گدھے، گدھے حلال کریں، عوام کس سے سوال کریں؟

اویس حفیظ  بدھ 29 اپريل 2015
عالمی ادارۂ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ گدھے پائے جاتے ہیں.فوٹو:فائل

عالمی ادارۂ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ گدھے پائے جاتے ہیں.فوٹو:فائل

عالمی ادارۂ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ گدھے پائے جاتے ہیں، واضح رہے کہ عددی لحاظ سے ان میں صرف وہ گدھے شمار کیے گئے ہیں جنہیں پورا عالم گدھا تصور کرتا ہے، عوام کی خدمت کا دعویٰ کر کے اسمبلیوں میں اپنی جگہ بنانے والے گدھے اور ان گدھوں کو منتخب کرنے والے گدھے اس شمار میں نہیں ہیں۔ نہ ہی ان میں ضرورت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانے والے گدھے کے بچے شامل ہیں اور نہ وقت پڑنے پر باپ بننے والے گدھے۔

چونکہ یہ تحقیق ایک مستند عالمی ادارے کی ہے لہٰذا اس میں گدھے اور گھوڑے میں واضح فرق بھی روا رکھا گیا ہے۔ یہاں پر گدھے سے مراد چار ٹانگوں اور دو بڑے بڑے کانوں والا وہی جانور ہے جس کے سر پر قطعاً کوئی سینگ نہیں ہوتے۔اس تحقیق نے پاکستان کو ضرور گدھے پر سوار کروا دیا ہے۔

ویسے ذاتی رائے ہے، اگر اس گدھا ریس میں پاکستان میں موجود تمام گدھوں کو شامل کر لیا جاتا تو گولڈ میڈل ’’کنفرم‘‘ اپنا تھا۔ ویسے تو لیاری میں بھی ایک گدھوں کی ریس ہوتی ہے مگر ہم یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ وہاں پر جیتنے والوں کو گولڈ میڈل دیا جاتا ہے یا گھاس پھوس۔ خیر گدھا تو گدھا ہے، بڑا تابع فرمان جانور ہے یہ اورتو اور اس کی مادہ بھی بہت وفادار واقع ہوئی ہے۔ اسی لئے توکہا جاتا ہے کہ ’’جتھوں دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی‘‘۔

ہمارے ہاں گدھے کوبے وقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ہر عقل و دانش سے عاری شخص کو گدھے کا خطاب دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہم نے کبھی اس جانور سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اسے اپنے نام سے منسوب دئیے جانے والے اس خطاب پر کوئی اعتراض تو نہیں۔ امید ہے کہ اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا وگرنہ وہ اپنے حق کیلئے آواز ضرور بلند کرتا۔ ویسے کتنا عجیب لگتا اور کبھی گدھے لاہور کی مال روڈ یا کراچی کی شاہراۂ فیصل پر دھرنا دے کر بیٹھے ہوتے کہ ہمارا استحصال بند کرو، ہمارا نام رجسٹرڈ کرو۔ خیر اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گدھا بہت محنتی جانور ہے اور کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہم نے ہمیشہ سست و کاہل کو بھی گدھا ہی کہا ہے اور ہمیشہ منفی معنوں میں کہا ہے۔ حالانکہ اسے یہ بات اپنی تعریف کے طور پر لینی چاہئے۔

ایک گدھا کرشن چندر کے ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ والا تھا جسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور ایسے ہی ایک گدھے کی بالکل مخالف صنف ہماری قوم میں بھی پائی جاتی ہے جو کتاب کے نام سے بھی دور بھاگتی ہے۔ اب اگر اس گدھا کہانی کا تصور ذہن میں راسخ ہوگیا ہو تو اصل داستان بھی آپ لوگوں کے گوش گزار ہوجائے کہ آپ کے کھوئے ہوئے ہوش ٹھکانے پر آجائیں۔

کہتے ہیں دوست ملک چین اور کوریا میں گدھے کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے، ہم نے چونکہ کبھی وہاں ’’ویکیشنز‘‘ نہیں گزاریں، اس وجہ سے تصدیق و تردید سے محروم ہیں البتہ یہ ضرور وثوق سے کہہ سکتے ہیں اگر آپ فطری طور پر ’’بٹ‘‘ یعنی گوشت کھانے کے ریسا واقع ہوئے ہیں تو آپ نے ضرور بالضرور گدھے کا گوشت کھایا ہوگا۔ ارے بھئی اس میں غصہ کرنے والی کوئی بات نہیں ’’یہاں سب بکتا ہے‘‘۔

اگرچہ چشم انساں کیلئے لہو رونے کیلئے اس سے بڑھ کر اورکوئی مقام نہیں مگر حقیقت بھی یہی ہے کہ آج ایک اسلامی ملک میں اگر کوئی چیز اچھی خاصی تحقیق اور تگ و دو کے بعد حاصل کرنا پڑتی ہے تو وہ حلال گوشت ہے۔ مملکتِ خداداد میں حلال گوشت ہی ایسا نا پید ہوا ہے کہ ایک مسلمان بھائی ہی اپنے مسلمان بھائی کو حرام و مردار کھلا رہا ہے۔

یوں تو اس طرح کی سب خبروں پر یقین بھی نہیں ہوتا کہ بعض خبروں میں تو عقلی دلائل کی ہی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ اب جب کتے کا گوشت بیچنے کی خبر سنی تو میں ششدر رہ گیا اور ابھی تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر بالفرض کتے کا گوشت بازار میں بیچا جا رہا ہے تو کس اندار میں، یعنی نہ تو یہ بیف کے طور پر بیچا جا سکتا ہے اور نہ ہی مٹن کے طور پر کیونکہ بکرا سائز میں کتے سے خاصا بڑا ہوتا ہے پھر کتے کے ذبح کرنے کی کیا تُک ہے؟

ہاں البتہ گدھے کا گوشت مٹن یا بیف کے طور پر ضرور بیچا جا رہا ہے اور یہ کھلی آنکھوں کی حقیقت ہے۔ آئے دن یہ خبر سننے کو ملتی ہے، گدھوں کی لاشیں، کھالیں، ذبح کرنے کے مناظر، گدھے کا گوشت سب کچھ تو میڈیا دکھا چکا ہے، ایک نہیں کئی گروہ اس کریہہ کام میں ملوث ہیں۔ یہ لوگ اپنی دکانوں یا کسی ایسے جگہ پر غیر قانونی طور پر گدھوں کو رات کے وقت ذبح کرکے ان کی کھال اتارتے ہیں اوربعد ازاں یہ گوشت اپنی دکانوں پر فروخت کردیتے ہیں یا مختلف مارکیٹوں اور دکانداروں کو سپلائی کردیتے ہیں۔

ٹی وی کے ایک کرائم شو میں دکھایا گیا کہ ایک شخص گدھا ذبح کرتے گرفتار ہوا تو اس نے یہ عذر تراشا کہ گدھا نہ صرف حلال ہے بلکہ اس کے پاس اس حوالے سے ’’فتویٰ‘‘ بھی موجود ہے۔ اگرچہ یہ ایک فقہی و علمی موضوع ہے مگر ہمارا علم تو یہاں تک محدود ہے کہ فتح خیبر سے پہلے تک گدھا حلال تھا، البتہ فتح خیبر کے موقع پر اسے ممنوع قرار دیا گیا۔ ہاں ایک طبقہ فکر ایسا ضرور موجود ہے جو گدھے اور گھوڑے کا ذبیحہ جائز مانتا ہے مگر وہ بھی صرف جنگلی گدھے (جسے نیل گائے کہا جاتا ہے) کو ہی حلال سمجھتا ہے عام گھریلو گدھے کو نہیں اور ویسے بھی اگر کسی نے محض اس بنیاد پر ہی گدھے کا گوشت بیچنا ہے تو پھر صاف لفظوں میں یہ لکھ کر بیچے کہ ’’یہاں پر گدھے کا گوشت دستیاب ہے‘‘۔

مگر یہ لوگ تو عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ البتہ عوام میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو خود دھوکہ کھاتے ہیں کہ جب پورے ملک میں مٹن 700 سے 800 روپے فی کلو میں مل رہا ہے تو 400 یا 500 روپے میں فی کلومٹن کا گوشت بیچنے والا آپ کو کیا کھلا رہا ہوگا، یہ کسی سے پوچھنے والے بات نہیں ہے۔ تاہم زیادہ تر یہ گوشت دھوکہ دہی سے ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو جب حراست میں لیا گیا تو تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ گدھوں کو ذبح کرنے کے بعد ان کے گوشت کو ہلدی لگا کر گائے کے گوشت کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے اور یہ گوشت شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں کو بھی سپلائی ہوتا ہے۔ بعض لوگ گوشت خریدتے وقت گوشت پر حکومتی مہر دیکھ کر اطمینان کا سانس لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھا دی مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ملکِ خداداد ہے، یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اب تک جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان سے ایسی جعلی تصدیقی مہریں بھی برآمد ہوئی ہیں جو حرام و مردار گوشت پر لگا کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ’’یہ گوشت حلال ہے اور مضر صحت نہیں‘‘۔

بعض اطلاعات کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات میں مہیا کئے جانے والے گوشت میں بھی گدھے کے گوشت کی ملاوٹ عام ہے اور اکثر ایک من مٹن میں دس کلو کے قریب گدھے کا گوشت شامل کر دیا جاتا ہے۔ ایک باورچی کا یہ انکشاف بھی دلچسپی سے کم نہیں کہ اس نے کہا جب وہ گدھے کا گوشت پکاتا ہے تو خشک دھنیے، اناردانے، الائچی، لونگ اور لہسن کا تڑکا لگا دیتا ہے جس سے ’’لحمِ خر‘‘ کی مخصوص مہک غائب ہوجاتی ہے اور وہ بکرے کے گوشت سے بھی بہتر ذائقہ دینے لگتا ہے۔ ان حضرت نے تو یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ اب تک کئی شادیوں میں گدھے کے گوشت کا قورمہ بھگتا چکے ہیں۔

گدھے کے گوشت میں ایک طرف کراہت کا پہلو عیاں ہے تو دوسری طرف یہ طبی لحاظ سے بھی نہایت مضر ہے۔ ایک سابق ای ڈی او ہیلتھ کا کہنا ہے کہ گدھے کا گوشت ہیپاٹائٹس اے اور ای، بلڈ کینسر، جوڑوں کا درد اور پٹھوں کے کھنچائو کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جلدی امراض کا موجب بھی بنتا ہے اور انتڑیوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے استعمال سے تشنج کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔ اس گوشت کے اثرات میں سب سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سر کا بھاری ہونا، آنکھوں میں درد ہونا، ہاتھوں، پاوں، گھٹنوں، ٹخنوں میں درد اور ٹیسیں اٹھنا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کاندھوں میں ایسی درد ہوتی ہے کہ بازو سر یا کندھے سے اوپر نہیں جا سکتے۔

ایک پولیس چھاپے کے دوران ایک شخص گدھا ذبح کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو اس نے یہ عذر پیش کیا کہ یہ گدھا بیماری کے باعث قریب المرگ ہے اس وجہ سے اسے ذبح کیا جارہا ہے مگر واقعی یہ حقیقت ہوتی تو ہر دوسرے دن ہمیں اس قسم کی خبر سننے کو نہ ملتی ۔پچھلے چند ماہ سے ایسی خبریں مسلسل میڈیا میں ’’اِن‘‘ ہیں اور بعض خبریں تو ایسی اِن ہوئیں کہ لوگوں کو گوشت کے نام سے ہی نفرت ہو گئی۔

گزشتہ سال 3 دسمبر کو خوشاب میں راولپنڈی روڈ پر عین اُس وقت جب گدھے کو ذبح کیا جارہا تھا، پولیس پہنچ گئی۔ پولیس کو دیکھتے ہی گھناؤنی حرکت کرنیوالے قصائی رفوچکر ہوگئے اور کوئی ملزم گرفتار نہیں ہو سکا۔ 4 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت کے تھانہ گولڑہ کی پولیس نے خفیہ اطلاع پر بھیرہ سے آنے والی ایک گاڑی ناکے پر روکی تو اس سے پونے چار من حرام و مردار گوشت برآمد ہوا۔ 29 دسمبر کو لاہور پولیس نے اہل علاقہ کی شکایت پر گجر پورہ کے علاقے کرول گھاٹی میں چھاپہ مارا جہاں 2 افراد گدھے ذبح کرنے کے بعدان کی کھال اتارتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ دسمبر میں ہی پولیس نے پنجاب میں گوجرہ کی کرسچن کالونی میں بھی کارروائی کرکے گدھوں کا گوشت فروخت کرنے والے ایک گروہ کے تین ارکان کو گرفتار کر لیا تھا جن کے قبضے سے دس من سے زائد گوشت برآمد ہوا تھا۔ 28 جنوری کو پنجاب میں دیپالپور کے علاقے میں پولیس نے تین خانہ بدوشوں کو اپنے خیموں میں گدھوں کو ذبح کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے گدھے کا بہت سا گوشت قبضے میں لے لیا تھا۔ 10 فروری کو بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقوں صحبت پور، گوٹھ دودا خان، گوٹھ، میاں داد اور دیگر قریبی علاقوں میں مختلف چھاپوں کے دوران گدھے کا گوشت بیچنے کے الزام میں پندرہ قصابوں کو گرفتار کیا۔ کئی ٹن گوشت اور سریاں بھی قبضے میں لے کر لیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر کے مطابق صرف پنجاب میں رواں مالی سال 2لاکھ 40ہزار 447کلو گرام غیر معیاری (حرام و مردار)گوشت تلف کیا گیا۔1622مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2033 افراد کے خلاف چالان پیش کیا گیا اور 1937 افراد کو حوالۂ پولیس کیا گیا۔ ان افراد کی 95 گاڑیاں بند کی گئیں اور مجموعی طور پر 12 لاکھ 93 ہزار 450 روپے جرمانہ کیا گیا۔ یہ چند چیدہ چیدہ واقعات ہیں جو ریاستی کارروائی کے نتیجے میں عوام کے علم میں آئے، یہ کل واقعات کا کتنے فیصد ہیں، خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ البتہ ان سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں پر صرف گدھے کا ہی گوشت کھایا جاتا ہے.

اب سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں حکومت کیا کرے؟ پہلے تو تذکرہ حکومت پنجاب کا، جو یقیناً لائق تحسین ہے۔ جس کے مطابق اس دھندے میں ملوث لوگوں کے خلاف جرمانے کی رقم 500 سے بڑھا کر 10 لاکھ تک کرنے اور انہیں 5 سال تک سزا دینے کی تجویز صوبائی اسمبلی میں بجھوا دی ہے اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، پنجاب لائیوسٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹس کی مدد سے’’نو دو گیارہ‘‘ یعنی 9211 کے نمبر سے ایک ہیلپ لائن سروس شروع کر رکھی ہے جس کیلئے 09211-0800 ایک ٹیلی فونک ہیلپ لائن ہے جہاں پر ایسے مکروہ دھندے میں ملوث لوگوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ 9211 پر گوشت کا ٹیگ نمبر SMS کرکے گوشت کی تصدیق بھی کی جاسکتی ہے۔

9211 کیلئے ایک الگ ڈیٹا بیس تشکیل دیا جاچکا ہے۔ اس ڈیٹا بیس میں اندراج کاعمل جانور کے مذبح خانے میں لاتے ہی شروع ہوجاتا ہے، جانوروں کا ڈاکٹر جانور کا معائنہ کرنے کے بعد 9211 کے پورٹل میں جانور کی تفصیلات درج کرتا ہے اور جانور کیلئے ایک بار کوڈ مختص کر دیتا ہے جس کے بعد جانور کو ذبح ہونے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے، ذبح کے بعد جانور کو قصائی کے حوالے کیا جاتا ہے تو گوشت پر بار کوڈ لگا دیا جاتا ہے، قصائی جب جانور کو لے کر شہر میں داخل ہونے لگتا ہے تو تب بھی ایک فوڈ انسپکٹر بار کوڈ اور 9211 پر ایس ایم ایس کی مدد سے جانور کے صحت مند ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ ایس ایم ایس میں تسلی بخش جواب موصول ہونے پر جانور کو شہر میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ جانور پر لگایا گیا بارکوڈ صرف 12 گھٹے تک کارآمد ہوتا ہے جس کے بعد یہ ایکسپائر ہوجاتا ہے اور اسے دوبارہ کسی دوسرے جانور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہر جانور کو 178 ملین بارکوڈز میں سے ایک منفرد بارکوڈ دیا جاتا ہے اورعوام صرف پانچ سیکنڈ میں گوشت کے معیاری یا غیر معیاری ہونے کا پتہ چلا سکتے ہیں مگر یہاں سوال یہ ہے کہ جانور کے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دینے والا فوڈ انسپکٹر اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھاتا ہے پھر بالفرض ایک قصاب اگر حکومتی سلاٹر ہاوس سے پانچ جانور لیتا ہے تو اسے پانچ ٹیگ مل جائیں گے صبح پہلے وقت وہ اصل گوشت بیچ دیتا ہے اور بعد میں وہ ٹیگ گدھے کے گوشت کو لگا کر فروخت کرنے لگتا ہے تو عوام کو کیسے علم ہوگا اور اس معاملے میں حکومت کیا کرسکتی ہے؟

پھر سب سے اہم بات یہ کہ SMS کے ذریعے گوشت کی تصدیق کی سہولت ابھی صرف پنجاب واسیوں بالخصوص لاہور کے شہریوں کوہی میسر ہے اور اسے مرحلہ وار پنجاب کے باقی اضلاع تک بڑھایا جا رہا ہے۔ کیا باقی صوبائی حکومتیں بھی اس ضمن میں کوئی اقدام اٹھانا پسند کریں گی؟ یا عوام کو اسی طرح لحمِ خر کیلئے ہی چھوڑ دیں گی؟

ہونا تو یہ چاہئے کہ اس طرح کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر حکومت یہ ذمہ داری خود اٹھائے اور شہر میں گوشت کی مختص دکانوں پراپنی سرپرستی میں گوشت فراہم کرے پھر باقی کا معاملہ عوام کی صوابدید پر چھوڑ دے کہ جس کا دل کرے وہاں سے گوشت لے، جس کا دل کرے، محلے کے قصائی سے لے وہاں سے حلال ملے، حرام ملے، اس کی قسمت۔ پھر جو لوگ بھی حرام ومردار گوشت کی خرید و فروخت میں ملوث پائے جائیں انہوں جیل بھیجنے سے قبل گدھوں پر بٹھا کر شہر کا درشن ضرور کروایا جائے کہ انہیں علم ہوجائے کہ ’’گدھے کام کا گدھا ہی انجام ہوتا ہے‘‘۔

باقی جہاں تک عوام کا معاملہ تو آج نہیں تو کل وہ گدھے کا گوشت کھا کھا کر اس مقام پر پہنچ جائیں گے کہ

خر شناسی تھی بے مثال ان کی
’’شیخ جی‘‘ نے کیا کمال کیا
بوٹیاں ساری کھا کے یہ پوچھا
کس گدھے نے گدھا حلال کیا

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔