ہوائی بگولے سے توانائی کا حصول

عبداللہ محی الدین  بدھ 10 فروری 2016
اگر سائنسدان ایک ایسا بگولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جس میں ہوا کی رفتار مناسب ہو تو کسی بھی ہوائی پن چکی کی مدد سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

اگر سائنسدان ایک ایسا بگولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جس میں ہوا کی رفتار مناسب ہو تو کسی بھی ہوائی پن چکی کی مدد سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا میں آج کل رینیو ایبل توانائی کے حصول پر بہت توجہ دی جا رہی ہے۔ سائنسدان مختلف طریقوں سے قابل تجدید توانائی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ سورج کی روشنی کو استعمال کرکے 2 مختلف طریقوں سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ سورج کی روشنی سے سولر پینلز براہ راست بجلی پیدا کرتے ہیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی اور اس سے پیدا ہونے والی حرارت کو محفوظ کیا جاتا ہے اور اس حرارت سے پانی کو بھاپ میں تبدیل کرکے ٹربائن چلائی جاتی ہے۔ ٹربائن اس کے نتیجے میں جنریٹر کو چلاتی ہے اور یوں بجلی پیدا ہوتی ہے۔

ایک اور جدید طریقہ سولر چمنی کہلاتا ہے۔ سولر چمنی وسیع و عریض رقبہ پر قائم گرین ہاؤس کے طرز پر پھیلی ہوئی چھت ہوتی ہے، جس کے درمیان ایک کالم ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی زمین کو گرم کرتی ہے جس کی وجہ سے ہوا گرم ہو کر کالم کی طرف اٹھتی ہے اور ہوا کی رفتار سے کالم میں موجود ٹربائن چلتی ہے اور یوں بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ طریقہ اگرچہ موثر ضرور ہے مگر اس کے لئے یا تو بہت زیادہ وسیع رقبہ درکار ہوتا ہے یا پھر کالم کی اونچائی زیادہ ہونی چاہئیے۔ ان وجوہات کی بنا پر یہ طریقہ پیدا کی گئی بجلی کو مہنگا کر دیتا ہے۔

گذشتہ چند سالوں سے سائنسدان چند نئے تجربات کر رہے ہیں۔ ان تجربات میں سے ایک تجربہ، ایک قدرتی موسمیاتی عمل کو مصنوعی طریقہ سے پیدا کرکے اس سے بجلی بنانے کا تجربہ ہے۔ وہ قدرتی موسمیاتی عمل ہوائی بگولہ کہلاتا ہے۔ ہوائی بگولہ ایک دھول سے لدا ہوا اور گھومتا ہوا کالم دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کے ہوائی بگولے صحرائی علاقوں میں اکثر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہوائی بگولے نہ صرف ہوا کی رفتار کی وجہ سے اپنے اندر بہت زیادہ توانائی رکھتے ہیں بلکہ ان کے اندر دھول کی موجودگی کی وجہ سے برقی اور مقناطیسی چارج بھی ہوتا ہے۔

سورج کی روشنی سے زمین کا گرم ہونا اور اس گرمی کی وجہ سے ہوا کا گرم ہوکر کسی مرکزی جگہ سے اوپر اٹھنا اور کسی وجہ سے اس اوپر اٹھتی ہوا کو گردش کا مل جانا۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہوائی بگولہ وجود میں آتا ہے۔ مگر اس طرح کے ہوائی بگولے کو مصنوعی طریقے سے پیدا کرنے کے لئے سائنسدان مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ان طریقوں میں سےایک طریقہ تو یہ ہے کہ ایک گول دھاتی پلیٹ کو حرارت پہنچائی جائے اور اس کے چاروں طرف ایک زاویے کے مطابق تختے کھڑے کردئیے جائیں۔

دھاتی پلیٹ کی گرمائش سے اس پر موجود ہوا گرم ہوکر اٹھتی ہے اور اس کی وجہ سے جو ہوا کا کم دباؤ پیدا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے تختوں کے باہر کی ہوا ایک مخصوص زاویے سے گھومتی ہوئی اندر آتی ہے اور یوں ایک گرداب بن جاتا ہے۔ یہ گرداب قدرتی طور پر موجود ہوائی بگولے سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اگر سائنسدان ایک ایسا بگولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جس میں ہوا کی رفتار مناسب ہو تو کسی بھی ہوائی پن چکی کی مدد سے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

پاکستان بھی تھر سمیت ایسےعلاقوں کا حامل ملک ہے جہاں ایسی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے، اگر مستقبل میں ایسی ٹیکنالوجی بننے میں کامیاب ہوگئی جو سستی اور قابل تجدید توانائی پیدا کرے تو پاکستان کے توانائی کے مسائل کے حل کی جانب ایک بڑی کامیابی ثابت ہوسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔