یہ ہر وقت کی ’سیلفی‘؛ شوق میں توازن کو ہاتھ سے نہ جانے دیں!

سحرش پرویز  پير 26 ستمبر 2016
سیلفی  کیلئے جہاں مرد اور بچے اس ’بخار‘ میں مبتلا ہیں، وہیں خواتین بھی اس شوق کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ فوٹو: فائل

سیلفی کیلئے جہاں مرد اور بچے اس ’بخار‘ میں مبتلا ہیں، وہیں خواتین بھی اس شوق کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ فوٹو: فائل

اپنی تصویر لینا یا ’سیلفی‘ (Selfie) آج کل نہایت زوروں پر ہے۔ جہاں مرد اور بچے اس ’بخار‘ میں مبتلا ہیں، وہیں خواتین بھی اس شوق کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اس حوالے سے دو رائے نہیں کہ تصویریں پرانی یادیں تازہ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔ لوگ زندگی کے مختلف موقعوں کو تصاویر میں قید کر لیتے ہیں اور جب کبھی انہیں اپنے ماضی میں جھانکنا ہو تو انہی تصویروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

کیمرے سے اپنی ہی تصویر بنانے کو ’سیلفی‘ کہتے ہیں۔ ویسے تو یہ عمل نیا نہیں، لیکن ’سیلفی‘ کی اصطلاح 2002ء میں آسٹریلیا کے ایک اخبار میں استعمال کی گئی۔ سیلفی لینے کا سلسلہ کیمرے کی ایجاد کے بعد ہی سے روا تھا۔ تاہم موبائل فون میں کیمرہ آنے کے بعد سیلفی لینا ایک عام سی بات ہوگئی، اور اسے سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) نے اس عمل کو مہمیز کیا۔ پہلے ایک شخص تصویر لیتا تھا، اور اس کے بعد وہ تصاویر دھل کر آتی تھیں، تو پتا چلتا تھا کہ کون کیسا لگ رہا ہے۔ جب بھی وہ تصاویر دیکھی جائیں تو یادیں تازہ ہوجاتیں۔ اکثر تصویر لینے والے کو کم ہی یاد کیا جاتا ہے کہ آخر یہ یادگار لمحہ کس نے تصویر کیا، مگر اب آج کل کی ’سیلفی‘ کے ذریعے نہ صرف تصویریںہاتھ کے ہاتھ دیکھی جاسکتی ہیں، بلکہ تصویر لینے والا بھی بہ آسانی اس تصویر کا حصہ بن سکتا ہے۔

کہنے کو سیلفی لینا کون سا مشکل ہے، مگر اب یہ ایک ایسا فن سمجھا جانے لگا ہے، جس کے لیے لوگ باقاعدہ مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ ایک امریکی جریدے کے مطابق ایک سوشل ویب سائٹ انسٹاگرام پر دس لاکھ سے زائد تصاویر ایسی ہیں، جو صرف ’سیلفیز‘ ہیں اور 91 فی صد تصاویر ٹین ایجرزکی ہیں۔ انٹرنیٹ ویب سائٹ ’یاہو‘ کے اندازے کے مطابق 2015ء  میں اب تک 880 ارب تصاویر لی جا چکی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کی اوسطً 123 تصاویر ہوتی ہیں اور ان میں زیادہ تر سیلفیز ہوتی ہیں۔ ہم اپنے آپ کو ہر موقعے میں تصویر کی شکل میں محفوظ کر دیتے ہیں اور یہ باعث مسرت ہے۔

ہر چیز جہاں ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے، وہیں اس چیز کے دوسرے پہلو بھی ہوتے ہیں۔ ہر چیز ایک حد اور توازن میں ہی بھلی لگتی ہے، توازن سے بگڑی ہوئی اچھی چیزیں بھی پھر ناگوار لگنے لگتی ہیں۔

کچھ خواتین بھی سیلفی کے شوق میں بے حد آگے نکل جاتی ہیں۔ یہ بھی نئی نئی جگہوں پر تصاویر لے کر سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر مشتہر کر کے بے حد مسرور ہوتی ہیں۔ اب سیلفی کے جنون کا یہ حال ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر خطرناک مقامات تک کی سیلفی لی جاتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم سیلفیز کے لیے جی رہے ہیں۔ لوگ بھی بہت سی احماقانہ حرکتوں کی خوب واہ واہ کرتے ہیں، تو اس شوق کو مزید مہمیز ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی خبریں بھی سامنے آتی ہیں کہ خطرناک جگہوں پر سیلفی لیتے ہوئے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اب عمارتوں میں ہنگامی اخراجات  کے راستوں کے ساتھ یہ تنبیہ بھی لکھی ہوتی ہے کہ آتش زدگی یا کسی اور ہنگامی صورت حال میں جلد از جلد باہر نکلیں اور تصاویر لینے سے گریز کریں۔ سیلفی کا یہی شوق عوامی مقامات پر ایسی حرکتیں کرنے اور ایسے خطرات قبول کرنے پر بھی مجبور کر دیتا   ہے اور نتیجہ اکثر فوٹوگرافر کی اپنی موت یا زخمی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اب تک کئی ملکوں میں حکومتیں اورپبلک سیکیورٹی ادارے سیلفی کے جنون کو عوامی سلامتی کے لیے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ متعدد معاشروں میں تو اب اس سلسلے میں عوامی شعور کی بیداری کے لیے باقاعدہ پروگرام بھی شروع کیے چا چکے ہیں۔

سیلفی کا جنون کس طرح اور کن حالات میں جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس طرح سے لگایا جا سکتا ہے کہ روس میں پہاڑ کی چوٹی پر دو نوجوان اس وقت ہلاک ہوگئے، جب انہوں نے ایک دستی بم کی پن نکالتے ہوئے اس کے ساتھ سیلفی بنانے کی کوشش کی!

ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ سیلفی جنون میں مبتلا لوگ ذہنی طور پر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ سیلفی لینے والے لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بہت سی خواتین کا دن کے آغاز سے اختتام تک بس نہیں چلتا کہ ایک ایک لمحے کی سیلفی لے کر دنیا بھر کو اپنی مصروفیات سے آگاہ کیا جائے۔ ناشتا بعد میں ہوگا، پہلے اس کے ساتھ ایک سیلفی بنائی جائے گی،  کھانا کھایا تو اس کی سیلفی، کچھ نہیں تو کبھی کھڑکی اور برآمدے میں کوئی سیلفی لے لی، گھر کے کسی پودے اور کسی الماری کے ساتھ، شادی میں جاتے ہوئے تو گویا سیلفیز کے پورے پورے البم بنا لیے جاتے ہیں۔

سیلفی لینا بے شک ایک مسرت بخش عمل ہوگا، لیکن ہر وقت کی سلیفیز ہمیں خود پسندی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے، جو پھر مجموعی طور پرہماری شخصیت کو خراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کیجیے کہ ہر جگہ سیلفی نہیں لی جاسکتی۔  ہم خوشی، تو خوشی اب غمی کے مواقع پر بھی بے دھڑک سیلفیز لے رہے ہوتے ہیں۔ اسپتالوں سے لے کر کسی کی فوتگی تک میں ایسے مناظر نظر آنے لگے ہیں۔

کبھی یہ ڈر ہوتا ہے کہ کوئی شناسا شخص ہمیں سنجیدہ محفل میں ایسا کرتے ہوا دیکھ کر برا منائے گا، تو اسپتال سے باہر آکر تصاویر بنائی جائیں گی، کسی سے تعزیت کرکے باہر نکلتے ہوئے سیلفیز لے لی جائیں گی یا پھر سنجیدہ سا چہرہ بنا کر گھر سے نکلتے ہوئے  سیلفی بناکر مشتہر کر دی جائے گی کہ ’’فلاں جگہ روانگی‘‘ وغیرہ۔ یہ نہایت غیر مناسب عمل ہے، اس سے ایک طرف ہم نفسیاتی طور پر بدترین خودپسندی کا شکار ہورہے ہیں،تو دوسری طرف ہماری اپنی زندگی میں بھی بناوٹ اور مصنوعی پن بڑھتا جا رہا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ سلیفیز لینے اور پھر سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر اس پر تبصرے پڑھنے  اور جواب دینے میں بھی ہمارا خاصا وقت صرف ہوتا ہے۔ اس لیے دھیان کیجیے کہیں آپ بھی تو اس سیلیفی جنون میں مبتلا نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔