عبداللہ حسین نے کوچ کیا

زاہدہ حنا  بدھ 8 جولائی 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وہ 25 مئی 2014 کا دن تھا جب ان سے آخری ملاقات ہوئی۔ لاہور میں الحمراآرٹس کونسل کے روح رواں عطاالحق قاسمی نے بیتے دنوں کی بیتی سنانے کے لیے ملک بھر کے افسانہ نگاروں، شاعروں، گلوکاروں، اداکاروں اور سیاستدانوں کو اکٹھا کیا تھا اور سب نے اپنی اپنی بیتی سنائی تھی۔ کانفرنس کے حاشیوں پر دعوتیں ہورہی تھیں۔ ایسی ہی ایک دعوت معروف ادیب اصغر ندیم سید اور شیبا کے گھر پر ہوئی تھی جس میں ہندوستان سے آئے ہوئے دانشور اور ادیب شمیم حنفی، ابولکلام قاسمی اور ان کی بیگم کے علاوہ انتظار صاحب، مسعود اشعر، فاطمہ حسن اور کئی دوسرے ادیب اور شاعر تھے۔

اصغر اور شیبا نے میرے ساتھ میری بیٹی سحینا کو بھی بلایا تھا۔ سحینا بی سب کی تصویریں اتار رہی تھیں اور یوں عبداللہ حسین سے وہ آخری ملاقات محفوظ ہوگئی۔ وہ خود چلے گئے ہیں اور ان کی کہی ہوئی باتیں کانوں میں گونجتی ہیں۔ انھوں نے 84 برس کے دوران بہت سی کہانیاں، ناول اور طویل افسانے لکھے۔ یورپ کے مختلف ملکوں کے سفر کیے۔ 40 برس تک لندن کے پیاسوں کی دعائیں لیں اور اب کچھ برسوں پہلے اپنی زندگی سمیٹ کر پاکستان آگئے اور یہاں کی ادبی محفلوں میں خال خال سہی نظر آنے لگے۔

60 کی دہائی شروع ہوچکی تھی۔ ہر طرف قرۃ العین حیدر اور ان کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے ڈنکے بج رہے تھے، عین ان ہی دنوں عبداللہ حسین اپنے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کے ساتھ ادب کے افق پر نمودار ہوئے۔ ان کا ناول پنجاب کی دیہی اور شہری زندگی، پہلی جنگ عظیم اور بٹوارے کے زمانے کا احاطہ کرتا تھا۔ اس کا مرکزی کردار نعیم کئی برس پہلے لکھے جانے والے عزیز احمد کے کردار نعیم کی یاد دلاتا تھا، لیکن یہ محض نام کی مماثلت کا معاملہ تھا۔ ’’اداس نسلیں‘‘ کی دھوم مچی ہوئی تھی لیکن اسے پڑھ کر مجھے لطف نہیں آیا۔

سب سے زیادہ کوفت اس بات سے ہوئی تھی اس میں ہر صفحے پر مسجع مقفیٰ گالیوں کی بہار تھی۔ اس وضع کی طرز تحریر اس وقت بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہوئی تھی اور ان کی بھی کمی نہیں تھی جو عبداللہ حسین کی اس ادا پر نثار تھے اور اسے ان کی حقیقت نگاری کا حسن بیان کرتے تھے۔ عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر سے بہت متاثر تھے اور ان کی تحریروں پر ان کا اثر تھا۔ وہ ایک بھرپور تخلیقی زندگی گزار کرگئے۔ پاکستان کی ادبی دنیا ان کا سوگ منارہی ہے۔ ان کے ناولوں ’اداس نسلیں‘ نادارلوگ‘ اور ’باگھ‘ کے علاوہ ان کی مختصر اور طویل کہانیاں بھی زیر بحث آرہی ہیں۔ عبداللہ حسین کا کہنا تھا کہ ’’زندگی کا نہ کوئی نقشہ ہے، نہ نمونہ۔ بس چھوٹے بڑے اتفاقات کا ایک جال ہے جو ایک ایک گرہ کرکے پھیلتا جاتا ہے۔‘‘

اس سے بڑا سچ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم ان ہی چھوٹے بڑے اتفاقات کے جال میں پھڑپھڑاتے رہ جاتے ہیں۔

اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میرا ایک فلسفہ بھی بن گیا ہے کہ انسان کی ذات پر بہت سے جبر آزمائے جاتے ہیں۔ شروع سے آخر تک یعنی پیدا ہونے سے مرنے تک کچھ زندگی کی صورت ہی ایسی ہے، چاہے وہ یہاں ہو، چاہے یورپ میں ہو، امریکا میں ہو۔ انسان کی زندگی پر بہت سے جبر عائد ہوتے ہیں، عائد کیے جاتے ہیں، آزمائے جاتے ہیں اور ان سے بچ کے نکل جانا یا بچ کے زندہ رہنا انسان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ جبر صرف سیاسی جبر ہی نہیں اس کی کئی شکلیں ہیں۔ آپ کی زندگی ایک مسلسل کشمکش بن کر رہ جاتی ہے اور آپ کسی اسٹیج پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب میرے سارے کام ہوگئے، مسئلے حل ہوگئے، اب میں آرام سے بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘

ان کا ناول ’’باگھ‘‘ حالات سے انسان کی مزاحمت کی علامت ہے۔ اس کا ہیرو اسد جیل کاٹتا ہے، اذیتیں سہتا ہے، اس کے باوجود ہار نہیں مانتا۔ اس ناول کے صفحوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں، سیاست اس کی بنت میں کنڈلی مارے بیٹھی ہے، محبت خارجی اور داخلی حوالوں سے ظلم سہتی ہے۔ اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عبداللہ حسین کہتے ہیں کہ:

’’وقت کا ظلم اس طرح ہمارے ذہن کی تسخیر کرتا ہے اور اس طرح دل کی منزل کا پتا گم ہوتا ہے کہ ڈھونڈے نہیں ملتا۔ یہ منزلوں کا کوچ ہے جو یاد فراموشی کی طرف رواں ہے اور یہ ہماری یاد کی رحم دلی ہے کہ منزل منزل پر ہمارا ساتھ چھوڑتی رہتی ہے۔ سارے وقتوں کی یاد کو لے کر ہم نہ چل سکتے ہیں نہ مستقبل کے اندھیروں میں شریک ہوسکتے ہیں۔‘‘

انھوں نے زندگی کے کچھ دن کینیڈا میں گزارے۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب ڈاکٹر خالد سہیل اور پروفیسر عمر میمن نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ 1998 میں کیا جانے والا یہ انٹرویو بہت تفصیلی ہے اور عبداللہ حسین کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ یہ وہ دن تھے جب افغانستان میں ہم جہاد کی کھیتی کاشت کررہے تھے اور وہ دن قریب تھے جب ہماری نسلیں اس کی زہریلی فصل کاٹنے والی تھیں۔ ڈاکٹر خالد سہیل کو دیے جانے والے اس انٹرویو میں انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں سی آئی اے کے عمل دخل کے بارے میں ایک ناول لکھنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا تھا کہ وہ ٹورنٹو سے واشنگٹن جائیں گے جہاں ان فائلوں کا مطالعہ کریں گے جس سے انھیں افغانستان اور پاکستان میں امریکا کے اس پھیلے ہوئے تعاون کا اندازہ ہوسکے جس کے ذریعے وہ دنیا بھر سے مجاہدین کو پاکستان اور افغانستان میں اکٹھا کررہا ہے تاکہ کمیونزم سے لڑسکے، اسے شکست دے سکے اور ویتنام میں امریکی ہار کا حساب چکا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام صورت حال میں بڑے پیمانے پر امریکی مداخلت پاکستانی اور افغان سماج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے والی ہے۔ ایک ادیب کے طور پر انھیں سیاست کی جس قدر گہری تفہیم تھی، اس کا مظاہرہ ہمارے کم ادیب کرتے ہیں۔

اپنی تحریروں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ زیادہ حقیقی ہوگئی ہیں۔ ان کے بارے میں  تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ کمال کے جزئیات نگار تھے۔ انھوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ میں ہر منظر کو اپنے ذہن میں زندہ کرتا ہوں، آنکھیں بند کرکے اس کی تصویر کشی کرتا ہوں اور اسی عالم میں ہر منظر کی جزئیات میری تحریر میں جھلکنے لگتی ہے۔

وہ مختلف مناظر کو جس طور تصور کرتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں اس کا اندازہ ان چند جملوں سے لگایا جاسکتا ہے جس میں وہ مغرب کے موسم سرما کو ہماری نگاہوں میں یوں زندہ کردیتے ہیں کہ ’’سردیوں میں جب یہاں برف پڑتی ہے تو چاروں طرف ایک عجیب سا سناٹا طاری ہوجاتا ہے، جیسے زمین کی سانس رک گئی ہو اور وہ ایک لمبی چوڑی لاش کی طرح برف کے کفن کے نیچے بے حس و حرکت پڑی ہوئی ہو، کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں، کوئی سبزہ نہیں اگتا، کوئی پتا دکھائی نہیں دیتا، معلوم ہوتا ہے اس سرزمین سے کبھی حرارت نہیں نکلے گی اور نہ خوراک کا دانہ پیدا ہوگا، جس طرف نظر ڈالو ایک ہی رنگ دکھائی دیتا ہے۔

سفید اور گدلا سفید، مگر جب مارچ اور اپریل اور مئی کا موسم آتا ہے تو سارا نقشہ بدل جاتا ہے، زمین سے بھاپ اٹھنے لگتی ہے اور آسمان نکھر آتا ہے اور بہار کے موسم میں تو ہوا کا بھی اپنا ایک رنگ ہوتا ہے، لمبی لمبی پینگوں والا رنگ، یہ رنگ صرف آنکھیں بند کریں تو دکھائی دیتا ہے۔‘‘

پھر وہ اسی مغرب کے موسم بہار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’وہ بہار کا موسم انوکھا تھا، یا کہ وہ سبزہ ہی نیا تھا، مگر ایسا سبزہ میں نے نباتات کی اور حیوانات کی دنیا میں کبھی نہیں دیکھا ہے۔ اڑتے ہوئے پرندوں اور حشرات الارض اور پانی کے اندر رنگ برنگی مچھلیوں کا نظارہ میں نے کیا ہے، مگر ایسا دمکتا ہوا سبز رنگ کہیں پر نہیں دیکھا جس کے اندر سے روشنی نکلتی ہو، معلوم ہوتا تھا کہ ان پتوں کے اندر دوڑتی ہوئی زندہ جان ہے اور یہ رنگ اس جان کا رنگ ہے اور اگر پیر کے نیچے لے کر ان پتوں کو مسل دیا جائے اور ان کی جان نکل جائے تو پیچھے سفید رنگ کے تنکے رہ جائیں گے۔‘‘

عبداللہ حسین ایک بالاقامت انسان تھے۔ انھیں دیکھ کر یہ گمان گزرتا تھا کہ وہ مغرب کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عمر پائی اور ہمارے ادب کو اپنے ناولوں اورکہانیوں سے مالا مال کرگئے۔ ان کے لکھے ہوئے لفظ جن لوگوں کی زندگیوں کو چھوکر گزرے ان کے تاریک دنوں میں عبداللہ حسین کے یہ لفظ انھیں حوصلہ دیں گے، مزاحمت پر اکسائیں گے اور شکست کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کا عزم ان کے اندر جنم لے گا۔ کسی ادیب کی اس سے بڑی کامیابی اورکیا ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔