ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی

سعد اللہ جان برق  جمعرات 4 اکتوبر 2012
barq@email.com

[email protected]

اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ اس پورے نقار خانے میں اب تک جو یہ بڑے بڑے ’’نقارے‘‘ ڈم ڈما رہے تھے۔

وہ سارے کے سارے جھوٹے اور ڈھول کا پول تھے اور سچی آواز صرف اس طوطی کی تھی جس کا نام غلام احمد بلور ہے جس نے اپنے نام کا بھی حق ادا کر دیا ۔۔۔ ماں باپ نے اس کا نام غلام احمد رکھا تھا جو اسم بامسمی ثابت ہوا اور بلور کی طرح شفاف بھی نکلا، اس نے جو کچھ کہا ہے اور لوگوں نے جو کچھ سنا ہے وہ سیاسی سفارتی اور منافقانہ آئین و دستور میں کچھ بھی ہو لیکن کروڑوں لوگوں کے دلوں کی آواز تھی، اب کوئی کچھ بھی کہے یا کرے لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

صحرا میں ’’چشم حسود‘‘ نے جس تنگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی آپ نے دیکھ اور سن لیا ہو گا کہ ’’یہاں‘‘ اور ’’وہاں‘‘ دونوں جگہوں سے محترم بلور صاحب سے ’’جواب طلبی‘‘ ہو رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس جواب طلبی کا منبع و سر چشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے، اصولی طور پر درست بھی ہے ڈالر کھلانے والے جواب طلبی کا حق بھی رکھتے ہیں کہ بھئی ہم نے تم کو اتنا ’’کھلایا پلایا‘‘ اور ہم ہی سے ’’میاؤں‘‘ ۔۔۔ ہمارے ایک بے ’’مثل سپوت‘‘ اور قابل فخر ’’فرزند‘‘ کے خلاف اتنی اشتعال انگیزی؟ اب اس سلسلے میں بہت ساری بین الاقوامی سفارتی سیاسی اور عالمی قسم کی موشگافیاں سامنے آئیں گی بہت سی کاغذی اور کتابی اصلاحات اور عالمی امن کی دہائیاں دی جائیں گی۔

اس ’’شاتم رسول ‘‘ کے ڈھیر سارے ’’انسانی حقوق‘‘ آڑے آئیں گے، ’’آزادی اظہار‘‘ کے شگوفے چھوڑے جائیں گے اور ہر وہ طریقہ اپنایا جائے گا جس سے ’’شاتم رسول ‘‘ کی جان مال اور آن بان کا تحفظ مقصود ہو گا ۔ ہم بھی امن کے داعی اور تشدد کے مخالف ہیں وہ سب کچھ ہمیں تسلیم ہے جو آزادی اظہار اور انسانی انفرادی آزادی کے ذیل میں آتا ہے ۔ یہاں وہی اصول لاگو ہوتا ہے کہ آپ کو بے شک اپنے ہاتھ پھیلانے کی آزادی حاصل ہے لیکن صرف وہاں تک جہاں سے دوسرے کی ناک یا آنکھ کی سرحد شروع ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق سب کے سب اپنی جگہ درست ہیں لیکن ان کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہوتا ہے ایک شخص کی صرف شکل و صورت انسان کی ہو اور کام شیطان کا ہو تو اسے ’’انسانی حقوق‘‘ نہیں دیے جا سکتے۔ اس نے تو اسی وقت اپنے انسانی حقوق کھو دیے جب اس نے انسانی حقوق کی سرحد پھلانگ کر شیطانی دائرے میں قدم رکھ دیا۔ اس ایک ابلیس کی اس شیطانی حرکت نے جو صورت حال پیدا کی اس میں انسانی جانیں بھی گئی ہیں۔

کیا وہ انسان نہیں تھے اگر وہ انسان تھے تو انسانوں کے قاتل کی کیا سزا ہو سکتی ۔۔۔ جو لوگ مرے وہ کیوں مرے ۔۔۔ اس لیے کہ اس ایک فرد نے ایک ابلیسی چنگاری جلائی ایک ایسی حرکت کی جس کے نتیجے میں انسانی جانیں تلف ہوئیں۔ مالی نقصان کو تو ایک طرف کر دیجیے لیکن انسانوں کا اصل قاتل کون ہے، اسامہ نے بھی تو اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل نہیں کیا تھا، صدام حسین نے بھی کسی کو خود نہیں مارا تھا، قذافی، حسنی مبارک اور ایسے بہت سارے لوگ ’’بالواسطہ‘‘ طور پر مجرم ٹھہرائے گئے تھے تو کیا یہ جو ابلیسی حرکت کرنے والا ہے۔

جس کی چنگاری سے یہ آگ لگی، جس نے پورے ڈیڑھ ارب دلوں کا خون کیا ہے جو مذاہب کے درمیان نفرت کی دیواریں بنانے کا مرتکب ہوا ہے وہ ایک بین الاقوامی مجرم ہے اور بالواسطہ طور پر ان تمام نقصانات کا ذمے دار نہیں ہے؟ دنیا اور خود انھی ممالک کے قوانین جن کی دہائیاں دی جاتی ہیں اس معاملے میں کیا کہتی ہیں، بے شک انسانی قتل جرم ہے تشدد غیر قانونی ہے اور کسی کو آزار پہنچانا درست نہیں ہے تو پھر یہ حکومتیں لوگوں کو پھانسیاں، گیس چیمبر اور زہریلے انجکشن یا قید و بند کی سزائیں کیوں دیتی ہیں۔ اسی امریکا نے عراق اور افغانستان میں کتنوں کو مار دیا ہے جو اپنے قوانین کے مطابق درست تھے۔

کیا عجیب و غریب منطق ہے کہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے لڑنے والا تو مجرم ہے اس کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں لیکن ایسے ابلیسوں کے ڈھیروں ڈھیر انسانی حقوق ہوتے ہیں جو ایک جہان کو وقف اضطراب کر دیتے ہیں اس سے زیادہ نرالی منطق اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی ملک کے معمولی قوانین کی خلاف ورزی تو جرم ہے لیکن ایک پوری مسلم قوم کے خلاف اشتعال انگیز اور ابلیسی حرکت ’’اظہار آزادی‘‘ ہے۔

بات تو صرف ’’جرم‘‘ کی ہونی چاہیے اگر امریکا یک طرفہ طور پر اسامہ، ملا عمر، صدام حسین اور قذافی کو اپنے ہی ملک میں قتل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، ایمل کانسی اور عافیہ صدیقی کو مجرم ٹھہرا سکتا ہے تو ایک پوری مسلم قوم کے خلاف جرم کرنے والا مجرم کیوں نہیں ہے۔ کوئی ہمیں یہ تو سمجھائے کہ سانپوں، بچھوؤں اور دوسرے زہریلے جانوروں اور درندوں کو کیوں مارا جاتا ہے اس لیے کہ وہ انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں چنانچہ انسان یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اس کے سامنے جو زہریلا جانور یا درندہ ہے اس نے کسی کو مارا ہے بھی یا نہیں۔

ہو سکتا ہے کہ اس مخصوص بے چارے جانور نے کسی کو خود نہ بھی مارا ہو لیکن انسان دیکھتے ہی اسے مار ڈالتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ کہیں آیندہ چل کر یہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے کیوں کہ اس کی ذات اور نسل ہی ایک دفعہ واجب القتل قرار دی جا چکی ہے، اور یہاں تو اس زہریلے انسان نما جانور کو کھلم کھلا انسانوں کو اپنی شیطنت سے آپس میں مروایا ہے۔ یہ شخص واجب القتل ہے اور رہے گا، ڈیڑھ ارب انسانوں کو خون کے آنسو رلانے والا کسی بھی طرح رحم کا مستحق نہیں ہے اور اگر کوئی حکومت کوئی قانون اور کوئی انسان اسے کسی بھی بہانے سے تحفظ دیتا ہے تو وہ برابر اس کا شریک ہے۔

اگر کسی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قوانین کا تحفظ کرنے کے لیے سب کچھ کرے تو غلام احمد بلور کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وسائل کا استعمال ان محرکات کی حفاظت کے لیے کرے جو اس کا دین و ایمان ہے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے اپنی محرکات و مقدسات کا تحفظ کرنے کی کسی کوشش سے روکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔