(پاکستان ایک نظر میں) - بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

فہیم پٹیل  جمعـء 19 دسمبر 2014
مشرف صاحب کو 11 سال حکومت کرنے کے بعد خیال آیا کہ پاکستان کی اکثریت امریکہ سے نفرت کرتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ خیال اُن کو گزشتہ روز خواب میں ہی آیا ہوگا، کیونکہ اگر پہلے آتا تو وہ کبھی امریکا کا ساتھ نہیں دیتے۔

مشرف صاحب کو 11 سال حکومت کرنے کے بعد خیال آیا کہ پاکستان کی اکثریت امریکہ سے نفرت کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خیال اُن کو گزشتہ روز خواب میں ہی آیا ہوگا، کیونکہ اگر پہلے آتا تو وہ کبھی امریکا کا ساتھ نہیں دیتے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ۔۔۔۔ اِ س مملکت خداداد میں ایسا تو ہوتا ہی ہے ۔۔۔۔ جیسے ایک مشہور فلم کا ڈائیلاگ ہے  کہ ’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں‘۔

یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔ جب اقتدار پر قبضہ ہو توانسان سب کچھ بھول جاتا ہے ۔۔۔۔ اور جیسے ہی اقتدار ہاتھوں سے پھسلا ۔۔۔۔ یادداشت ایسے بحال ہوتی ہے جیسے گھر میں ڈیڑھ گھنٹے طویل لوڈشیڈنگ کے بعد بجلی بحال ہوتی ۔

بات کو طویل کرنے کے بجائے نقطہ پر آتے ہیں ۔۔۔۔ نقطہ یہ ہے کہ ہمارے پیارے سابق صدر محترم جناب پرویز مشرف کی یادشات بھی گزشتہ دنوں اِسی طرح بحال ہوئی ہے ۔ پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کوئی پاکستانی بھی امریکہ کو قابل اعتبار اتحادی نہیں سمجھتا ۔مشرف صاحب  کی جانب سے کیا جانے والا یہ انکشاف ، ایک ایسا انکشاف ہے جس پر شاید کوئی ایک بھی پاکستانی حیران نہیں ہوگا ۔۔۔۔ کیونکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے یہ قوم روز اول سے نہ صرف اچھی طرح آگاہ ہے بلکہ قرب میں بھی مبتلا ہے کہ قوم میں اِس قدر تحفظات اور نفرت کے باوجود کیونکر ہمارے حکمرانوں نے اپنا قبلہ امریکہ کی جانب کیا ہوا ہے ۔

تو اب قوم کو بتلانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دو چہرے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ایک چہرہ وہ جب وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ دوسرا چہرہ وہ جب اُن سے زیادہ عوامی لیڈر کوئی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔  جب ہمارے حکمراں اقتدار میں ہوتے ہیں تو پھر ہر حقیقت اُن کو جھوٹ اور ہر جھوٹ اُن کو حقیقت لگتی ہے اور جب اقتدار میں نہیں ہوتے تو اُن کو  سب ویسا ہی دکھائی دے رہا ہوتا ہے جیسا  حقیقت میں ہوتا ہے۔

چلیں آپ کو مثال بھی دیے دیتے ہیں ۔۔۔۔ آج سے ڈیڑھ سال پہلے نوازشریف اور اُن کی ٹیم اُس وقت کی حکومت پر عوامی مسائل حل کرنے کے لیے دباو بھی ڈالتی تھی، پھر ہر غلطی پر تنقید بھی کرتی تھی، مہنگائی اور بیروزگاری پر بُرا بھلا بھی کہتی تھی ۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دینے پر تنقید بھی کی جاتی تھی ۔۔۔۔ مگر اب سب کچھ اُلٹ گیا ہے ۔۔۔۔ جو تنقید نواز شریف ، پیپلزپارٹی کی حکومت پر کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ آج وہی تنقید خود اُن کی حکومت پر ہورہی ہے ۔۔۔۔ اورتنقید کرنے والے بیشمار افراد اور گروہ میں سے ایک پیپلزپارٹی بھی ہے جس پر خود یہ الزام اُس کے دورِ حکومت پر لگتے آئے ۔۔۔۔

اِس ساری بات کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب مفادات کا کھیل ہے ۔۔۔۔ مشرف صاحب نے 11 پاکستان پر حکومت کی ۔۔۔۔ اور یہی وہ دور تھا جب دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا اور پاکستان اِس کھیل میں امریکا کا صفِ اول کا اتحادی تھا ۔۔۔۔ اور اِس اتحاد پر مشرف اور اُن کی حکومت فخر محسوس کیا کرتے تھے۔

لیکن چونکہ وہ حکومت کے مزے ختم ، وہ یادگار دور ختم ۔۔۔۔ تو اب سچ بولنے میں بھلا کونسا نقصان ہے ۔۔۔۔ بلکہ اِس موقع پر سچ بولنے سے تو عوام کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے اور جب ہو عوام آپ کے ساتھ تو پھر آسانی سے مل سکتا ہے اقتدار۔۔۔۔

لیکن پھر بھی ۔۔۔۔ یہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ سرکار ، آپ اِس حقیقت سے کب آگاہ ہوئے کہ ہم یعنی پاکستانی امریکہ کو بااعتماد اتحادی نہیں سمجھتے ؟ اگر تو اِس حقیقت کا انکشاف حال ہی میں کسی خواب کے ذریعے ہوا ہے تو ہمیں آپ  کی طرف سے سچ بولے جانے کا خیرمقدم کرتے ہیں ۔۔۔۔ مگر آ پ جیسے بڑی شخصیت کے بارے میں یہ تصور بھی محال ہے کہ آپ اِتنی بڑی حقیقت سے ناآشنا ہوں ۔۔۔۔ اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ چونکہ آپ نے بھی ہم پر حکومت کی ہے اِسی لیے آپ کے بھی دو چہرے تھے ۔۔۔۔ ایک چہرہ وہ تھا جب آپ ہم پر حکومت کررہے تھے اور ظاہر ہے اُس دور میں آپ کے لیے سچ کو جھوٹ بولنا بنتا تھا ۔۔۔۔ اور اب آپ عوامی لیڈر بننے کی خواہش دل میں لیے بیٹھیں ہیں تو ظاہر ہے عوامی باتیں تو کرنی ہی ہونگی ۔۔۔

اِس ساری بات کے بعد خواہش تو یہی ہے کہ کاش ہمارے حکمران دو چہروں سے جان چھڑاکر ایک ہی چہرے پر گزارا کرلیں ۔۔۔۔ جس حقیقت کو وہ اقتدار کے بغیر حقیقت سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ اگر اُسی حقیقت کو اقتدار میں بھی حقیقت سمجھ لیں تو ہمارے مسائل کا حل کچھ ہی مہینوں  کے بجائے شاید کچھ ہی دنوں میں حل ہوجائیں وگرنہ ہم اِسی طرح دیر کرتے رہیں گے اور مسائل کے انبار میں دبتے رہینگے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور انچارج بلاگ ڈیسک اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ سے @patelfahim پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔