بادشاہت + جمہوریت

زاہدہ حنا  اتوار 13 ستمبر 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وہ ایوب خان کا دور حکمرانی تھا۔ اس زمانے میں شہر کے چنیدہ اسکولوں پر لازم تھا کہ گرمی، جاڑا، برسات جب کوئی سربراہ مملکت کراچی آئے تو اس کے گزرنے کے راستے پر دھلے دھلائے، کلف سے چمکتے ہوئے استری شدہ یونیفارم میں لڑکیاں اور لڑکے نظر آئیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں پاکستانی اور دوسرے ہاتھ میں آنے والے مہمان کے ملک کاجھنڈا ہوتا۔ یہ وہ دور تھا جب نائین الیون جیسے سانحے کا کسی کو گمان بھی نہ تھا۔ دہشت گردی سے لوگ ناواقف تھے اور سربراہان مملکت کا کھلی گاڑیوں میں کسی شہر کی سڑکوں سے گزرنا ایک عام سی بات تھی۔

اس روز ہم پاکستان اور برطانیہ کی جھنڈیاں دے کر وکٹوریہ روڈ پر کھڑے کیے گئے تھے، ہمیں ملکہ برطانیہ کا انتظار تھا، جنھوں نے ہمارے شہر کو یہ شرف بخشا تھا کہ وہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ دور سے تالیوں کی آواز آئی، ہم نے بھی تالیاں بجانی شروع کردیں اور پھر وہ کھلی چھت والی سیاہ لیموزین ہمارے سامنے سے گزر گئی جس میں جنرل ایوب خان اور ملکہ الزبتھ کھڑی ہوئی تھیں۔

ہلکے زرد رنگ کا لباس اور ہونٹوں پر تبسم۔ ملکہ بر طانیہ کا دیدار کوئی معمولی بات تو نہ تھی، جس نے پوچھا ہم نے تفصیل سے اس جلوس کا بیان کیا، اکبر الہٰ آبادی کی طرح یہ نہیں کہا کہ اپنا حصہ دور کا جلوہ۔ یوں بھی اکبر کی مشہور نظم ’دلی دربار‘ میں پڑھ چکی تھی اور اس کا اثر دل پر باقی تھا۔

اس سے پہلے رسالہ ’عصمت‘ میں روح افزا حیدر اور بیگم شائستہ اکرام اللہ سہروردی کے مضامین ملکہ الزبتھ کی تخت نشینی کے جشن کے بارے میں پڑھے تھے۔ قرۃ العین حیدر کا بیان سب سے دلچسپ تھا جنھوں نے ملکہ کی تخت نشینی کے بارے میں لکھا کہ 2 جون کو سویرے سے ٹیلی ویژن پر جشن تاجپوشی دکھلایا جارہا تھا۔

شاہی جلوس سڑکوں پر سے گزر کر ویسٹ منسٹر ایبے پہنچا۔ رسوم تاج پوشی شروع ہوئیں۔ آرچ بشپ آف کنٹربری نے چمچے میں تیل بھر کر اسے ملکہ کے سر پر انڈیلا کہ یہ ’’مسح‘‘ کی قدیم عبرانی روایت تھی۔ (’’مسح‘‘ یعنی  THE ANOINTED ONE) عہد نامہ قدیم میں جگہ جگہ لکھا ہے تُو اپنے سینگ میں تیل بھر کے جا اور فلاں کے سر پر تیل انڈیل کر اسے بادشاہ بنا۔ مسز ہالینڈ نے اتنی محنت سے بے چاری کوئن ایلزبتھ کے بال سنوارے ہوں گے اور لاٹ پادری نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، لے کر چمچہ بھر تیل انڈیل دیا۔ ملکہ بے چاری بہت سہمی ہوئی لگ رہی تھی۔ ایبے کے ہال میں پنڈت نہرو، اندرا گاندھی، اصفہانی صاحب، روح افزا سجاد حیدر، بیگم لیاقت علی خاں، وزیراعظم محمد علی بوگرا مع بیگم اور بریگیڈیئر حامد حسین مع بیگم بھی موجود تھے۔

جس وقت میں یہ مضامین پڑھ رہی تھی یا کراچی کی سڑک پر ملکہ کا جلوس دیکھ رہی تھی اس وقت یہ گمان بھی نہ گزرا تھا کہ زرد لباس میں جس ملکہ برطانیہ کو دیکھا ہے وہ 9 ستمبر 2015 کو 23,225 دن، 16 گھنٹے اور 30 منٹ گزار کر برطانیہ پر حکومت کرنے والی ایک ایسی ملکہ بن جائے گی جس نے دور حکمرانی کی طوالت کے اعتبار سے اپنی سگڑ دادی ملکہ وکٹوریہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

برطانیہ کی 3 ملکاؤں سے برصغیر کا گہرا رشتہ رہا۔ یہ ملکہ الزبتھ اول تھی جس نے 31 دسمبر 1599 کی رات برطانوی تاجروں کے لیے ہندوستان سے تجارت کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ اس کمپنی کا نام ایسٹ انڈیز کمپنی تھا جو بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کہلائی۔ یہ کمپنی ہم سے تجارت کرنے آئی تھی، ہماری نااہلیوں نے اسے یہ موقع دیا کہ وہ ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل جائے۔ آخرکار بنگال، سندھ اور پنجاب اور پورے ہندوستان پر اس کی عملداری ہوگئی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1857 کے بعد حکومت تاج برطانیہ کے سپرد کی۔ یوں ہندوستان ملکہ وکٹوریہ کے تاج کا کوہ نور کہلایا۔ برطانوی نوآبادیات کا یہ سلسلہ دنیا میں اس طرح پھیلا کہ یہ ایک محاورہ بن گیا کہ سلطنت برطانیہ پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ ملکہ وکٹوریہ کو قیصرۂ ہند کاخطاب ملا۔ ملکہ کو اپنی اس نوآبادی کے سفر کا بہت اشتیاق رہا لیکن ان کے یہ ارمان دل ہی میں رہے۔ ملکہ وکٹوریہ نے 1858 میں اپنی ہندوستانی رعایا کے نام ایک فرمان جاری کیا۔ 1857 میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے لڑنے والے ہندوستانیوں کے لیے یہ معافی کا وہ اعلان تھا جس نے بے شمار ہندوستانیوں کے لہو میں طیش کی آگ لگادی لیکن ایسے بھی ان گنت تھے جنھوں نے سکون کا سانس لیا۔

ملکہ وکٹوریہ جنھیں اس زمانے کے کچھ لوگ ’ملکہ ٹوریہ‘ بھی کہتے تھے، وہ اپنی خواہش کے باوجود ہندوستان کی سرزمین پر قدم نہ رکھ سکیں لیکن برطانوی شہنشاہی کے رعب اور دبدبے کے نظارے کے لیے 1877, 1871 اور 1903 میں مختلف ڈیوک اور شہزادے اپنی بیگمات کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہاں انھوں نے دربار لگائے جن میں تمام ہندوستان کے راجے مہاراجے اور نواب دل و جان سے شریک ہوئے۔ وہ خاندان جو ان میں سے کسی دربار میں بھی بلائے گئے تھے، وہ آج تک اس اعزاز پر فخر کرتے ہیں۔ 1903 کے ’دلی دربار‘ کو اکبر الہ آبادی نے اردو ادب میں یادگار بنادیا۔

جشن عظیم اس سال ہوا ہے
شاہی فورٹ میں بال ہوا ہے
روشن ہر اک ہال ہوا ہے
قصۂ ماضی حال ہوا ہے
ہے مشہور، کوچہ و برزن
ہال میں ناچیں لیڈی کرزن

ملکہ وکٹوریہ کی ذات اور ان کے عہد پر مولوی اسماعیل میرٹھی کے علاوہ متعدد دوسرے شعراء کا تہنیتی کلام ملتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تذلیل آمیز شکست کے باوجود ہندوستانی ادیبوں اور شاعروں کی ایک بڑی تعداد ان کا قصیدہ لکھ رہی تھی۔

ملکہ وکٹوریہ کی تخت نشینی کے پچاس برس مکمل ہونے پر ایک شاندار جشن لندن میں ہوا تھا۔ اس گولڈن جوبلی کے موقع پر راجوں مہاراجوں نے ملکہ کو بیش قیمت تحائف پیش کیے۔ ان ہی میں سے آگرہ شہر کا ایک جیتا جاگتا نوجوان عبدالکریم بھی تھا۔

عبدالکریم نوجوان تھا اور نئی باتیں سیکھنے میں بہت تیز تھا۔ اس نے ملکہ کی اتنی وفاشعاری سے خدمت کی کہ وہ انھیں بیٹوں کی طرح عزیز ہوگیا۔ ملکہ نے عبدالکریم سے اردو اور ہندی بولنی سیکھی، اردو پڑھنے اور لکھنے کی بھی کوشش کی جس میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ ملکہ نے 82 برس کی عمر میں انتقال کیا اور آخری پندرہ برس کے دوران عبدالکریم انھیں روزانہ اپنے ہاتھ کی پکائی ہوئی دال، مرغ کا قورمہ اور دوسرے ہندوستانی کھانے پکاکر کھلاتا رہا جن کی ملکہ شیدائی تھیں اور جن کے بارے میں شاہی مطنج میں کام کرنے والوں کا خیال تھا کہ ان کھانوں کی ’’بو‘‘ سے مطنج کی فضا آلودہ ہوتی ہے۔

مرحوم صہبا لکھنوی نے جب اپنے ادبی رسالے ’افکار‘ کا خصوصی شمارہ ’ برطانیہ میں اردو‘ شایع کیا تو اس میں ملکہ وکٹوریہ اور منشی عبدالکریم کی ایک تصویر ہے اور ملکہ نے ٹوٹے پھوٹے انداز میں جو اردو لکھی ہے اس کا عکس بھی دیا گیا ہے۔

ملکہ الزبتھ دوم نے بادشاہت کے جو دن گزارے، وہ بظاہر پرسکون تھے لیکن یہ تو کوئی ان کے دل سے پوچھے کہ یہ دن انھوں نے کس طرح بسر کیے۔ محض ایک اتفاق کے تحت تاج برطانیہ ان کے حصے میں آیا۔ انھوں نے اپنی سگڑ دادی، دادا اور باپ کے عہد کی ایک عظیم سلطنت کو سکڑتے اور سمٹتے دیکھا۔ برطانیہ جو دنیا کی اہم ترین طاقت تھا وہ اب امریکی طاقت و اقتدار کا حاشیہ بردار بن کر رہ گیا ہے۔

اپنی تخت نشینی کے وقت ملکہ الزبتھ دوم دولت مشترکہ کے آزاد خودمختار ملکوں کی رسمی ملکہ کہیں گئیں۔ تاج پوشی کے وقت ان کا جو شاہی لبا س تھا اس پر ہندوستان اور سری لنکا کے کنول کے پھول، پاکستان سے گیہوں کی بالیاں اور کپاس کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ دولت مشترکہ کے دوسرے ملکوں کے نشانات بھی کاڑھے گئے تھے۔

اپنی تخت نشینی سے آج تک کا ہنگامہ خیز زمانہ ملکہ نے تحمل اور بردباری سے گزارا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اپنی ضعیف العمری کے سبب تخت سے اپنے بیٹے یا پوتے کے حق میں دستبردار ہوجائیں گی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنیں لیکن ان کی شان بے نیازی اور نہایت ذمے داری سے اپنے شاہی فرائض کی انجام دہی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

برطانوی پارلیمنٹ دنیا کی قدیم ترین پارلیمنٹ ہے اور وہاں کی جمہوریت کا سارے جہان میں چرچا ہے۔ ایسے میں وہاں کی رسمی بادشاہت حیران کرتی ہے اور دنیا کو یہ بتاتی ہے کہ اگر بادشاہ اور ملکہ اپنے لوگوں کا مزاج سمجھیں، ان کی پسند ناپسند کے دائرے سے باہر نہ جائیں، ان کے حقوق کا احترام کریں تو عوم انھیں اپنے تاریخی تسلسل اور روایات کے حوالے سے زندہ رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔