اور جب مصری چھینکا ٹوٹے گا

وسعت اللہ خان  ہفتہ 23 مئ 2015

سولہ مئی کو محمد مرسی اور ایک سو پانچ دیگر ملزموں کو جنوری دو ہزار گیارہ میں صدر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل توڑنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اس مقدمے میں سزا پانے والا ایک مجرم وہ فلسطینی بھی ہے جو واردات کے روز اسرائیلی قید میں تھا۔اور اسی مقدمے میں ایک مجرم وہ بھی ہے جس کا دراصل دو ہزار آٹھ میں انتقال ہو چکا۔ محمد مرسی کو حماس، حزب اللہ اور ایرانی پاسداران کو اہم قومی راز فراہم کرنے کے جرم میں پچھلے ہی ماہ بیس برس قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔

جولائی دو ہزار تیرہ میں محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک اخوان المسلمین کے سربراہ ڈاکٹر محمد بدیع سمیت لگ بھگ ایک ہزار افراد کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ان میں سے کسی ملزم کو وکیل کی سہولت نہیں دی گئی۔بہت سوں کو تو عدالت کے پنجرہ کٹہرے میں لانے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا۔دوسری جانب ستانوے فیصد ووٹوں سے صدر منتخب ہونے کے دعویدار فیلڈ مارشل عبدالفتح السسی کے تین سالہ دور میں اب تک احتجاجی مظاہروں میں دو ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں لیکن افسر چھوڑ کسی معمولی سپاہی تک کو سزا نہیں مل سکی۔سابق صدر حسنی مبارک اور ان کے دو بیٹوں کی سزائے قید عدالتی نظرِ ثانی کے بعد کم کرکے تین سال کردی گئی اور وہ کسی بھی دن رہا ہوسکتے ہیں۔

آج کے مصر میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ عبدالفتح السسی کے حامی جو محب وطن کہلاتے ہیں اور دوسرے وہ جو غدار ، جاسوس اور غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ان میں دائیں بائیں بازو کی کوئی تمیز نہیں۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دو ہزار تیرہ میں بڑے بڑے مظاہرے منظم کرکے فوج کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔مثلاً مرسی کے خلاف تحریک میں آگے آگے رہنے والے چھ اپریل موومنٹ کے سربراہ احمد ماہر ، اعلا عبدالفتح اور سہین المصری سمیت سیکڑوں لبرل سیاسی و سماجی کارکن ، دانشور ، اساتذہ اور ایک سو کے لگ بھگ صحافی بھی جیل میں ہیں۔بس وہی پرائیویٹ چینلز اور اخبارات زندہ رکھے گئے ہیں جو واہ واہ کرسکیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومین رائٹس اور مصر کی آبزرویٹری فار رائٹس اینڈ فریڈم توثیق کرتے ہیں کہ مزاحمت کی کمر توڑنے کے لیے جیلوں، تھانوں اور چھاپوں کے دوران گھروں میں سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد مبارک دور سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ اس بابت عمر ، جنس اور رشتے کی قید بھی اٹھ چکی ہے۔

یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
بنیادی بات یہ ہے کہ مصر کی فوج افریقہ اور مشرقِ وسطی میں عددی اعتبار سے سب سے بڑی سپاہ ہے۔ انیس سو باون میں شاہ فاروق کی معزولی کے بعد سے آج تک زندگی پر فوج کا قبضہ کبھی ڈھیلا نہیں ہوا۔ محمد مرسی کے دس ماہی اقتدار کو چھوڑ کے کرنل نجیب اور جمال ناصر سے لے کے سادات ، حسنی مبارک اور فیلڈ مارشل سسی تک تریسٹھ برس میں جتنے حکمران آئے فوجی ہی آئے۔کبھی فوج یک جماعتی نظام کی چلمن میں بیٹھ گئی تو کبھی براہِ راست سامنے آ گئی۔اس دوران مصری معیشت کا لگ بھگ چالیس فیصد حصہ فوج کے کنٹرول میں چلا گیا۔ بیشتر اہم سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے کلیدی عہدوں پر آپ کو با افراط ریٹائرڈ فوجی افسر نظر آئیں گے۔فوج ملک کی سب سے بڑی لینڈ ڈویلپر ہے۔مواصلات ، تعمیرات ، سیاحتی مقامات ، اسلحہ سازی اور کیمیکل انڈسٹری سے لے کر پٹرول پمپ چلانے، پاستا اور منرل واٹر بنانے تک ہر چھوٹے بڑے اقتصادی شعبے میں فوجی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔ان منصوبوں کی آمدنی ٹیکس ،آڈٹ اور تنقید سے بالا ہے۔

انتظامی گرفت ایسی کہ ستائیسں میں سے سترہ صوبوں کے گورنر حاضر و سابق جنرل اور دو صوبوں کے گورنر اعلی ریٹائرڈ پولیس افسر اور آٹھ صوبوں کے گورنر سویلین ہیں مگر ان کے ڈپٹی گورنر فوجی ہیں۔

مصری فوج کی نظریاتی اساس قوم پرستی بتائی جاتی ہے۔ جب تک اسرائیل سے براہِ راست خطرہ تھا تب تک فوج عوامی اکثریت کی آنکھ کا تارہ تھی اور عوام ایک بڑے قومی مقصد کے لیے اپنے بنیادی حقوق کی قربانی دینے پر بھی خوشی خوشی آمادہ تھے۔تاہم انور سادات کے زمانے میں اسرائیل سے امن سمجھوتے کے بعد سے سیاسی جبر کے بارے میں اکا دکا سوالات اٹھنے لگے اور عوامی توقعات مرحلہ وار بڑھتی چلی گئیں۔مگر تب تک فوج ، نوکر شاہی ، طفیلی عدلیہ ، جی حضور سیاسی و سرمایہ اشرافیہ سمیت ایک ایسا طبقہ جڑیں پھیلا چکا تھا جو کثیر جماعتی کھلے نظام کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتا۔چنانچہ حسنی مبارک کی معزولی کے باوجود اقتدار بالادست طبقات سے عوام تک منتقل ہی نہیں ہو سکا۔درحقیقت انقلاب پیدا ہوتے ہی مر گیا یا مار دیا گیا اور مصر حسنی مبارک کی گود سے فوج نے براہِ راست اچک لیا۔

اس معاملے میں اسی برس سے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنے والی اخوان المسلمین کی عجلت بھی پارٹی کو لے ڈوبی۔اخوان کو سوچنا چاہیے تھا کہ محمد مرسی صرف اکیاون اعشاریہ چار فیصد کی اکثریت سے صدر بنے تھے۔چنانچہ انھیں عشروں میں پیوست آمرانہ نظام و روایات کو مرحلہ وار پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک وسیع ترسیاسی حمایت کے حصول کی حکمتِ عملی اپنانا چاہیے تھی۔ جیسا کہ ترکی میں ہوا۔لیکن مرسی نے بھی ’’جو جیتا وہی سکندر ‘‘ کا راستہ اپنانے کی کوشش کی۔لہذا پرانا عیار نظام بے صبری جنتا کے کندھے استعمال کرتے ہوئے صرف دس ماہ کے اندر ہی نوزائیدہ جمہوری تجربہ لپیٹنے میں کامیاب ہوگیا اور آیندہ کے لیے جمہوری قوتوں کے راستے مسدود کرنے کے لیے ریاستی طاقت کے پہلے سے زیادہ ننگے استعمال کا راستہ اپنا لیا گیا۔

رہی بات امریکا اور مغرب کی تو انھیں مشرقِ وسطی کے قیمتی وسائل اور جغرافیے کے تناظر میں تاریخی طور پر فروغِ جمہوریت سے زیادہ ایسی حکومتوں کی ضرورت رہی ہے جو ’’اسٹیٹس کو’’برقرار رکھ سکیں۔ عرب اسپرنگ کے نتیجے میں حسنی مبارک کے زوال کو مغرب نے بادلِ نخواستہ قبول تو کر لیا لیکن جیسے ہی پرانے نظام نے تبدیلی پر وار کیا تو مغرب نے بھی رسمی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا۔امریکا نے مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد سالانہ فوجی امداد ( ایک اعشاریہ تین بلین ) اور اسلحے کی ترسیل بحالیِ جمہوریت سے مشروط کر کے روک دی تھی۔

مگر یہ امداد دو ماہ پہلے خاموشی سے بحال ہوگئی۔مغرب مصر میں بطورِ خاص اس لیے بھی کنٹرولڈ جمہوریت چاہتا ہے کیونکہ مصر آبادی ، جغرافئے ، فوجی اور علاقائی اثر و نفوز کے اعتبار سے سب سے اہم عرب ملک اور اسرائیل کا کلیدی علاقائی دوست ہے۔جب کہ اخوان جیسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے حماس جیسے گروہوں کی نظریاتی حمایتی اور پولیٹیکل اسلام کی داعی ہیں۔چنانچہ ایسی تنظیموں کی سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں سے کبھی نہیں بن سکتی۔اب تک سسی حکومت کو سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور کویت سے بیس ارب ڈالر کی انعامی رقم مل چکی ہے۔اس کے عوض سسی حکومت یمن کے بحران میں دل و جان سے سعودیوں کے ساتھ ہے اور بڑے بڑے ٹھیکوں میں خلیجی کمپنیوں کو بھی اچھا خاصا حصہ مل رہا ہے۔

مثلاً سسی حکومت نے کم آمدنی والے طبقات کے لیے اگلے پانچ برس میں ایک ملین مکانات کی تعمیر کا چالیس ارب ڈالر مالیت کا ٹھیکہ ایک اماراتی کمپنی عرب ٹیک کو دے دیا ہے۔ نہرِ سویز کے پندرہ ارب ڈالر کے توسیعی منصوبہ پر مغربی اور چینی کمپنیوں کی نگاہ ہے۔قاہرہ کے قریب سن دو ہزار بائیس تک ایک نیا دارالحکومت قائم کرنے کے منصوبے کا بھی اعلان ہوچکا ہے جس پر پینتالیس ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ ہے۔ اس شہر میں پانچ ملین لوگوں کی گنجائش ہوگی اور فوجی و غیرملکی تعمیراتی کمپنیوں کے کنسورشیم کو ایک اور منفعت بخش مصروفیت مل جائے گی۔اب اتنے بڑے کیک کو کچی پکی جمہوریت کے حوالے کیسے کیا جاسکتا ہے۔

سسی حکومت کا اصرار ہے کہ اقتصادی ترقی جمہوریت کی کنجی ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے استحکام کی ضرورت ہے اور استحکام صرف فوج دے سکتی ہے کیونکہ وہی سب سے منظم اور تجربہ کار ادارہ ہے۔لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ استحکام کے نام پر جس طرح مصر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے اس میں اقتصادی ثمرات بھی پہلے کی طرح اوپر ہی بٹ بٹا جائیں گے۔

حسنی مبارک کے دور میں چالیس فیصد مصریوں کی روزانہ آمدنی دو ڈالر سے کم تھی۔آج پچاس فیصد آبادی اسی بریکٹ میں پہنچ چکی ہے۔ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی میں سے نصف کی عمر سولہ سے اٹھائیس برس کے درمیان ہے۔پھر بھی سسی حکومت کو ایسی کوئی پریشانی نہیں کہ وہ ڈنڈا بردار استحکام نافذ کرتے کرتے جلد ہی عدم استحکام کے ایسے بارودی دوراہے تک پہنچ سکتی ہے جہاں سے ایک راستہ تیونس کی طرف جاتا ہے جہاں پرانی اشرافیہ نے بدلے ہوئے حالات سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے پرامن انتقالِ اقتدار کا اصول مان لیا۔اور دوسرا راستہ شام کی طرف نکلتا ہے جہاں بشار الاسد کی ہٹ دھرمی کے سبب ہر طرح کے خوں آشام بھوت زمین سے نکل کر کھلے پھر رہے ہیں۔ کل کلاں مصری ریاست بھی تتر بتر ہوتی ہے تو پھر اس کی دھمک دور دور تک شرطیہ انہدام کاری کرے گی۔پڑوسی ملک لیبیا میں القاعدہ اور داعش کی بلی ویسے بھی چھینکا ٹوٹنے کی تاک میں ہے۔مگر وہ حکمران ہی کیا جو دوسروں کی مثالوں سے بروقت سبق لے لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔