2015 الیکشن کا سال؟

 منگل 5 مئ 2015
دھاندلی تو ہوئی چاہے اس کو  بے ضابطگی کہیں،نااہلی کہیں یا کوئی اور نام دیں۔فوٹو: فوٹو: فائل

دھاندلی تو ہوئی چاہے اس کو بے ضابطگی کہیں،نااہلی کہیں یا کوئی اور نام دیں۔فوٹو: فوٹو: فائل

تحریک انصاف کے کارکن این اے 125 اور  پی پی 155 میں مبینہ دھاندلی کا فیصلہ آنے پر ایسے خوشی منارہے ہیں جیسے لاکھوں منتوں کے بعد کسی کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی ہو۔

ہاں بھائی! خان صاحب کی اگست 2014ء میں شروع ہونے والی تحریک کے درخت پر پہلا پھل ہی تو لگا ہے، پہلا نتیجہ ہی تو سامنے آیا ہے، خوشیاں تو بنتی ہیں، دوسری جانب ن لیگی حیران تو ہیں لیکن احساس شرمندگی دکھائی نہیں دیتا۔ فرماتے ہیں کہ بے ضابطگیاں ثابت ہوئیں ہیں دھاندلی تو نہیں ہوئی۔ یہ سب ریٹرننگ افسروں کی نااہلی ہے ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں۔

بات میں وزن ضرور ہے پر ٹی وی پر دیے گئے آپ کے بیانات کا کیا کریں جو آپ نے گلے پھاڑ پھاڑ کر دیے تھے کہ دھاندلی ثابت ہوئی تو ہم یہ کردیں گے، وہ کردیں گے۔ خواجہ صاحب! ’’یہ‘‘ اور ’’وہ‘‘ کا وقت آگیا ہے آپ کردیں تو شاید ن لیگ کی کچھ عزت بچ جائے۔

دھاندلی تو ہوئی ہے چاہے وہ جس انداز میں بھی ہو۔ اس کو جو عنوان بھی دے دیں، اسے بے ضابطگی کہیں، نااہلی کہیں یا کوئی اور نام دیں، اس کا فیصلہ جلد جوڈیشل کمیشن کی صورت میں آجائے گا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی، کراچی میں ایم کیو ایم، خیبر میں خود تحریک انصاف اور پنجاب میں ن لیگ کے ملوث ہونے کا نام لیا جارہا ہے۔ اِس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ 2013 کے عام انتخابات اِن پارٹیوں میں سے کسی نے نہیں کروائے، وفاقی اور صوبائی سطح پر تو نگران حکومتیں تھیں الیکشن کمیشن بھی آزاد تھا اور اس کا سربراہ بھی ایک بے داغ شخص تھا جس پر سب جماعتوں کا اعتماد بھی تھا۔ تو پھر یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ قصور وار کون ہے؟

ہاں الیکشن کمیشن کا عملہ دھاندلی کروانے میں ملوث تھا اس کی مثال میں آپ کو اپنے حلقے این اے 156، پی پی 212 اور 213 میں ریٹرننگ افسروں اور دیگر عملہ کے کارناموں سے دیتا ہوں۔ ان حلقوں میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں امیدوار ن لیگی تھے، ایک کو مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دیا اور دوسرا امیدوار آزاد تھا جو جیت کر ن لیگی بن گیا۔ پی ٹی آئی کا اُمیدوار تو تیسرے نمبر پر رہا۔ ہمارے پولنگ اسٹیشن پر ریٹرنگ افسر آزاد امیدوار کے ایجنٹوں کے ساتھ ملا ہوا تھا، جب دیکھا کہ آزاد امیدوار کے ووٹر ووٹ ڈال چکے ہیں تو ووٹنگ روک دی، گڑ بڑ کروانے کی بھی کوشش کی، یہ تو بھلا ہو پاک آرمی اور پولیس کا کہ وہ ایک فون پر وہاں پہنچے اور اضافی وقت دلا کر ووٹ کاسٹ کروائے، اِس طرح سانحہ بھی نہ ہوا اور ووٹنگ بھی ہوگئی۔

اسی طرح متعدد واقعات دوسرے پولنگ سٹیشنوں پر بھی ہوئے، رات دو بجے تک ن لیگ کا ٹکٹ یافتہ امیدوار جیت چکا تھا لیکن صبح پتا چلا کہ جو رات میں جیت رہا تھا وہ اب ہار چکا ہے۔ ان حلقوں کا نتیجہ عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ پاکستان شدید قسم کی ’’تبدیلی‘‘ کی لپیٹ میں ہے، کہیں مہاجر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، کہیں ’’نیا پاکستان‘‘، تو کہیں ’’انقلاب‘‘ کی بولی لگ رہی ہوتی ہے۔

اندرون سندھ میں ’’روٹی،کپڑا اور مکان‘‘ کی دکان سجی ہے، پارٹی سربراہ پر طرح طرح کے الزامات سے تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں، یقین دلانے کیلئے بزرگ ہستیوں، مقدس کتاب کی قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں، پنجاب میں ترقی کے نام پر’’لوہا‘‘ بک رہا ہوتا ہے، کہیں کہیں سے ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی بھی آواز بھی آجاتی ہے، بلوچستان میں حالات اِس قدر خراب ہورہے ہیں کہ اب شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو مارا جارہا ہے۔

دہشتگرد ہیں تو وہ اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے موقع کی تاک میں رہتے ہیں، سرحدوں پر توپوں کی گھن گرج، گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سنائی دیتی ہے، مشرق میں بھارت بھوکے بھیڑیے کی طرح حملہ آور ہے، جنوب مغرب میں افغانستان انتقام کی آگ میں سلگ رہا ہے، مغرب میں ایران پر جنگی جنون سوار ہوچکا ہے، صرف شمال مشرق میں چین کی سرحد محفوظ رہ گئی، پتہ نہیں یہ بھی کب تک محفوظ ہے۔

لگتا ہے حالات کسی اور رُخ کی جانب گامزن ہیں۔ کہیں عمران خان کے 2015 میں عام انتخابات کی بات سچ ثابت تو نہیں ہونے جارہی؟ اگر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ دھاندلی اور بے ضابطگی کو ثابت کردیتا ہے تو پھر الیکشن پکے ہیں کیونکہ پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا۔ دو حلقوں کا جو فیصلہ آیا ہے یہ تو ٹیسٹ کیس ہے، الیکشن ٹریبونل کے اس فیصلہ میں بھی حکمت کا مظاہرہ کیا گیا ہے، بے ضابطگی کو ظاہر کیا گیا ہے دھاندلی کو نہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کی فتح کا اعلان کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا، بات دوبارہ الیکشن کی گئی ہے، اگر دوبارہ الیکشن ہوتا ہے تو کنٹونمنٹ کے انتخابات کو دیکھتے ہوئے ن لیگ کو ہی فتح کی نوید دکھائی دیتی ہے، لیکن اِن سب کے باوجود مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی ایک بات سچ ثابت ہونے جارہی ہے کہ 2015ء میں انتخابات ضرور ہونگے۔ عام نہ ہوئے تو بلدیاتی تو ہونے ہی ناں!

کیا آپ کو بھی ایسا لگتا ہے کہ 2015 انتخاب کا سال ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔