر 2014

آپ ذرا سا غور کریں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا ہم پراؤڈ(Proud) پاکستانی ہیں، کیا ماضی میں اور حال میں یا مستقبل کے لیے ہم نے ایسا کوئی ہدف اپنے ذہن میں رکھا ہوا ہے، جس کو مکمل کرکے نا صرف ہم بلکہ ہمارے ملک کا نام بھی دنیا بھر میں روشن ہوجائے، کیا ہم کسی بھی شعبے میں وہ کام کر پائے ہیں جو ہم کو ساری دنیا میں بحیثیت پاکستانی ایک پہچان دلا سکے۔

کیا کبھی ہم نے سنجیدہ ہوکر پاکستان کی خدمت کرنے کے بارے میں سوچا ہے اس طرح کے ہزارہا سوال ہیں جو میں متعدد لوگوں سے پوچھ چکا ہوں، لیکن آج تک (چند لوگوں کے علاوہ) مجھے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا سوچیں، بعثت نبویؐ کے بعد سے تقریباً سات سو سوا سات سو سال تک ہم دنیا پر حکمرانی کرتے رہے، اور ساری ہی دنیا کے لیے مینارہ نور بنے رہے، ہماری اسلامی درسگاہوں کو وہ عالمی شہرت اور عزت نصیب ہوئی جیسی کہ آج ہارورڈ اور آکسفورڈ (Harvard & Oxford) یونیورسٹیوں کو مل رہی ہے۔

وہ کون سا ایسا شعبہ تھا جس میں مسلمانوں نے اپنی عظمت کا، اپنی فہم و فراست، تدبر، عقل و آگہی کا لوہا نہ منوایا تھا، سائنس و ٹیکنالوجی سے لے کر، بینکاری اور معیشت دانی تک، سوشل سائنسز سے لے کر میڈیکل سائنسز تک، فلکیات سے لے کر ارضیات تک، حیوانیاتی اور حیاتیاتی نیز ہر وہ علم جو آج تک رائج الزمانہ ہے وہ ہمارے اسلاف علم کی تمام تر وسعتوں کے بانی تھے، سارے عالم میں اسلام کا مسلمانوں کا ڈنکا بجا ہوا تھا، پھر یہودیت اور عیسائیت نے مسلمانوں میں تفرقہ، فرقہ واریت اور منافقت،اقربا پروری کے حوالے سے تفریق ڈال دی اور ہم صیاد کے بچھائے ہوئے جال میں پھنستے گئے اور آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ماہانہ اخراجات کے لیے بھی ہم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے گڑگڑانا پڑتا ہے۔

اسلحہ سازی، صنعتی ترقی روبہ زوال، زراعت کے زوال سے لے کر ہم ہر سطح کے زوال کی نچلی سطح پر جی رہے ہیں، ایک زمانہ تھا جب ہم ساری دنیا میں عزت و تعظیم کے ساتھ مسلمان کہلائے جاتے تھے، دنیا ہمارے کردار اور ہمارے اعمال کو اپنانا چاہ رہی تھی اور آج ہم تعصب پسند، شدت پسند اور دہشت گرد اور قابض جیسے القابات سے جانے جاتے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے اسلحہ سازی کے معاملے میں خود کفالت مضبوط معیشت کے وسیلے سے پائی اور اجتماعی اسلامی دیانت داری اور اجتماعی اسلامی انصاف کے وسیلے اور فضول خرچی سے پرہیز کے وسیلے سے مضبوط معیشت پائی۔ ہمارے اسلاف میں، عہد گزشتہ کے مسلمان لیڈران میں کوئی تو ایسی خوبی، کوئی تو ایسی بات ہوگی جو ان کو آج تک کی دنیا کا بہترین منظم، اصول پسند، ایماندار اور رعایا سے مخلصانہ رویہ رکھنے والے سلاطین بناتی ہے۔

وہ زمانے میں مشہور تھے صاحب قرآن ہوکر اور ہم کھوگئے اندھیاروں میں تارک قرآن ہوکر۔ پہلے مسلمان الٰہیات (Theology)، فلسفہ و سائنس، جمالیات اور تصوف کے ذریعے علم و عمل کا بے گراں سمندر تھے جو اپنی خوبیوں اور ان جیسی کئی خوبیوں کے مالک تھے معذرت کے ساتھ میں کچھ کہہ سکتا ہوں اگر اجازت ہو۔ آج کے عملا و فضلا میں نا سائنس رہی، نا جمالیات اور نا ہی تصوف صرف الٰہیات کا پرچار وہ بھی سطحی حد تک، اور الٰہیات کے حوالے سے بھی اس کی روایت میں سے چیدہ چیدہ باتوں کو لے کر اور ان سب کو اس کے حقیقی تناظر سے جدا کرکے آج اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا کہاں کی اسلامی روایات ہیں، مسلمانوں کا آج تک جتنا بھی نقصان ہوا ہے اور زمانے سے رائج اس کی شان و شوکت جاہ و جلال، درخشاں پرشکوہ دور آج جو کھوتا جا رہا ہے۔

اس میں اگر 25 فیصد ہاتھ مجھ جیسے نام نہاد مسلمان کا ہے تو 75 فیصد ہاتھ آج کے دین و مذہب کے دعویداروں کا بھی ہے، ہمارے یہاں مولویوں نے انسانوں کو خدائے ذوالجلال سے اس قدر ڈرا دیا ہے کہ لوگوں میں ’’کیا کروں اور کیا نہ کروں‘‘ کے بیچ ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں کہ وہ اپنے مرکز سے دور ہٹتے جا رہے ہیں، اس کے برعکس خدائے بزرگ و برتر کو رحیم وکریم بناکر پیش کیا جاتا تو نہ صرف آج کے مسلمانوں میں رواداری، مساوات، حقوق العباد، اساتذہ کی عزت اور ماں باپ کی خدمت اور ایک اچھا مسلمان بننے کی جستجو ہوتی۔

جب آپ یہ سوچنے لگیں کہ ’’جانا تو ہمیں دوزخ ہی میں ہے تو کیوں نہ پھر وہ کیا جائے جو دنیا میں رہ کر کیا جاسکتا ہے‘‘ اس میں ہر چیز آگئی ہے فرداً فرداً بتاؤں تو تمام کا تمام کالم ان باتوں سے بھر جائے گا، اور ایک طرف یہ الگ سوچ ہو کہ ’’اگر ہم اچھے ہیں تو اللہ بھی ہمارا ساتھ دے گا لہٰذا اپنے معاشرے میں اسلامی شعائر پھیلانے کے علاوہ وہ پیروی نبویؐ بھی کرے گا اور حقوق اللہ بھی اچھی طرح نبھا پائے گا۔‘‘ ہمارے یہاں ایک غلط کام یہ بھی ہوا ہے کہ بعض علما نے جہاد کا تصور دینی تعلیمات سے خاصا ہٹا  دیا ہے۔

اس ایک عمل سے ردعمل کے طور پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اس کو جنت میں جانے کا راستہ بتا کر نہ صرف اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو بھی بدقسمتی سے ہمارے یہاں ریاستی ادارے کبھی جدت پسند لوگوں کے سپرد رہے اور کبھی رجعت پسند لوگوں کے، کبھی آمریت کے مہیب سائے میں رہے تو کبھی جمہوریت کی چھتر چھایہ میں آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہونے سے اچھا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو تمام سیاسی جماعتوں کے متفقہ فیصلے کے بعد، اسی ٹیبل پر ریفریش کیا جائے، جمہوریت میں حکومتی ادارے بنانا آسان ہوتا ہے اور آمریت میں ان کو بچانا ہمارے ہاں آمریت اور جمہوریت کے بیچ نوراکشتی کئی برسوں سے ہو رہی ہے۔

لہٰذا کبھی انصاف کے نظام پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو کبھی پارلیمان پر ۔آج جو بات شدت کے ساتھ میں محسوس کر رہا ہوں، جیسے مقتدر طبقے اور متوسط اور پھر غریب طبقے کے درمیان دونوں تینوں طبقوں کے بیچ ان کی آمدنی کو لے کر جو فرق ہے، وہ تشویش ناک حد تک بڑھ رہا ہے، جو فرق افغان اور روس جنگ سے پہلے 1980 اس سے بھی پہلے 10 فیصد تک وہ فرق آج بڑھ کر 47فیصد یا اس سے کچھ زیادہ بڑھ کر ناصرف غریبوں کی غربت کا مذاق اڑا رہا ہے بلکہ ان کے ذہنوں میں ’’سب کچھ چھین لو‘‘ جیسی بازگشت کی تکرار سے باغیانہ عزائم بھی پیدا کرسکتا ہے، آدمی اگر بے روزگار ہے لیکن غذا، کپڑے اور چھت تو اس کو چاہیے ہی، جمہوری و فلاحی ممالک میں اپنے شہریوں کے نظام زندگی کو لے کر سیاستدانوں میں باقاعدہ بحث ہوتی ہے۔

جس کے بعد عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے متعدد ایسی اسکیموں کو عوام میں متعارف کرایا جاتا ہے جن سے مثبت نتائج براہ راست ان کے عوام تک پہنچتے ہیں یورپ اور امریکا میں بھی غربت اور بیروزگاری ہے کون اس سے انکار کرسکتا ہے لیکن وہاں حکمران اپنی طرف سے تو پورا ہی کرتے ہیں ناں ،عوام کو بیچ منجدھار میں تو چھوڑا نہیں جاتا اس لیے یورپ اور امریکا کے ان علاقوں میں جہاں غریب اور غیر پڑھے لکھے افراد رہتے ہیں، جرائم کا تناسب، ان علاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔  ہمارے یہاں سیاستدانوں کے بیچ ہاتھا پائی، طعنہ زنی، گالم گلوچ، تنقید برائے تنقید، ایجی ٹیشن، منافقت، دوریاں کیوں ہوتی ہیں وہ اس لیے ہوتی ہیں کہ ہر کوئی اقتدار چاہتا ہے ۔پاکستان اور پاکستان ہی کی طرح ہر وہ ملک جو جنوبی ایشیا میں بھی ہے اور تیسری دنیا میں بھی ان ممالک کے لیے اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ ہے غربت اور پھر جہالت اگر کوئی ملک اس پر اچھی طرح قابو پالے تو یقین جانیے اس ملک کے آدھے مسئلے تو یوں ہی ختم ہوجائیں گے۔

تعلیم ہوگی تو جہالت دور ہوگی، جہالت دور ہوگی تو روزگار ملے گا، روزگار ملے گا تو غربت دور ہوگی، بیسویں صدی کی اس معاملے میں سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے چائنا ہے، اس نے محض اسمال انڈسٹریز (چھوٹے کارخانوں) پر توجہ دی ہر کسی کو روزگار دیا اور پھر اگلے بیس سالوں میں 44 کروڑ افراد غربت کی نچلی سطح سے اٹھ کر متوسط طبقے کے افراد میں شمار کیے جانے لگے۔ اے خدا! میرے ملک کے 11 کروڑ غریبوں کے لیے ایک ایسا مسیحا بھیج جو اس بارے میں ہر اقدام کرے۔ پھر مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہوگا۔ جب میرے پیٹ میں روٹی ہوگی، رہنے کے لیے سر پر چھت، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، اور اپنی بچی کی کفالت کے لیے روزگار ہو تو میں دل سے ہر وہ کام کرسکتا ہوں جو مجھے Proud پاکستانی بنا دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔