کامریڈ حیدر بخش جتوئی اور ہاری تحریک

زبیر رحمٰن  بدھ 27 مئ 2015
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

کسانوں کی تحریک بڑی قدیم ہے۔ 1835ء میں کشمیر کے کسانوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ کو ٹیکس دینے سے انکار کرنے پر سات کسان رہنماؤں سبز علی خان، قلی خان، ملی خان اور مسافر خان سمیت دیگر کو درخت پر الٹا لٹکا کر ان کی کھال کھینچی گئی تھی مگر انھوں نے معافی نہیں مانگی تھی۔ 18 ویں صدی میں جرمنی کے کسانوں نے اپنے مطالبات کے لیے بغاوت کی تھی جس پر حکمرانوں نے 30 ہزار کسانوں کا قتل کیا تھا۔

20 ویں صدی میں بنگال کے کسانوں اور آندھرا پردیش کے کسانوں نے عظیم الشان تحریکیں چلائیں۔ 1973ء میں خیبر پختونخوا میں ہشت نگر کسان تحریک اور پنجاب میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسان تحریک بھی زیادہ مقبول ہوئی۔ صوبہ سندھ میں پاکستان بننے سے قبل سندھ ہاری کمیٹی کا وجود تھا۔ سندھ ہاری کمیٹی کے مقبول رہنماؤں میں پہومل، سید جمال الدین بخاری، عبدالقادر، سوبھو گیان چندانی، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، کامریڈ سائیں عزیز اللہ، کامریڈ عزیز سلام بخاری، قاضی احمد اور فیض قابل ذکر ہیں۔ ان میں مقبول ترین رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی تھے۔ وہ ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود کسانوں سے نہ صرف ہمدردی رکھتے تھے بلکہ اکثر ان کے رکے ہوئے کام بھی کر دیتے تھے۔ مگر اس عہدے پر فائز رہتے ہوئے کھل کر کسانوں کے لیے کام کرنے سے قاصر تھے۔

آخرکار انھیں اس عہدے سے کنارہ کشی کرنی پڑی اور وہ دن آ ہی گیا کہ وہ ڈپٹی کلکٹر کے بجائے سندھ ہاری کمیٹی کے کارکن بن گئے۔ اور بہت جلد اپنی لگن اور جدوجہد کی وجہ سے ہاری کمیٹی کے رہنما بن گئے۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی بڑی تعداد میں حکمرانوں کو ہاریوں کے مسائل پر خطوط بھیجتے تھے۔ اس سے حکمرانوں میں کھلبلی مچتی اور کچھ مطالبات تسلیم بھی کر لیے جاتے۔ ہاری کمیٹی نے کامریڈ حیدر بخش جتوئی کو ایک گاؤں میں برانچ کھولنے کا کام سونپا۔ اس گاؤں کے وڈیرے نے سادہ لوح ہاریوں کو یہ بتایا کہ ایک کافر ہمارے گاؤں میں آنے والا ہے، اس کا نام حیدر بخش جتوئی ہے۔ وہ اس گاؤں کی مسجد کو تباہ کرے گا اور ہمارے امام صاحب کی داڑھی صاف کروا دے گا۔ اس قسم کی بے ہودہ اور شر انگیز بات کر کے بے ضرر کسانوں کو بھڑکانا بڑا آسان ہوتا ہے۔

اس لیے بھی کہ ان میں مذہبی معلومات کا فقدان ہوتا ہے اور وڈیرے پیسوں کا لالچ بھی دیتے ہیں۔ کسان مسلح ہو کر جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے کہ حیدر بخش کا آتے ہی اسے کلہاڑی سے وار کر کے کام تمام کردینا ہے۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی عین وقت پر گاؤں میں داخل ہوئے اور کسانوں سے پینے کے لیے پانی طلب کیا۔ سندھی خوش مزاج اور مہمان نواز ہوتے ہیں، اس لیے انھوں نے حیدر بخش جتوئی کو بیٹھنے کے لیے چارپائی پیش کی اور پانی بھی پلایا۔ پھر سندھی روایات کے مطابق خیر خیریت دریافت کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ حیدر بخش جتوئی نے کسانوں سے سوال کیا کہ ایک دن کی کتنی دیہاڑی مل جاتی ہے؟ جس پر کسانوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دو روپے مل جاتے ہیں جس سے بمشکل گزارا ہوتا ہے۔

پھر کامریڈ جتوئی نے پوچھا کہ بچے پڑھتے ہیں ؟ کیا ان پیسوں میں علاج وغیرہ ہو جاتا ہے؟ ہاریوں نے کہا ’’ہم غریب کسان بچوں کو کہاں پڑھا سکتے ہیں اور علاج کے لیے بابا جان فقیر کے پاس جاتے ہیں، وہ 2/4 پیسے لے کر پھونک جھاڑ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے ان سے کہا کہ تمہاری دیہاڑی بڑھ سکتی ہے۔ علاج اور تعلیم کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے تمہیں ایک کام کرنا ہو گا۔ کسانوں نے بڑے تجسس کے ساتھ پوچھا کہ سائیں کیا کام کرنا ہے؟ کامریڈ نے کہا کہ تمہیں کسانوں کی ایک کمیٹی بنانی ہے اور اپنے مطالبات پیش کرنے ہیں۔ پھر وڈیرہ مانے یا نہ مانے ہم عدالت کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کر کے تمہارے مسائل حل کروائیں گے۔ اس پر ہاری فوری طور پر تیار ہو گئے۔

کامریڈ جتوئی نے ہاری کمیٹی تشکیل دی اور عہدیداروں کا چناؤ کیا اور جاتے وقت یہ کہہ گئے کہ ’’میں حیدر بخش جتوئی ہوں۔‘‘ اس پر ہاری حیران بھی ہوئے اور ان میں خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے حیدر بخش سے وعدہ کیا کہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ جب وڈیرے کو پتہ چلا کہ حیدر بخش آیا تھا تو ہاریوں پر چراغ پا ہو گیا اور گالیاں دینے لگا۔ مگر حیدر بخش جتوئی کام تو کر گئے تھے۔ کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر وڈیرے ان پر شکاری کتے بھی چھوڑتے تھے۔ متعدد بار انھیں جھوٹے الزام میں وڈیرے قید بھی کرواتے رہے مگر وہ سچائی سے باز نہ آئے۔

وہ اتنے مقبول ہوئے کہ ان کے نام سے ایک اسٹیشن کا نام بھی منسوب ہے، حیدر آباد میں حیدر چوک انھی کے نام پر رکھا گیا ہے اور چھٹی جماعت کے نصاب میں ان کی زندگی پر ایک مضمون ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں مضمون کے عنوان میں سے ’’کامریڈ‘‘ کا لفظ نکال دیا گیا ہے۔ اس لیے بھی کہ طلبا اکثر سوال کرتے تھے کہ سر ’’کامریڈ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ سندھ میں لسانیت، تنگ نظری قوم پرستی اور مذہبی فرقہ واریت کی وجہ سے کسان تحریک کمزور ہوئی ہے لیکن پنجاب میں بڑھی ہے۔

پنجاب میں انجمن مزارعین پنجاب، کسان بورڈ اور پنجاب کسان اتحاد متحرک اور فعال ہے۔ چند برس قبل تقریباً آٹھ اضلاع میں انجمن مزارعین پنجاب نے زبردست اور قابل ذکر تحریک چلائی، گرفتاریاں ہوئیں، لاٹھی چارج ہوا، تشدد ہوا اور تین کسان رہنماؤں کو شہید بھی کر دیا گیا اس کے باوجود تحریک کو نہ روک پائے۔ اپریل 2014ء میں ’’پنجاب کسان اتحاد‘‘ کے بینر تلے پنجاب بھر سے 20 ہزار سے زائد کسان لاہور میں اپنے مطالبات کے لیے جمع ہوئے۔ حکومت پنجاب نے 1400 کسانوں کو گرفتار کر لیا جن میں کسان اتحاد کے چیئرمین طارق، صدر انوار چوہدری اور جنرل سیکریٹری اشتیاق بھی شامل تھے۔

جنھیں انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز موومنٹ کے رہنماؤں رہا کروایا۔ آخرکار حکومت اور کسانوں کے مابین مذاکرات کے بعد معاہدہ ہوا۔ مطالبات میں بجلی، کھاد، پانی اور بیج میں سبسڈیز دینا، مارکیٹ کمیٹی میں کسانوں کا نمایندہ شامل کرنا، اجناس کی ترسیل اور قیمتیں طے کرنے کی کمیٹی میں بھی کسانوں کے نمایندے شریک ہوں گے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کسانوں کو زرعی بینک مفت قرضے دیتے ہیں جب کہ پاکستان میں 16 سے 18 فیصد سود لیتے ہیں۔ وہاں حکومت کسانوں کو کھاد اور بیج آدھی قیمت پر دیتی ہے جب کہ یہاں حکومت لاگت سے تین گنا زیادہ وصول کرتی ہے۔ ہندوستان بجلی کسانوں کو تقریباً مفت فراہم کرتا ہے جب کہ برائے نام سبسڈی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔