کُردوں کے حامی ’’غدار اساتذہ‘‘

رضوان طاہر مبین  اتوار 7 فروری 2016
فوجی کارروائی کے خلاف دستخطی مہم تُرک حکومت کا درد سر بن گئی ۔  فوٹو : فائل

فوجی کارروائی کے خلاف دستخطی مہم تُرک حکومت کا درد سر بن گئی ۔ فوٹو : فائل

ریاست اور رعایا کے درمیان تکرار کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہوگی، جتنی کہ خود باقاعدہ کسی ریاست کے قیام کی تاریخ۔۔۔ نظام حکم رانی خواہ کسی بھی قسم کا ہو، آج بھی دنیا کے ہر دوسرے، تیسرے ملک میں ایسی ہی کسی بے چینی یا شورش کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ کہیں ایک مخصوص حدود اربعہ اور اس میں بسنے والے افراد خود پر حاکم بنے ہوئے گروہوں اور جماعتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، تو کہیں ان کی جدوجہد، ان کے حقوق کی ایک ایسی تحریک بن جاتی ہے، جو ’ریاست‘ کی جانب سے غداری اور بغاوت کے زمرے میں آجاتی ہے۔ بس پھر ریاست کے ’تحفظ‘ کے لیے ان کا قلع قمع کرنا ضروری قرار پاتا ہے۔۔۔

مورخ یہی لکھتا ہے کہ ایسے میں ہمیشہ ہی نام نہاد حب الوطنی میں اندھے دانش وَروں کا ایک ٹولا حاکم وقت کی ہاں میں ہاں میں ملاتا ہے اور جی کھول کر باغیوں کو کچلنے کی حمایت کرتا ہے، اپنے تئیں خدمت وطن کے جذبے سے سرشار ہو کر زہر میں بجھے قلم اور لہجوں سے حقوق مانگنے والوں کو غدار کے خطاب سے نوازتا ہے اور درحقیقت اپنی ہی ریاست کے جغرافیے کی بیخ کنی کرتا ہے۔

تعصب اور نفرت کے عدسوں سے دیکھتے ہوئے ان کے حقوق یا مساوات کے مطالبے کو مسترد کرتا ہے، مگر اس کے برعکس اپنے ذہن کے دریچے کھولے ہوئے کچھ دانش وَر ایسے بھی ہوتے ہیں، جو حاکموں سے احتیاط کا مطالبہ کرتے ہیں اور نہ صرف طاقت وَر سرکار اور مقتدر حلقوں کی مدح سرائی سے منکر ہوتے ہیں، بل کہ ایک قدم آگے بڑھ کر ریاست کے ان ’’غداروں‘‘ کے ہم آواز ہو جاتے ہیں اور ظالمانہ اقدام میں خاموشی کے مجرم ہونے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ اس وقت ترکی میں کُرد شورش کے حوالے سے کچھ ایسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے، تُرک اساتذہ کی ایک تحریک حکومتی کارروائیوں کے خلاف ایک مذمتی یادداشت پر دستخط کر رہی ہے، جس سے حکومت سخت پریشان ہے۔

ترکی اور اس کے ہم سائے ممالک میں کُردوں نے عرصہ دراز سے اپنے حقوق اور خودمختاری کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے، ترکی اس کا ایک بڑا مرکز ہے، کیوں کہ یہاں عراق کے بعد سب سے زیادہ کُرد آباد ہیں، جو یہاں کی سب سے بڑی نسلی اقلیت میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ترکی کے کُرد جنوب مشرقی علاقے میں آئینی اصلاحات کے ذریعے خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے کُردوں کی جانب سے ترکی کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کی جا رہی ہے۔ تُرک حکومت اور ’کردستان ورکزر پارٹی‘ نے 2013ء میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، تاہم گزشتہ برس جولائی سے فریقین ایک بار پھر برسرپیکار ہیں اور ریاست کی جانب سے 30 سال پرانی مسلح بغاوت کے خلاف فوجی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق کردوں کے خلاف اس کارروائی کے نتیجے میں اب تک 160 سے زاید عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ ترک حکام کا دعویٰ ہے کہ کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے کردستان ورکرز پارٹی کے ارکان ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان نے مذکورہ علاقہ کرد جنگجوؤں سے پاک کرنے تک آپریشن جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تُرک حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ اس فوجی کارروائی میں معصوم شہریوں کی جانیں تلف ہو رہی ہیں، تاہم حکومت اس کا الزام مسترد کر کے عام لوگوں کی ہلاکت کا الزام کُرد گروہ پر لگاتی ہے۔

ترک اہلکاروں اور کُرد جنگجوؤں کے درمیان اِس لڑائی کے دوران مختلف پرتشدد کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ اس تنازعے کے دوران جنوب مشرق میں واقع کُرد اکثریتی صوبے  Diyarbakir میں پولیس کی ایک عمارت کے نزدیک ایک گاڑی میں دھماکا ہوا، جس میں چھے افراد ہلاک اور39 زخمی ہوئے۔

ترکی کے کُردوں کے حوالے سے اس نئی کشمکش کے خلاف اساتذہ کی تحریک اِن دنوں خاصی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔۔۔ اور کُرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی پر ایک ’مذمتی یادداشت‘ پر دستخط کرنے والے 12 اساتذہ گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ حراست میں لیے گئے اساتذہ کا تعلق Kocaeli یونیورسٹی سے ہے۔ مذمتی قرارداد کے حوالے سے سیکڑوں لوگوں سے ریاست کے خلاف بات کرنے پر چھان بین کی جا چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مزید نو اساتذہ کے خلاف کاغذی کارروائی کی جارہی ہے اور توقع ہے کہ انہیں بھی حراست میں لیا جائے گا۔

تُرک حکومت نے کُردوں کے خلاف فوجی کارروائی کے خلاف مذمتی یادداشت کو ’’ریاست کی توہین‘‘ اور ’’دہشت گردانہ پروپیگنڈا‘‘ قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس معاملے میں 12 سو ملزمان نام زَد ہیں۔ ان 12 سو افراد کا تعلق 89 مختلف جامعات سے ہے، ان میں امریکی دانش وَر نوم چومسکی David Harvey and Immanuel Wallerstein, سمیت بہت سے مشہور غیرملکی اساتذہ بھی شامل ہیں، کیوں کہ انہوں نے اس مذمتی قرارداد پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔

اس مہم کا عنوان ’’ہم اس جرم کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘‘ (“We won’t be a part of this crime.”) ہے۔یہ اساتذہ جنوب مشرق کے شہر Kocaeli کی ایک جامعہ سے منسلک ہیں، جنہوں نے کہا ہے کہ ہم یہ واضح کر تے ہیں کہ ہم حکومت کے اس جرم پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے اس فوجی کارروائی سے متاثرہ افراد کے لیے ہرجانے اور پرامن تصفیے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

اساتذہ اس دستخطی مہم کے ذریعے تُرک حکام پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ملک کے جنوب مشرقی حصے میں کُردوں کا قتل اور محاصرہ ختم کریں۔ مذمتی یادداشت میں صدر طیب اردگان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ شروع کردی ہے اور کہا گیا ہے کہ موجودہ تکلیف دہ صورت حال اور بحران کی ذمہ داری رجب طیب اردگان پر عائد ہوتی ہے، جو ترکی میں ’صدارتی نظام‘ کے حوالے سے کُردوں کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

ترک وزیراعظم احمد اوغلو اساتذہ کی مذمتی یادداشت کو نہایت افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے کچھ اساتذہ ایسے موقع پر اس یادداشت پر دستخط کر رہے ہیں، جب ہم دہشت گردی کے خلاف نبردآزما اور اپنے شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہمیں روزانہ ہی داعش جیسے بین الاقوامی دہشت گردوں سے برسرپیکار رہنا ہوتا ہے، اس کے ساتھ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیمیں، جو شہریوں اور معصوم بچوں تک کو قتل کرتی ہیں۔

فوجی کارروائی کے خلاف اساتذہ کی تنقیدی مہم پر تُرک صدر طیب ارگان بھی خاصے برہم ہیں۔ تُرک سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس مذمتی یادداشت کو ’خیانت‘ سے تعبیر کیا اور عدلیہ کی مداخلت کی ضرورت پر زور دیا۔ صدر طیب اردگان کے الفاظ میں یہ ان کے خلاف دانش وَروں کے لولے لنگڑے عذر ہیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ جنوب مشرق ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دہشت گردوں اور باغیوں کی جانب سے کی جا رہی ہیں نہ کہ ریاست کی طرف سے۔ طیب اردگان نے اس مہم کو اساتذہ کی جانب سے قابل نفرین عمل اور دہشت گردوں کی طرف داری کا عمل قرار دیا۔

نام وَر امریکی دانش وَر نوم چومسکی نے تُرک صدر پر منافقت کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ ’’ان کے معیار دُہرے ہیں، وہ کھلے عام دہشت گرد تنظیموں کو پیسہ دیتے رہے ہیں۔ ترکی حالیہ استنبول حملوں کا ذمہ دار داعش کو ٹھیراتا ہے اور صدر اردگان مختلف ذرایع سے داعش کو رقوم بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے تُرک صدر پر النصرہ فرنٹ (شام میں سرگرم مسلح گروہ) کی مالی معاونت کا الزام بھی عاید کیا۔۔۔ اور کہا،’’طیب اردگان کُرد مخالف کارروائیوں پر آواز اٹھانے والوں پر برستے ہیں، لیکن عراق اور شام میں داعش کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

حکم راں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کہتی ہے کہ آپ ریاست پر تنقید ضرور کر سکتے ہیں، لیکن اساتذہ کی یہ مذمتی یادداشت غیرمنصفانہ ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی نے بچوں اور شہریوں کو قتل کیا۔ یہ گروہ اپنی آزادی کے لیے 1984ء سے ریاست سے نبردآزما ہے۔ حکم راں جماعت کے ایک رکن Ertan Aydin نے ایک عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کُرد جنگجوؤں کی حمایت میں یہ یادداشت غیرمنصفانہ ہے اور محض ریاست پر تنقید کے مترادف ہے۔

یہ محض مسلح گروہوں سے اظہار ہم دردی ہے۔ یادداشت کا متن امن کے لیے کسی طرح کارآمد نہیں۔۔۔ یہ کھلم کھلا دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس یادداشت میں کالعدم کردستان ورکز پارٹی کے حوالے سے کوئی ذکر خیر ہی نہیں۔ ایک طرف تُرک حکومت ہے تو دوسری طرف مجرمانہ شہرت کے حامل ایک ترک قوم پرست Sedat Peker نے اپنی ویب سائٹ پر ’’نام نہاد دانش وَر‘‘ نامی تحریر میں اس مذمتی یادداشت پر دستخط کرنے والے اساتذہ کو دھمکی دی ہے کہ ان کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں گی۔

ترک حکومت کے خلاف مذمتی یادداشت پر دستخط کرنے والے ایک پروفیسر Cengiz Aktar نے عرب ٹی وی ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا،’’حکومت کی غلط کارگزاریوں کی بنا پر ترکی کا جنوب مشرقی حصہ علیحدگی کی طرف جا رہا ہے۔ ہماری یادداشت اسی کے خلاف ہے۔

روز اول سے ریاست نے کردوں کے مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی ہے، سوائے مختصر سی جنگ بندی کے۔ ہم تشدد کے ایک مرغولے میں آچکے ہیں، پہلے تشدد، پھر انتقامی تشدد۔ یہ خطہ دوسرا کوسوو بن رہا ہے، جو ایک طویل لڑائی کے بعد سربیا سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا۔ اگر اس صورت حال سے بچنا ہے، تو فریقین کو مذاکرات کی طرف آنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے ترکی کے قوانین کو ’’تُرکیت‘‘ کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کسی کی بھی نقطہ نظر اور رائے کے خلاف تفتیش کی جاسکتی ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی بات کو بہ آسانی تفتیش میں شامل اور خارج کیا جا سکتا ہے۔

کُرد قوم چار ممالک میں منقسم
کْردوں کا شمار مشرق وسطیٰ کے ایک اہم نسلی گروہ میں کیا جاتا ہے، کرد زیادہ تر چار ممالک میں تقسیم ہیں۔ جنوب مشرقی ترکی (شمالی کردستان)، مغربی ایران (مشرقی کردستان) شمالی عراق (جنوبی کردستان) اور شمالی شام (مغربی کردستان) میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں کْردوں کی آبادی 40 ملین ہے، جن کی اکثریت مغربی ایشیا میں رہتی ہے۔ سب سے زیادہ کْرد عراقی حدود میں موجود خودمختار کْردستان میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی مشرقی شام میں خود مختار علاقے Rojava میں بھی اس قوم کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ کُرد آبادی کا 68 فی صد ان چار ممالک میں کچھ اس طرح منقسم ہے، عراق میں 23 فی صد، ترکی میں 20 فی صد، شام میں 15 اور ایران میں کُرد آبادی کا 10 فی صد آباد ہے۔

آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے، تو عراق میں یہ کُل آبادی کا 17 فی صد بنتا ہے اور ترکی میں یہ ریاست کی کل آبادی کا 16 فی صد بنتے ہیں، شام اور ایران میں یہ تناسب نو فی صد کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ کرد آرمینیا، جارجیا اور آذربائیجان اور مشرق وسطیٰ سے امریکا یورپ اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کُردوں کے علاقے کو ان کے نام کی مناسبت سے ’’کردستان‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ’کردستان‘ کا سب سے وسیع علاقہ ترکی میں ہے، جس کے بعد ایران، پھر عراق اور شام کے بعد معمولی حصہ آرمینیا کی جغرافیائی حدود میں آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔