ٹارگٹ کلرز کی عالمی فنڈنگ کا مسئلہ

ایڈیٹوریل  جمعـء 29 جولائی 2016
سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بھی کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بھی کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بلوچستان، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں ملزمان کے ٹرائل کی نگرانی کے لیے مجوزہ کمیٹی فوری طور پر فعال کرنے اورکراچی آپریشن کی نگرانی کے لیے کمیٹی قائم کرنے کی سفارش کردی ہے، پاکستان رینجرزکے کرنل قیصر نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن نہیں کیا جا رہا بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے، ملزمان کو  90دن زیرحراست رکھنے کا اختیار پارلیمنٹ نے رینجرز کو دیا ہے۔

کرنل قیصر نے کہا کہ ایم کیوایم کے خلاف1313، پیپلزامن کمیٹی کے خلاف1035،اے این پی کے خلاف 28آپریشن ہوئے۔ کرنل قیصر کے مطابق ٹارگٹ کلرزکوجنوبی افریقہ، تھائی لینڈ اور برطانیہ سے فنڈنگ جاری ہے۔ سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں اجلاس کے دوران پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے زیر حراست افراد پرتشدد کے الزامات پر بھی تشویش کا اظہارکیا گیا اورکہا گیا کہ زیرحراست افرادکی ہلاکتوں سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہو رہی ہے، حکومت پر زور دیا گیا کہ فوری طور پر اینٹی ٹارچر کنونشن کی توثیق کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کے روبرو پیش کیے گئے اعدادوشمار چشم کشا ہیں اور جو درحقیقت کراچی آپریشن سمیت شہر قائد میں بدامنی اور لاقانونیت کے نتیجہ میں ہونے والی خرابیوں کی روک تھام کے لیے رینجرز کی کارکردگی سے متعلق تفصیل ہے۔

سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بھی کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہا ہے۔ رینجرز کے مطابق کراچی میں 2013 ء کے بعد سے اب تک کل 7950 آپریشن کیے گئے جن میں6361 ملزمان کو پکڑکر پولیس اور 221 کو کسٹم کے حوالے کیا گیا ان میں سے5518 کو بغیر ایف آئی آر درج کیے ہی بعد میں رہا کیا گیا،313  کی ضمانت لے لی گئی، جب کہ188 ملزمان کو سزا ہوئی، اسی رپورٹ میں اس حقیقت کی بھی ایک بار گونج سنائی دی کہ کراچی میں ٹارگٹ کلرز کی عالمی فنڈنگ بند نہیں ہوئی بلکہ آج بھی تھائی لینڈ،جنوبی افریقہ اور برطانیہ سے مجرمان کی مالی معاونت جاری ہے جس سے سنگین صورت حال کے تسلسل اورقانون شکن عناصر کے مالیاتی گٹھ جوڑ کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کراچی یا اندرون سندھ جرائم پیشہ نیٹ ورک اور بے چہرہ مجرموں کی سیاسی سرپرستی کا بنیادی سبب کرپشن اور پیسے کے بل بوتے پر ہونے والی تباہ کن سیاست گردی ہے اور گڈ گورننس کے استقلال اور استقامت کے بجائے مٹھی بھر کرپٹ سیاسی اور جرائم پیشہ عناصر کے گھناؤنے گٹھ جوڑ سے سندھ کے عوام کو جمہوری ثمرات سے محروم رکھا گیا ۔تاہم کمیٹی نے اہم ہدایات جاری کی ہیں جن پر عمل کرکے کراچی اور سندھ سمیت پورے ملک میں شفافیت پر مبنی سیاسی و جمہوری نظام کو تقویت دی جاسکتی ہے اور سیاسی ارتقا اور جمہوری عمل کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ بننے والے غیر جمہوری عناصر کا عمل دخل روکا جا سکتا ہے۔

کمیٹی نے چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کو صائب ہدایت کی کہ وہ کراچی آپریشن کی نگرانی کی مجوزہ کمیٹی کے لیے ٹرمزآف ریفرنس بنائیں جب کہ توہین مذہب قانون کے تحت الزامات کی انکوائری میں بنیادی تبدیلیاں کر کے کم از کم ایس پی سطح کے پولیس افسر سے تفتیش کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی نے کراچی آپریشن کے علاقوں میں مبینہ انسانی حقوق کی پامالیاں روکنے کے لیے پارلیمنٹ کو فعال کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہر حال میں روکی جانی چاہیے۔

اسی طرح تشدد کلچر کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی ملک گیر اقدامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سینیٹر طاہر مشہدی کے بعض تحفظات اور خدشات پر کرنل قیصر نے وضاحت کی کہ کراچی میں سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے الزامات درست نہیں ، انھوں نے کہا کہ رینجرز ڈسپلنڈ فورس ہے جو قانون اور ضابطوں کے اندر رہ کر کارروائی کرتی ہے۔

اگر جرائم میں ملوث کسی شخص کی سیاسی وابستگی ہے تو اور بات ہے ورنہ آپریشن نہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف ہے اور نہ منظم فورس قواعد سے باہر نکل سکتی ہے ، رینجرز کی وردیوں میں کچھ جرائم پیشہ عناصر  وارداتیں کر رہے ہیں تاہم اس ضمن میں کچھ گروہوں کے افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، آپریشن کے دوران رینجرز کی قربانیوں کا کسی نے تذکرہ نہیں کیا، ہمارے30 سپاہی شہید اور89زخمی ہوئے، آفتاب قتل کیس میں عدالتی انکوائری جاری ہے اور انکوائری کی رپورٹ عام کی جائے گی۔

کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیوں کے نتیجہ میں بلاشبہ امن کے امکانات کافی روشن ہوئے ہیں، مگر یہ جدوجہد وقتی نہیں، اس کی کامیابی کے لیے تمام سیاسی شراکت داروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا، دہشتگردی ایک عالمی عفریت ہے جسے صرف کراچی کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے، جمہوری عمل اور ملکی استحکام کے لیے امن ناگزیر ہے اور امن  کے دشمن جب کراچی پر وار کرتے ہیں تو ان کا انداز نظر یہی ہوتا ہے کہ ملک کی شہ رگ پر ضرب لگا رہے ہیں، صرف اسی خیال سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوام کی مکمل حمایت درکار ہوتی ہے اور وہ انھیں ملنی چاہیے۔اسی میں سب کا مفاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔