کچھ جماعتیں، کچھ قائدین

ابن ریاض  ہفتہ 31 جنوری 2015
مزے کی بات یہ ہے کہ جس نقطے پرہماری سیاسی جماعتیں متفق ہیں وہ ہیں عوام۔ یعنی کہ کوئی ایسا کام نہ ہوجائے جس سے عوام کا بھلا ہوجائے اور ان کی زندگی قدرے سہل ہو۔ فوٹو: فائل

مزے کی بات یہ ہے کہ جس نقطے پرہماری سیاسی جماعتیں متفق ہیں وہ ہیں عوام۔ یعنی کہ کوئی ایسا کام نہ ہوجائے جس سے عوام کا بھلا ہوجائے اور ان کی زندگی قدرے سہل ہو۔ فوٹو: فائل

قارئین کرام آپ کو پاکستان کی چند اہم سیاسی جماعتوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ یہ تعارف تو ہم نے بیرون ملک مقیم ان دوستوں کے لئے لکھا ہے جو پاکستان کے حالات کے متعلق متجسس ہیں اور ہماری سیاسی صورتحال کے بارے میں مزید آگاہی کے طالب ہیں۔ تاہم اگر یہ تعارف آپ کو بھی کروا دیا جائے تو چنداں حرج نہیں۔

شریف جماعت

اس جماعت کے روح رواں دو بھائی ہیں جو اتنے شریف ہیں کہ شریف ان کے نام کا حصہ ہے۔ اس جماعت میں شمولیت کے لئے شرافت و نجابت اولین شرط ہے اور ان کی کوشش ہے کہ ملک میں شرافت عام ہو جائے۔ اس پالیسی کے مدنظر ہر محکمے کا سربراہ صرف وہی شخص مقرر ہوسکتا ہے جو ’شریف‘ ہو اور چونکہ ان کے علاوہ یہ خوبی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی، تو اِس لیے یہ عہدہ اِن کو مجبوراً اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے اور نا سمجھ لوگ اِن پر پھر اقربا پروری کا الزام لگادیتے ہیں۔ یہ دونوں ملک کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں، اتنی گہری کہ عام معاملہ اُس وقت تک اُن کی نظر میں نہیں آتا جب تک وہ بحران نہ بن جائے۔ اکثر اوقات مقامی غور و خوض ناکافی ثابت ہوتا ہے تو دوست ممالک  بھی جو اکثر اس بحران کے ذمہ دار ہوتے ہیں، مدد کو آن پہنچتے ہیں۔

میر بھی کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں

اس حکومت کو پل اور سڑکیں بنانے کا بہت شوق ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اس کا مقصد ذاتی ملوں اور فیکٹریوں کے سامان کی کھپت ہے تویہ ان کی بدگمانی ہے ورنہ حکومت  کا ایسا مقصد ہوتو لیپ ٹاپ کیوں تقسیم کرتی؟ اکثر لیپ ٹاپ والوں نے تو حکومت مخالف ووٹ دیئے۔

دونوں بھائی شرافت کے ساتھ ساتھ بے خوف اور نڈر بھی ہیں۔ بے خوفی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اپنے نام کے ساتھ ’میاں‘ لگاتے ہیں۔ شادی شدہ ہم بھی ہیں مگر اتنی ہمت کبھی نہ ہوئی کہ یوں سرعام اس کا اعلان کرتے پھریں۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ۔

دھرنا جماعت

یہ بھی ایک مقبول پارٹی ہے۔ اس کا منشور نیا پاکستان بنانا ہے۔ تا ہم نیا پاکستان بنانے کے لئے جگہ کا تعین شاید نہیں ہو پایا۔ اس لئے ابھی فی الوقت قوم نیا خاندان پر اکتفا کرے۔  تبدیلی اس پارٹی کا نعرہ ہے اور سب سے بڑی تبدیلی جو آئی ہے وہ جلسوں میں آئی ہے۔ پہلے پارٹیاں جو جلسے اور دھرنے کرتی تھیں وہ بہت بے رونق ہوتے تھے۔ پارٹی کے رہنما اور لیڈر اپنے کارنامے (جو انھوں نے کیے بھی نہ ہوتے وہ) بیان کرتے اور مخالفین کی پگڑی ( جو انھوں نے پہنی بھی نہ ہوتی) اچھال دیتے۔ لوگ جھوٹ سچ سن کر اور کھانے پر ہاتھ صاف کرکے گھر آجاتے۔

یہ کام اب بھی جاری ہے تاہم اس پارٹی نے جلسوں کو میلے کی رونق دے دی ہے۔ یہی حال ان کے دھرنے کا رہا۔ لوگ اب تقریر کے ساتھ تفریح بھی کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے تو مزے ہوگئے۔ جو کنسرٹس ہزاروں میں پڑتے تھے اب مفت میں ہیں جبکہ ساتھ کھانا پینا بھی۔ ادھر پارٹی لیڈر نے تقریر شروع کی، ادھر ڈی جے کا کام شروع اور یوں ڈی جے کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔

پدرم سلطان بود جماعت

کبھی یہ پارٹٰی ملک کی مقبول ترین پارٹی ہوتی تھی مگر آج اس کا حال بھی وہی ہے جو موجودہ عالمی تناظر میں مسلمانوں کا ہے۔ یہ پارٹی پدرم سلطان بود کی زندہ مثال ہے۔ ہمیشہ اپنا شاندار ماضی دھراتی رہتی ہے۔ ہم نے یہ کیا، ہم نے وہ کیا، ہمارا یہ شہید ہوا، ہمارا وہ شہید ہوا وغیرہ وغیرہ۔

مفاہمت پر یقین رکھتی ہے۔ اس لئے اپنے لیڈروں کے قاتلوں سے مفاہمت کرلیتی ہے۔ ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کے منشور پر عمل کرتے ہوئے سب کو لوٹنے کا جمہوری حق دیتی ہے۔ اس پارٹی میں بڑا عہدہ پانا چنداں مشکل نہیں۔ بدعنوانی دل کھول کر کریں مگر اپنے بڑوں کا حصہ ان تک ضرور پہنچائیں۔

ان پارٹی کے اراکین اتنے سادہ ہیں کہ انھیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کے بنک اکائونٹ میں اچانک کروڑوں کیسے آجاتے ہیں۔ واقعی جب اللہ دیتا ہے چھپر بھاڑ کے دیتا ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ کبھی ہمارے ساتھ بھی ایسا اتفاق ہو۔

پہیہ جام جماعت

 یہ پاکستان کی بلکہ دنیا کی شاید واحد پارٹی ہوگی جو اقتدار میں رہتے ہوئے حزب اختلاف اور حزب اختلاف میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹتی ہے۔

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

اگرچہ پارٹی تو مقامی بلکہ علاقائی ہے مگر اس کے اثرات بین الاقوامی ہیں۔ اس جماعت کی خاصیت یہ ہے کہ اِس کا کنٹرول دیار غیر سے ہوتا ہے۔ وہاں سے ملنے والے حکم پر پارٹی سر تسلیم خم کرلیتی ہے اور ایک اشارے پر سب بند ہوجاتا ہے۔ گوشہ نشیں اور عہدہ و جلال سے کوسوں دور۔ کئی بار پارٹی قیادت کو خیرباد کہا مگر عوام کے پرزور اصرار پر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ طوق گلے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔

مٹی پاو جماعت

یہ بھی دو چچازاد بھائیوں پر مشتمل جماعت ہے۔ اس کا انتخابی نشان سائیکل ہے۔ اس سے ان بھائیوں کے دور اندیشی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کا مستقبل سائیکل ہے۔ ان کو موسیقی سے بھی شغف ہے اور ان کی پسندیدہ موسیقی بوٹوں کی آواز ہے

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج

عام دنوں میں ان کو ’اکھیاں اڈیک دیاں‘ اور ’جانے کہاں گئے وہ دن‘ گاتے سنا جاتا ہے۔

شریک اقتدار جماعت

اس جماعت کا محور بھی ایک ہی شخصیت ہے جس کے گرد اراکین پروانہ وار نثار ہوتے ہیں اور ان کے ہر غلط اقدام کا بھی دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ صاحب بھی اپنی ذات میں انجمن بلکہ پارٹی ہیں۔ ڈیل ڈول سے بھی ایسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی حیثیت سالن میں نمک جیسی سمجھ لیں کہ ان کے بغیر حکومت کا مزہ نہیں یعنی کہ حکومت چلتی نہیں۔ چنانچہ ہر حکومت میں لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔

سگار جماعت

یہ اک رکنی پارٹی ہیں۔ لہذٰا جماعت کے صدر، نائب صدر، سیکرٹری جنرل اور عام رکن بھی یہ خود ہی ہیں۔ ٹاک شو کی جان ہیں۔ بولتے بہت خوب ہیں۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ اکیلے ہی دوسروں کی پارٹی کی لٹیا ڈبو دیتے ہیں۔ ایک پارٹی کے ساتھ انھوں نے دھرنے میں شرکت کی۔  جب معاملہ استعفٰی دینے کا آیا تو اس پارٹی کے تمام اراکین نے استعفٰے دے دیے مگر یہ اس معاملے میں انکاری نکلے۔

ان کے علاوہ بھی کچھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں مگر وہ تین میں نہ تیرہ میں۔ تمام جماعتیں اپنی ہیئت اور منشور کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ جس نقطے پر یہ متفق ہیں وہ ہیں عوام۔ یعنی کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے عوام کا بھلا ہوجائے اور ان کی زندگی قدرے سہل ہو۔ عوام کو ان کے گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دے دی جائے تاکہ آخرت میں جنت ہی ان کا ٹھکانہ ہو۔ ایک اور قدر مشترک یہ بھی جان لیجیے کہ  اگرچہ تمام جماعتیں جمہوری ہیں مگر آپ خواہ کتنے ہی محنتی اور قابل کیوں نہ ہو، آپ ان جماعتوں کے سربراہ نہیں بن سکتے جب تک کہ آپ کے پاس ان کے سربراہوں کے قریبی عزیز ہونے کی اہلیت (کوالی فیکیشن) نہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔