مذہبی انتہاپسندی اور بھارتی عوام

ظہیر اختر بیدری  پير 30 نومبر 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

جو لوگ مذہبی سیاست کے تباہ کن نتائج سے آگاہ ہیں وہ ہمیشہ عوام کو اس سنگین خطرے سے خبردار کرتے رہے ہیں، بھارت میں بی جے پی کی قیادت جب سے متعصب عناصر کے ہاتھوں میں آئی ہے ہندوتوا کا نعرہ عملی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، گائے کا گوشت فریج میں رکھنے کے الزام میں ایک مسلمان شہری کو قتل کرنے کے بعد پورے ملک میں گائے کاٹنے کے خلاف ایک پرتشدد مہم چلائی گئی، جس کی وجہ سے بھارت میں رہنے والے بیس کروڑ سے زیادہ مسلمان خوف کا شکار ہو کر رہ گئے، اس کے علاوہ تشدد کے دوسرے ایسے واقعات پیش آئے جو بھارت کے دانشوروں،ادیبوں، شاعروں، فنکاروں میں بے چینی کا باعث بن گئے۔ بی جے پی حکومت کی اس سیکولر دشمن پالیسیوں کے خلاف سیکڑوں کی تعداد میں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، فنکاروں نے وہ اعزازات واپس کر دیے جو انھیں ان کی خدمات کے صلے میں بھارت کی ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے دیے گئے تھے۔

یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ شیو سینا کے وحشیوں نے ہندوستان کے صف اول کے فلمی اداکار عامر خان کے خلاف ہنگامہ شروع کر دیا۔ عامر خان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ہندوستان میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس جرم کے خلاف نہ صرف ان کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا بلکہ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی درج کرا دیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ وہ ہندوستان سے نکل جائیں۔ بعض مہاشے تو عامر خان سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ وہ ہندو دھرم اختیار کر لیں یہی نہیں بلکہ بھارت کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار، سلمان خان اور عامر خان کو سانپ کہا جا رہا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی اس عصبیت کی وجہ سے پورے بھارت میں ایک سنسنی پھیلی ہوئی ہے اور مسلمان اپنے آپ کو انتہائی بے بس اور غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ شیوسینا کے رہنماؤں نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف جو خوفناک مہم شروع کر رکھی ہے اگر اسے اسی مرحلے پر نہ روکا گیا تو بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فساد کا خطرہ ہے۔

بی جے پی کے منشور میں بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانا شامل ہے جب تک بی جے پی نسبتاً اعتدال پسند قیادت کے ہاتھوں میں تھی ہندوتوا کا نعرہ دبا ہوا تھا لیکن جب سے بی جے پی پر انتہا پسند ہندو قابض ہو گئے ہیں ہندوتوا یعنی بھارت کو ایک ہندو مذہبی ریاست بنانے کا جنون سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ بھارت کے عوام بھی اس حوالے سے ناقابل معافی نہیں کہ انھوں نے انتخابات میں بی جے پی کی حمایت کی۔ اس غلطی کی سزا آج بھارتی عوام کو یہ مل رہی ہے کہ انھیں 68 سال سے جوڑے رکھنے والا سیکولرازم پس پشت چلا گیا ہے اور اس کی جگہ ایسی مذہبی انتہا پسندی لے رہی ہے جو بھارت کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔ بھارت میں ماضی میں شُدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن یہ تحریکیں مذہبی انتہاپسند گروہوں کی طرف سے چلائی جاتی رہیں جس کی وجہ سے ان کے مضر اثرات بھی محدود تھے، لیکن اب چونکہ ہندوتوا یعنی بھارت کو ہندو ریاست بنانا سرکاری پالیسی کا حصہ بن گیا ہے تو اس کے مضر اثرات پورے معاشرے پر پڑ رہے ہیں۔

پچھلے ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے مسلم ملک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، جس مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہیں، وہ بڑھتے بڑھتے اب ساری دنیا تک پہنچ رہی ہے۔ پاکستان آئینی طور پر ایک مذہبی ریاست ہے لیکن یہاں کے سیاست دان اور فوج نے ہمیشہ پاکستان کو ایک اعتدال پسند لبرل ملک بنائے رکھا، اس حوالے سے سب سے اہم کردار پاکستان کے عوام نے ادا کیا، قیام پاکستان کے بعد سے 2013ء تک ہونے والے عام انتخابات میں انھوں نے مذہبی سیاست کرنے والی تمام جماعتوں کو مسترد کر دیا۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آئینی طور پر مذہبی ریاست میں عوام اور سیاسی پارٹیاں ایک لبرل اور اعتدال پسند ریاست کی حمایت کرتی آ رہی ہیں جب کہ آئینی طور پر سیکولر ملک بھارت میں سیاسی پارٹیاں اور عوام انتہاپسند مذہبی جماعت کو برسر اقتدار لانے کا جرم کر رہی ہیں۔

کسی بھی ملک میں ظلم اور ناانصافی کے واقعات ہوتے ہیں تو عوام حکومت سے رجوع کرتے ہیں لیکن جن ملکوں میں حکومتیں ہی ظلم اور ناانصافی کا ارتکاب کرتی ہیں وہاں انصاف کس سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ بھارت مذہبی انتہاپسندی کے راستے پر جا رہا ہے، اس کا مضر اثر نہ صرف بھارتی عوام پر پڑے گا بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں موجود مذہبی انتہاپسندوں کو بھی شہ ملے گی اور وہ پر پھیلانا شروع کر دیں گے۔ آج ساری دنیا جس مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہے اس کے خلاف مغربی اور ترقی یافتہ ملکوں کے رہنما متحد ہو کر اسے ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ کیا بھارت میں پروان چڑھنے والی مذہبی انتہاپسندی جسے حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہے دنیا کے مستقبل کے لیے خطرہ نہیں؟ اگر ہے تو اس خطرے کے خلاف ساری دنیا کو بھی آواز اٹھانا چاہیے۔ اگر اس رجحان کو ابتدا ہی میں ختم نہ کیا گیا تو یہ آنے والے دنوں میں القاعدہ، داعش اور طالبان بن سکتی ہے۔

مذہبی انتہاپسندی دراصل برتر ماننے کی نفسیات سے شروع ہوتی ہے اور پھر یہ نفسیات دنیا پر غلبہ پانے کی طرف پیش قدمی شروع کر دیتی ہے۔ دنیا کے 57 مسلم ملکوں میں مجموعی طور جتنے مسلمان رہتے ہیں لگ بھگ اتنے ہی ہندو صرف ہندوستان میں رہتے ہیں۔ کیا ان کے سروں میں یہ سودا نہیں سما سکتا کہ ہندو مذہب دنیا کے دیگر مذاہب سے برتر ہے، اگر ایسا ہوا تو پھر کیا دنیا کو ایک اور طاقتور القاعدہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ بھارت میں دانشوروں،ادیبوں، فنکاروں نے ہندو انتہا پسندوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے لیکن جب بھارتی عوام، بھارتی میڈیا انتہاپسندی کے خلاف اس جنگ میں شامل نہیں ہوں گے اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگر بھارت کو متحد رکھنا ہے تو پھر بھارتی عوام کو بی جے پی، آر ایس ایس جیسی تنظیموں کے خلاف کھڑے ہونا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔