یہ لوگ ٹارزن نہیں (آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  اتوار 31 مئ 2015

ایک درویش صفت صحافی ہم سب نوجوان صحافیوں کا مشترک آئیڈیل تھے،کا کا غلام علی عمرعزیز رپورٹنگ میں گزاری، ’’دی سن آلسو سیٹس‘‘ کے زیر عنوان مارننگ نیوز میں ان لوگوں کے بارے میں شخصی فیچر لکھتے رہے جن کا آفتاب شوق کبھی نصف النہار پر تھا۔ مگر وہ اپنے شعبے کے بے مثال لوگ تھے۔

کاکا میں بلا کا حس مزاح تھا، صدیق بلوچ ، علیم الدین پٹھان، طاہر نصیر، ذوالفقار زلفی، محمد علی خالد، عقیل فوٹوگرافر، زاہد حسین فوٹوگرافر، زرارخان اور ان گنت صحافیوں اورفوٹو گرافرز سے ان کا مذاق چلتا تھا۔ ان کی انفرادیت وہ پھٹی ہوئی کتاب تھی جو ان کے چھوٹے سے دستی بیگ میں یا ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی، کسی کا سرورق غائب یا پھرکتاب کے آخری صفحات ندارد۔ شوگر کے مریض تھے، آتے تو صرف نمکین بسکٹ کی اپیل نوجوان صحٖافیوں سے اس طرح کرتے’’ نمکین کا سوال ہے بابا۔‘‘ اور پھر سب کے قہقہے بلند ہوتے۔

کسی اسکول یا کالج کے فارغ التحصیل نہیں تھے، ایک میکنک نے علاقے کے ایک انسان دوست ٹیچر کو اسے ایک آدھا گھنٹہ ساتھ بٹھا کر پڑھانے کی درخواست کی، یوں ان کی رسمی تعلیم جاری رہی۔ غلام علی صدیق بلوچ ایک جان دو قالب تھے، جس طرح سندھی اخبار کے مجید عباسی اور محمود شام کو ہمیشہ ساتھ دیکھا گیا، گروداس پریس کلب کی شان تھے۔ کاکا غلام علی نے پرانی کتابیں خرید کر انگریزی زبان کی شد بد حاصل کی اور اپنی ذاتی محنت سے لیاری کے غربت کدے سے ترقی کرتے ہوئے ڈان کے سینئرکرائم رپورٹر کی حیثیت میں وفات پائی۔ ملک صاحب اور ایم ایچ ملتانی اسپورٹس رپورٹنگ کی دنیا کے نرالے کیریکٹر تھے۔

زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ایک سینئر صحافی نے اپنے نووارد صحافی بیٹے کو نصیحت کی کہ کبھی اخبار کی ملازمت میں عہدہ اور بڑی تنخواہ کی لالچ نہ پالنا۔ اخبار نویس کے لیے ایک کرسی اور چھوٹی سے میزکافی ہے۔ جب عمر صحافت میں گزرتی رہے اور آخر میں ہاتھوں میں رعشہ ہو، بینائی متاثر ہوجائے، لفظ دھندلے نظر آنے لگیں تو صحافت فوراً چھوڑدو ۔ فاقہ کشی کی بات اوپر کی سطروں میں ہوئی ہے تو ایک واقعہ سنئے۔ کسی ہفت روزہ کے مدیر و مالک کی پالیسی تھی کہ ایڈوانس نہیں دیتے تھے،ایک نئے کاتب نے جو معروف خوش نویس اور کثیرالمطالعہ شخص تھے، کچھ عرصے بعد اس پالیسی سے واقف ہونے کے باوجود ایڈوانس لینے ان کے کمرے میں داخل ہوئے، مدیر موصوف نے سوال کیا ’’جی فرمائیے۔‘‘ کاتب نے عرض کی ’’سر، بیس روپے ایڈوانس چاہیے،‘‘ جواب ملا ’’یہاں ایڈوانس کی کوئی روایت نہیں۔‘‘ کاتب لوٹا تو ساتھیوں نے بہت مذاق اڑایا۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔

مہینہ ختم ہوا، پانچ تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی، سات آٹھ تاریخ ہوگئی، کاتب منع کرنے کے باوجود ایڈیٹر کے کمرے میں ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے ، مدیر کا انداز خسروانہ ، تجاہل عارفانہ وہی ، پوچھا ’’ آج کیا مسئلہ ہے؟ ‘‘ کاتب نے کہا ’’ تنخواہ چاہیے، ‘‘ جواب ملا ’’پندرہ کو ملے گی۔‘‘ کاتب کا تاریخی جملہ سنئے کہ ’’ جس اخبار کی روایت ایڈوانس دینے کی نہیں تو ہماری بھی روایت یہی ہے کہ تنخواہ مقررہ تاریخ پر لیے بغیر نہیں جاتے۔‘‘ بس ہنگامہ ہوگیا ،’’ پیسے آئیں گے تو تنخواہ ملے گی۔‘‘ مکالمہ، مناظرے میں تبدیل ہوا۔

مدیر نے جیب دکھا دی کہ خالی ہے،کاتب نے کہا کہ پینٹ کی جیبیں ٹٹولیں کچھ مل جائے گا ، بہرحال ادھر ادھر کی دراز سے کچھ پیسے اکٹھا کر کے کاتب پیسے لے کر فاتحانہ انداز میں باہر آیا اور پیسے آپس میں بانٹ لیے۔ جن صحافیوں نے جنرل ضیاء الحق کے جابرانہ مارشل لاء کے دوران آزادی صحافت کی سب سے بڑی جنگ لڑی ، کوڑے کھائے، کیا وہ کسی اور سیارے سے آئے تھے؟ جنھوں نے بڑی بڑی پیش کشوں کو ٹھکرایا ، کیا ان کے کئی خوشنما خواب پریشاں نہیں ہوئے، ان کے گھر کا چولھا کئی روز تک نہیں جلا ، بچے بیمار رہے، بیوی نے کوئی احتجاج نہیں کیا کہ کوئی ایگزیکٹ جیسا ادارہ کیوں نہیں ڈھونڈتے، اپنا ضمیر عارضی طور پر گروی کیوں نہیں رکھ لیتے، صرف خدا ہی تو دیکھ رہا ہے، کسی کو کیا پتا چلے گا، کیا اسی کنگلے اخبار سے وابستہ رہنا تمہارا مقدر ہے؟ ہماری خواتین صحافیوں کا کوئی کم کنٹری بیوشن نہیں ، کیا دلیر و بے خوف رضیہ بھٹی نے حسن مجتبیٰ اور بے شمار جاندار فیچر لکھنے والے رائٹر تیار نہیں کیے، ریحانہ حکیم ، زاہد حسین نے ’’نیوز لائن‘‘ جیسا فکر انگیز میگزین نہیں نکالا۔ منیر حسین کا کوئی کردار نہیں، کیا سید محمد تقی، رئیس امروہی ، جون ایلیا اور زاہدہ حنا نے صحافت کو فلسفہ ، نفسیات ، قطعہ نویسی ، شاعری اور نثر کے خزائن سے روشناس نہیں کیا۔

شکیل عادل زادہ نے ’’سب رنگ‘‘ شائع کر کے اردو زبان اور ڈائجسٹوں کو ادبی رتبہ کمال تک نہیں پہنچایا، لالہ رخ انصاری ، مسرت جبیں، ش فرخ اور اخبار خواتین کی پوری ٹیم نئے خیالات کے ساتھ نہیں آئیں ، سلطانہ مہر، مہ ناز رحمٰن ،صفورا خیری ، حمیرا اطہر ، روحی بخاری کی جواں نسل سے تعلق رکھنے والی پنجاب، سرحد(خیبر پختونخوا) بلوچستان اور اندرون سندھ سے بے شمار اہل قلم خواتین نے عبرت، کاوش، عوامی آواز مہران اور دیگر جرائد کو صحافتی ارتقا کا ہم سفر نہیں بنایا ۔ یہ سب کمٹمنٹ اور جذباتی وابستگی کا اظہار تھا، پیسہ کسی کا دین وایمان نہ تھا۔ پیسے نے تو فیفا ورلڈ کپ میں کرپشن کا زہر بھر دیا، میچ فکس ہوگئے، ماڈلز اور چیئر لیڈرز نے تو اسپورٹس کے صاف ستھرے میدان میں رقص کی محفلیں سجالیں۔

غربت کا دور ہراس صحافی کا مقدر رہا ہے مگر سب نے اپنی صحافتی کمٹمنٹ نبھائی اور’’ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا‘‘کی دھمال ڈالی۔ اخلاقیات کے درس کا طعنہ نہ دیں ، ورنہ تر دامنی میں ڈوبا کوئی شعبہ زندگی اپنی شرافت کا جواز پیش نہیں کرسکے گا، آج سے تیس سال قبل مجھ سے ایک چھوٹے مولوی نے کتنا ساہ سا سوال کیا تھا کہ ’’ اللہ عیب چھپاتا اور میڈیا اسے طشت ازبام کرتا ہے۔ ساری صحافت عیب جوئی، کردار کشی اور انسان کی ذاتی زندگی کے پوسٹر چھاپنے کی بازیگری نہیں ہے۔‘‘ میں صرف مسکرا کر رہ گیا۔ اس وقت ہم کہاں کے دانا تھے! آئیے ہنگری نژاد ممتاز امریکی صحافی جوزف پلٹزر کی زندگی کے روشن ورق کی جھلک دیکھتے ہیں ۔

کیسی جدوجہد کی اس شخص نے ، اس کے میڈیا گروپ کے اجلاس میں پروفیسر تھامس ڈیوڈسن نے جب ان سے کہا کہ’’دیکھا گیا ہے کہ آپ گفتگو میں رپورٹرز سے نرمی برتتے ہیں لیکن ایڈیٹر سے سختی ؟ پلٹزر کا جواب تھا کہ رپورٹر اخبار کی امید ہوتا ہے جب کہ ایڈیٹر مایوسی ۔ رقیبان صحافت کی نرالی منطق ملاحظہ ہو کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے تو جنگ اور صحافت میں کیوں ناجائز؟ مسابقت ہی تو اصل اصول ہے۔

جس پر چل کر ایگزیکٹ اور بولستان نے میڈیا کے حریفوں کو چیلنج کیا۔ یہ چیلنج نہیں تھا حضور، سارے بڑے میڈیا گروپس کے ڈیتھ وارنٹ ایگزیکٹ نے جاری کرنے کا دعویٰ کیا تھا، سوال یہ ہے کہ کیا ایگزیکٹ کے چینل یا بول سے پہلے کوئی نیا اخبار، جریدہ یا چینل متعارف نہیں ہوا، بہت سارے چینلز اور اخبارات آئے، ابھی اور آئیں گے، کسی کو نہیں روک سکتے لیکن ایک ادارے کے قیام اور نئے کسی تجربے کا کمال جب منظر عام پر آجائے اور خود سے بولنے لگے تو میڈیا وار کی ضرورت نہیں رہتی، لیکن یار لوگ تو آنے سے پہلے سب سے بڑا میڈیا گروپ بن گئے، ارے بھائی کیسے؟ یہ حادثہ کب ہوا؟ اب جب ایگزیکٹ اور بول کی امکانی صحافت کی خود ساختہ رعونت اور دھونس دھمکی کے باعث کھیل بگڑ گیا تو کسی کو دوش دینے کی بجائے ۔

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ کراچی شہر پر میڈیا کے حوالے سے کبھی خصت کا الزام نہیں لگا، باہر سے اخبار اور رسائل و جرائد آکر آزادانہ فروخت ہوتے تھے، کئی سال تک ماہانہ ’’رابطہ‘‘ ایک خوبصورت جریدہ کے طور پر دس روپے میں بکتا رہا، کسی نے اسے تباہ و برباد نہیں کیا، ExpressTribune انگریزی صحافت میں خوشنما روزنامہ کے طور پر بہار کے ایک تازہ اور سبک رفتار جھونکے کی طرح آیا ،اس کے سینئر صحافیوں نے معاصر اخبارات کو موت کے گھاٹ اتارنے کا دعوی نہیں کیا، یہ بات تو ہمارے فیض صاحب کئی سال پہلے کہہ چکے تھے کہ ہٹلر سے اسٹالن،مسولینی اورچرچل کوخطرہ ہوسکتا ہے، مگر ایک ادیب اورشاعر کوکسی دوسرے سے خطرہ نہیں ہوتا۔ ملک میں نئے اخبارات اور چینلزآئے ۔کرکٹ میں کیری پیکر ٹیلی ویژن آئی کون تھے۔

انھوں نے قدم رنجہ فرمایا تو ون ڈے کرکٹ کا عالمی تحفہ دے دیا، اس نے میڈیا کی ایمپائر کھڑی کی،کرکٹ بورڈز سے قانونی جنگ لڑی ،مگر رنگ برنگ کرکٹ کی فراڈ تھیوری اور جعل سازی کا پروگرام لے کر نہیں آئے ، ’’فئیر پلے‘‘اس کی شخصیت اور انتظامی ڈسپلے کا شاہکار تھا۔ دنیا بھرکے سپر اسٹارز اس نے جمع کیے، سب اپنے کرکٹ بورڈز کے باغی تھے۔

پیسہ اس نے بھی دیا لیکن میرٹ پر۔ کیری پیکر نے آئی سی سی سے کہہ کر تصادم کی راہ اختیار نہیں کی کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ کو دفن کرکے دم لے گا۔ ایگزیکٹ والے تو اپنے چینل اور اخبار ’’بول‘‘ سے لپٹ کر اتنے بلند بانگ دعوے کے ساتھ فیس بک پر جلوہ گر ہوئے کہ ’’ گویا ملک کے تمام بڑے اخبارات اور چینلز بس چند دن کے مہمان ہیں۔سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔