دہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے

ایڈیٹوریل  جمعرات 26 فروری 2015
پاکستان کو بچانے کے لیے ہر پارٹی ،ہر صوبے اور ہر شخص کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔تب ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے، فوٹو : فائل

پاکستان کو بچانے کے لیے ہر پارٹی ،ہر صوبے اور ہر شخص کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔تب ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے، فوٹو : فائل

بلاشبہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانا ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بھی دہشت گردی کے خاتمے پر حکومت اور فوج کے موقف کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

چند ایک دینی سیاسی جماعتوں کو فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات ہیں تاہم نیشنل ایکشن پلان پر وہ بھی متفق ہیں۔سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم ایک نقطے پر متفق ہے کہ وطن عزیز سے دہشت گردی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رعایت یا نرمی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس وقت پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے اور یہ آپریشن خاصی حد تک کامیاب رہا ہے۔ دہشت گردوں کو سزائیں بھی سزائی جا رہی ہیں ۔یہ اچھی پیش رفت کی علامتیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر بہت ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہروں اور دیہات میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے۔ اس سلسلے میں نیشنل ایکشن پلان پر پوری نیک نیتی اور صدق دل سے عمل ہونا چاہیے۔

دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی کئی جہتیں ہیں۔ اس کی ایک جہت تو وہ ہے جسے ختم کرنے کے لیے پاک فوج شمالی وزیرستان میں مصروف کار ہے۔ پاک فوج اس لڑائی میں کامیاب ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیے گئے ہیں‘وہ مفرور ہو کر افغانستان چلے گئے ہیں یا وہ ملک کے دیگر حصوں میں چھپے ہوئے ہیں۔

اس لڑائی کی دوسری جہت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے متعلق ہے۔ سول ایجنسیاں جس قدر متحرک اور باعلم ہوں گی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اتنا ہی زیادہ کامیاب ہو گا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد سے دہشت گرد کئی بڑی کارروائیاں کرچکے ہیں۔ آیندہ بھی وہ کہیں نہ کہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ انھیں ہلاکت خیز واردات کرنے سے پہلے کیفر کردار تک پہنچانا سول اداروں کا فرض ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تیسری جہت ان گروہوں کا خاتمہ ہے جو دہشت گردوں کے لیے شہروں اور دیہات میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انھیں دہشت گردوں کے ہینڈلر اور انھیں پناہ دینے والے کہا جا سکتا ہے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں وہ نظریاتی آڑ لے کر انتہا پسندی کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان عناصر کی سرکوبی کی ذمے داری سول حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ فوج اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی۔

اس لڑائی کی ایک جہت اس ملک میں موجود افغان مہاجرین بھی ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب افغانستان میں سوویت افواج داخل ہوئی اور وہاں مجاہدین کی کارروائیوں کا آغاز ہوا تو افغانستان سے پاکستان کی جانب ہجرت ہوئی لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے مسلسل پاکستان میں آمد جاری ہے۔

لاکھوں افغان مہاجرین ایسے ہیں جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے لیکن ایسے افغان مہاجروں کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے جو پاکستان میں جاری بدعنوانی کا فائدہ اٹھا کر یہاں کا شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں۔ یہ کام سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں ہوا۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ‘عمران خان اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں خیبر پختونخوا کے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ وہاں سسٹم کو بہت بہتر کر دیا گیا ہے۔

انھیں چاہیے کہ وہ افغان مہاجرین کے نام سے جو جعل سازی ہو رہی ہے اس پرقابو پانے کے لیے اقدامات کریں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی ‘عسکری قیادت اور قوم نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں ‘ان کے حمایتیوں اور سہولت کاروں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ صف آراء ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھجوائیں گے۔ دینی مدارس میں زیرتعلیم ایسے 400 طلباء جن کے ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے انھیں بھی ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھجوانوں کے لیے دہشت گردی کے 43 مقدمات وفاقی حکومت کو ارسال کر دیے گئے ہیں۔ جن میں سے 10 فائنل ہو چکے ہیں۔ یہ سب باتیں خوش کن ہیں۔دہشت گردی کا خاتمہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ملک کی سیاسی قیادت اس معاملے میں نظریاتی حوالے سے بھی کلیئر ہو۔مذہبی ‘نسلی اور لسانی تعصب کو بالائے طاق رکھ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم تمام افغانوں چاہے وہ قانونی مہاجر ہوں یا غیر قانونی‘ انھیں افغانستان واپس بھجوایا جائے۔ اس معاملے میں پنجاب حکومت کو کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا کی حکومت کو بھی اس معاملے میں سخت پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔خیبرپختونخوا دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کو قبائلی علاقوں سے آنے جانے والے راستوں کی سخت ناکہ بندی کرنی چاہیے۔ خیبرپختونخوا کا المیہ یہ ہے کہ اس کے تقریباً ہر شہر کے ساتھ قبائلی ایجنسی شروع ہو جاتی ہے۔

قبائلی باشندے بلا روک ٹوک سیٹلڈ ایریا میں آتے جاتے ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا کے سیٹلڈ ایریا میں امن رکھنا ہے تو قبائلی علاقوں سے آنے والوں کی سخت جانچ پڑتال کرنا ہو گی۔ اس معاملے میں فاٹا سیکریٹریٹ کو بھی اپناکردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ قبائلی علاقوں میں انتظام و انصرام اس کی ذمے داری ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے وفاقی حکومت کو افغانستان کی حکومت اور اقوام متحدہ سے بھی بات کرنی چاہیے۔ افغانستان میں اب حالات بہتر ہیں ‘وہاں معاشی سرگرمیاں جاری ہیں ۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کے مزید قیام کا جواز ختم ہو چکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی لابی موجود ہے جو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے آنے والے فنڈز پر کنٹرول رکھتی ہے۔وہ بھی افغان مہاجرین کی واپسی میں ایک رکاوٹ ہے۔پاکستان کو بچانے کے لیے ہر پارٹی ،ہر صوبے اور ہر شخص کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔تب ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔