گلگت بلتستان، گوادر اور پاک چین تعلقات

حارث کیانی  ہفتہ 25 اپريل 2015
 معاشی راہداری اور گوارد بندرگاہ کی تعمیر ایک گیم چینجر ہے جو نہ صر ف ہمارے ملک کے عوام کی بلکہ اس تمام خطہ کی تقدیر بدل دے گا۔

معاشی راہداری اور گوارد بندرگاہ کی تعمیر ایک گیم چینجر ہے جو نہ صر ف ہمارے ملک کے عوام کی بلکہ اس تمام خطہ کی تقدیر بدل دے گا۔

ہم چین کے تعاون سے پاکستان کے دو انتہائی پسماندہ علاقوں گلگت بلتستان اور گوادر کو ایک معاشی راہداری کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے جا رہے ہیں۔

اس معاشی راہداری کے اختتام پر گوادر میں قائم بندرگاہ کی استعداد کو مزید بڑھا کر عالمی معیار کی بندرگار میں تبدیل کردیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ہمالیہ کے پہاڑوں کے پانی کا اور بحیرہ عرب کی ریت کا سنگم ہوجائے گا۔ ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ اس معاشی راہداری اور گوارد بندرگاہ کی تعمیر ایک گیم چینجر ہے جو نہ صر ف ہمارے ملک کے عوام کی بلکہ اس تمام خطہ کی تقدیر بدل دے گا۔

دوسری جانب گوادر اور گلگت کے مقیم اللہ سے دعا گو ہیں کہ ان کی آنکھیں اس خواب کی عملی تعبیر دیکھ سکیں اور ان کی آنے والی نسلیں اس معاشی بدحالی کا ہرگز شکار نہ ہوں جس کا سامنا انہیں نسل در نسل سے رہا ہے۔ وہ اس آس اور اُمید پر بیٹھے ہیں کہ ان کے بچے بھی ان کی طرح محرومی اور غربت میں زندگی بسر نہیں کریں گے بلکہ ان کو بھی ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کی طرح وہ تمام بنیادی سہولتیں میسر ہوںگی جن کی فراہمی کا زمہ دار ریاست کو قرار دیا جاتا ہے۔

گلگت اور گوادر کے مقیم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے بچے کم سنی میں رزق کی تلاش میں نکلنے کے بجائے صبح سویرے صاف ستھرے کپڑے پہن کر اسکول جا سکیں اور ان کے لئے صاف پینے کا پانی ایک سراب نہیں بلکہ حقیقت ہو۔ اگر وہ کبھی بیمار پڑ جائیں تو حکومت کی طرف سے مہیا کی گئی طبی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ گوادر کے غریب لیکن خودار لوگ گزشتہ 20 سالوں سے حکومتی دعووں پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی تقدیر آج بدلی یا کل۔ اِس اُمید و مایوسی کے پیرائے میں ان کنہ مشق لوگوں نے نصف صدی سے زائد کا عرصہ انتظار میں گزار دیا۔

اس عرصے کے دوران کچھ علیحدگی پسندوں اور متشدد راستہ اختیار کرنے والے گروہوں نے گوادر اور گلگت کی مقامی آبادی کو ورغلانے کی کوشش کی کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کئے جانے والے خوشحالی کے وعدوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ شدت پسندوں کا کہنا تھا کہ پاکستان اصل میں پنجاب ہی ہے اور پنجابی پورے ملک پر قابض ہیں۔ پنجابی آپ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور وہی لوگ سارے مفادات حاصل کریں گے اور بلاآخر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا اور تم بھی کراچی کے بلوچوں کی طرح اپنے ہی علاقے میں اقلیت بن کر رہ جاو گے۔ لیکن گوادر کے لوگوں نے ان عبث باتوں پر کوئی کان نہ دھرا اور اپنی امیدوں کو محور پاکستان کو ہی قرار دیا اس کے ساتھ ساتھ یہ مقامی لوگ پاکستان کے سیاسی دھارے کا مسلسل حصہ بننے رہے۔

اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو یہ تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں کہ 1958ء سے گوادر کے پاکستان کا حصہ بننے سے لے کر ہنوز حکومت پاکستان اس علاقے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر پائی۔ اگر ہم صرف پچھلے 20 سالوں پر نظر دوڑائیں جس میں اس علاقے کو دبئی کے مقابل شہر بنانے کے دعوے کئے گئے تھے تب بھی اس علاقے کے باسیوں کے لئے بھارتی فلم PK کے مرکزی کردار عامر خان کے بقول زیرو بٹا ۔۔۔۔ ہی رہا۔ گوادر شہر اور خصوصاً پورا ضلع عموماً پچھلے 20 سالوں سے پینے کے پانی کی کمی سے دوچار ہے۔ صرف گوادر شہر کی روز مرہ کے پانی کی ضرورت چار ملین گیلن ہے جبکہ انہیں صرف 2 ملین گیلن ہر چار روز میں مہیا کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوادر کی ترقی کے لئے کوشاں ہونے کے حکومتی دعووں کے بالکل برعکس اس علاقے میں بے روزگاری کی شرح 90 فیصد ہے جو اتنی زیادہ ہے کہ ایک طرح سے جھوٹ ہی لگتی ہے اور شرح خواندگی صرف 25 فیصد ہی ہے ۔

 

تمام تر نامساعد حالات کے باوجود گوادر کے باسیوں نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا اور پاکستان کو ہی اپنی امیدوں کے محور بنائے رکھا لیکن اب ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس علاقے کی ترقی سے مستفید ہونے والے یہاں کے مقامی لوگ ہوں۔ ہمیں یہ عزم بھی کرنا ہوگا کہ ہماری مرکزی حکومت ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے اوراس ترقی کے سفر میں سب کو ساتھ لے کر چلے۔ ہمارے وہ شہری جو ماضی کی کوتاہیوں کی وجہ سے احساس محرومی کا شکار ہوگئے ہیں انہیں دیگر شہریوں کے ہم پلہ بنانے اور انہیں بنیادی سہولیات سے مستفید کرنے کے حوالے سے بھی مناسب اقدامات کرنے ہوںگے تا کہ وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ اگر صورتحال موجودہ ڈگر پر چلتی رہی اور ہم ’’میں نہ مانوں‘‘ والی ضد پر قائم رہے تو صورتحال ہمارے کنٹرول سے باہر بھی ہوسکتی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک کسی مخصوص طبقے کی خواہشات پر نہیں چل سکتا۔ ریاست کی تعمیر و ترقی اُس وقت ہی ممکن ہوتی ہے جب ہر شہری کو برابر کے حقوق اور مراعات حاصل ہوں اور ان حقوق کی فراہمی میں بے اعتدالیوں کا عنصرشامل نہ ہو۔ عوام کو حکومتی اداروں اور اہلکاروں پر اعتماد ہو کہ یہ ادارے اور اہلکار ان کے فلاح و بہبود کے ضامن ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک خوش آئند اقدام ہے کہ گلگت بلستان اورگوادر میں خوشحالی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تاہم اس موقع ہر مقامی افراد کو زیادہ سے زیادہ اعتماد اور ضمانت فراہم کی جائے تاکہ وہ اس اہم قومی منصوبے کی تعمیر میں حکومت کے دست و بازو بن سکیں۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاک چین تعلقات سے گلگت اور گوادر کے حالات میں بہتری آسکتی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔