ہماری آنکھ کب کھلے گی

جاوید چوہدری  اتوار 24 مئ 2015
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہمارے سورج پر اربوں سال سے دھماکے ہو رہے ہیں، یہ دھماکے روزانہ 120 ملین ٹن مادے کو ہیلیم گیس میں تبدیل کرتے ہیں، یہ ہیلیم گیس ایک سیکنڈ میں ہماری زمین کی پانچ لاکھ سال کی ضرورت کے برابر توانائی پیدا کرتی ہے، سورج زمین پر روزانہ ایک لاکھ 74 ہزار ٹیرا واٹ توانائی پھینکتا ہے، یہ توانائی ہماری ضرورت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے، سورج یہ توانائی کیسے جنریٹ کرتا ہے؟ یہ توانائی ’’فیوژن‘‘کے ذریعے جنریٹ ہوتی ہے، فیوژن میں ہائیڈروجن گیس کے دو ایٹم ملتے ہیں، یہ دو ایٹم ہیلیم گیس بناتے ہیں اور اس سارے عمل میں ہزار ایٹم بم کے برابر توانائی پیداہو جاتی ہے۔

ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس کے ری ایکشن کو فیوژن کہتے ہیں، سورج پر ان دونوں گیسز کا غلاف چڑھا ہے، یہ گیسیں 150ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے  زمین تک پہنچتی ہیں، آپ اگر سورج سے زمین تک اس عمل کا جائزہ لیں تو آپ توانائی کا شاندار کھیل دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ کھیل زندگی کی بنیاد ہے، کائنات میں جس دن سورج بجھ جائے گا اس دن زندگی کا دیا بھی گل ہو جائے گا، ہم انسان معاشرتی زندگی کے لیے توانائی کے محتاج ہیں، ہم توانائی کا بڑا حصہ تیل اور گیس سے حاصل کرتے ہیں لیکن یہ تمام ذرائع مل کر بھی سورج کی توانائی کا ایک فیصد نہیں بنتے چنانچہ سائنس دان پچھلے بیس برس سے سورج کو فوکس کر رہے ہیں۔

یہ گیس اور پٹرول کی محتاجی سے نکلنے کے لیے زمین پر سورج جیسا لیکن محدود اور کنٹرولڈ فیوژن کرنا چاہتے ہیں، یہ اس کے لیے فیوژن ری ایکٹر بنارہے ہیں، یہ پراجیکٹ چین میں زیر تعمیر ہے اور دنیا کے آٹھ بڑے ممالک فیوژن ری ایکٹر کے لیے چین کی مدد کر رہے ہیں، فیوژن ری ایکٹر کے لیے ہیلیم گیس درکار ہے، یہ گیس ہماری فضا میں انتہائی کم ہے، سائنس دان کم یابی کی وجہ سے اسے ’’نوبل گیس‘‘ کہتے ہیں، ہم اگر اپنی فضا کو نچوڑیں تو ہم اس سے بمشکل 15 ٹن ہیلیم گیس حاصل کر سکیں گے، چاندہماری زمین کے قرب و جوار میں واحد مقام ہے جس پر 50 لاکھ ٹن ہیلیم گیس موجود ہے، چین نے جون 2014ء میں چاند سے ہیلیم گیس لانے کا فیصلہ کر لیا، چینی سائنس دان دن رات اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں، یہ لوگ جس دن کامیاب ہو جائیں گے اس دن چین کی توانائی کی تمام ضرورتیں پوری زندگی کے لیے پوری ہو جائیں گی۔

یہ منصوبہ پہیئے، بجلی کی ایجاد، ریڈیو سگنلز اور کمپیوٹر کی ایجاد سے بڑا بریک تھرو ہو گا، انسان کو اس کے بعد توانائی کے لیے کسی ذریعے کی ضرورت نہیں رہے گی، ہم بلب سے جہاز تک دنیا کی ہر چیز فیوژن توانائی سے چلائیں گے،یہ چین ہے، آپ اب جاپان کی طرف آئیے، جاپان کی کمپنی Shimizu کارپوریشن نے چاند کے خط استوا پر سولر پینل کی 250 میل لمبی بیلٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا، یہ بیلٹ سورج کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرے گی اور یہ بجلی شعاع بن کر زمینی اسٹیشن پر اترے گی، یہ بیلٹ ’’لونر رنگ‘‘ کہلائے گی، یہ جاپان کو روزانہ 13 ہزار ٹیراواٹ بجلی دے گی، امریکا اس وقت 4100 ٹیراواٹ بجلی پیدا کررہا ہے گویا جاپان صرف ایک منصوبے کے ذریعے امریکا کی کل پیداوار سے تین گنا زیادہ بجلی حاصل کرے گا، یہ بجلی سال کے بارہ مہینے دستیاب ہو گی، یہ ماحولیاتی آلودگی بھی نہیں پھیلائے گی اور اس کے لیے خام مواد بھی درکار نہیں ہوگا۔

یہ کیا ہے؟ یہ انسان کی صرف ایک ضرورت یعنی بجلی پر ہونے والی ریسرچ ہے اور یہ ریسرچ چیخ کر بتا رہی ہے، ہم سے چند ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہم جیسے انسان چاند اور سورج سے اتنی بجلی حاصل کریں گے جو 245 ممالک پر پھیلی اس دنیا کے سات ارب لوگوں کے بلب، چولہے، اے سی، ہیٹر اور گاڑیاں چلائے گی،آپ ان دونوں منصوبوں کو سائیڈ پر رکھ دیں اور ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے، دنیا میں 2000ء تک گیس اور پٹرول گاڑیاں چلانے کا واحد ذریعہ ہوتا تھا لیکن آج دنیا میں ہائی برڈ گاڑیاں بھی ہیں اور یورپ، امریکا اور آسٹریلیا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں، یہ گاڑیاں انجن کے بغیر چلتی ہیں، آپ بیٹری ری چارج کرتے ہیں اور پانچ سو کلومیٹر سفر طے کرلیتے ہیں۔

دنیا میں سولر انرجی سے اڑنے والے جہاز بھی بن چکے ہیں، دنیا 2020ء تک ’’سولر فلائیٹس‘‘ کے مزے لوٹے گی، دنیا بھر کے سائنس دان ’’کرشماتی ادویات‘‘ بھی ایجاد کر رہے ہیں، آپ بچوں کو ویکسین دیں گے اور بچے زندگی بھر کے لیے متعدی امراض سے محفوظ ہو جائیں گے، آپ چھوٹے بڑے تمام امراض کے لیے ایک ہی گولی کھائیں گے اور گلے کی خرابی سے قبض تک آپ کے تمام امراض دور ہو جائیں گے، امریکا میں ایسی شرٹس بھی بن چکی ہیں جنھیں دھونے کی ضرورت نہیں پڑتی،آپ شرٹ کو جھاڑیں اور پہن لیں، گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے کپڑے بھی ایجاد ہو چکے ہیں، آپ جب چاہیں، جہاں چاہیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ تبدیل کر لیں، میں نے پچھلے دنوں آسٹریلیا کا ویزہ لگوایا، مجھے ویزے کے لیے پاسپورٹ سفارتخانے بھجوانا پڑا اور نہ ہی انٹرویو دینا پڑا، کاغذات کوریئر کے ذریعے بھجوائے اور ای میل پر ویزہ آ گیا، میں نے ویزے کا پرنٹ لے لیا، آپ ترکی کا ویزہ بھی ’’آن لائن‘‘ حاصل کر سکتے ہیں، دنیا بھر کی کرنسی پلاسٹک کے کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ میں سما چکی ہے۔

آپ دنیا کے کسی کونے میں اپنا کارڈ ’’سوئپ‘‘ کریں اور خریداری کر لیں، دنیا کے تمام بڑے بینک ’’آن لائن‘‘ ہیں، آپ انٹرنیٹ کے ذریعے رقم جمع بھی کرا سکتے ہیں، نکال بھی سکتے ہیں اور ٹرانسفر بھی کر سکتے ہیں، آپ کا موبائل دو برسوں میں آپ کا شناختی کارڈ بھی بن جائے گا، پاسپورٹ بھی، ڈرائیونگ لائسنس بھی، بینک بھی، کریڈٹ کارڈ بھی، بجلی، گیس اور پٹرول کا بل بھی، پراپرٹی کا ریکارڈ بھی، ہیلتھ کارڈ بھی اور انشورنس پالیسی بھی۔ آپ اپنا موبائل فون مشینوں کی اسکرینوں سے ٹکراتے جائیں گے اور آگے بڑھتے جائیں گے، آپ دو برس میں ’’سم لیس‘‘ فون بھی استعمال کریں گے، آپ کوکسی ملک میں ’’سم‘‘ نہیں بدلنا پڑے گی، آپ کا فون نمبر دنیا بھر میں ’’لوکل پیکیج‘‘ پر کام کرے گا، آپ کو ’’رومنگ چارجز‘‘ نہیں پڑیں گے، گوگل پوری دنیا کے لیے ’’ایک وائی فائی‘‘ پر کام کر رہا ہے، فضا میں بڑے بڑے غبارے فکس ہو رہے ہیں۔

غباروں میں انٹرنیٹ کی مشینیں لگی ہیں، یہ مشینیں پوری دنیا کو وائی فائی سے جوڑ دیں گی، دنیا بھر کے لیے ’’وارننگ سسٹم‘‘ بھی بن رہا ہے، یہ سسٹم آپ کو ایک سال پہلے بارش، سیلاب، زلزلے، آتش زدگی، وباؤں اور آندھی طوفان کی اطلاع دے دے گا، یہ آپ کو یہ بھی بتائے گا دنیا کے کس کونے میں کب، کس چیز کی قلت ہو گی، دنیا بھر کے لوگ اس وارننگ سسٹم کے ذریعے وقت سے پہلے اپنا بندوبست کر لیں گے، دنیا بڑی تیزی سے ’’ڈی این اے‘‘ کو شناختی نشان بھی بناتی جا رہی ہے، آپ کون ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں اور آپ کس پیشے سے منسلک ہیں۔

ان تمام سوالوں کا جواب آپ کے خون کا ایک قطرہ دے گا، دنیا میں سچائی کی مشینیں بھی دھڑا دھڑ بن رہی ہیں، ہم جب بھی جھوٹ بولیں گے، یہ مشین ہمارے پسینے کی بو سے اس کا اندازہ لگا لے گی اور سائنس دان ایک ایسا واسطہ بھی تلاش کر رہے ہیں جو روشنی کی رفتار سے تیز ہے اور انسان جس پر سفرکر کے سیکنڈ میں ہزاروں نوری سال کا فاصلہ طے کر لے گا، انسان نے جس دن یہ واسطہ تلاش کر لیا یہ اس دن کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں میں اتر جائے گا، یہ وہاں کھلی آنکھوں سے لمحہ بہ لمحہ پھیلتی کائنات کا مشاہدہ کرے گا۔

یہ کیا ہے؟ یہ علم ہے اور دنیا اس علم سے جی بھر کر فائدہ اٹھارہی ہے، اللہ تعالیٰ نے ذرے ذرے میں اسباب کے لاکھوں خزانے چھپا دیئے ہیں، یہ تمام اسباب اہل ایمان کی امانت ہیں لیکن اہل ایمان نے یہ اسباب چین، جاپان، کوریا، آسٹریلیا، یورپ اور امریکا کے حوالے کر کے اپنے لیے سستی، جہالت اور نالائقی چن لی، دنیا آج بجلی کے لیے چاند اور سورج پر تاریں بچھا رہی ہے، یہ ’’گلوبل وائی فائی‘‘ کے ذریعے پوری دنیا کو جوڑ رہی ہے لیکن ہم اہل ایمان پولیو کی ویکسین کو حرام قرار دے رہے ہیں، ہم دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کی گردنیں اڑا رہے ہیں اور ہم مسجدوں میں بم پھاڑ رہے ہیں۔

دنیا ’’فیوژن ری ایکٹر‘‘ کے لیے ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہے لیکن ہم لوگ رمضان کے چاند پراتفاق رائے پیدا نہیں کر پا رہے اور دنیا کرہ ارض پر پھیلے سات ارب انسانوں کو ’’ون یونٹ‘‘ میں پرونے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہم نے محلے میں تین تین مسالک کی مسجدیں بنا رکھی ہیں، ہم کب جاگیں گے، ہم اسباب کی اس دنیا میں اپنا حصہ کب ڈالیں گے، ہم دنیاکو کب بتائیں گے ہم مسلمان بھی ذہین ہیں، ہم مسلمان بھی عالم ہیں، ہم مسلمان بھی آئن سٹائن ہو سکتے ہیں اور ہم مسلمان صرف بجلی استعمال نہیں کرتے، ہم بجلی بنا بھی سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آنکھیں کھولنا ضروری ہے اور ہم مسلمان آنکھیں کھولنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پتہ نہیں ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔