شکار گزشت

رفیع الزمان زبیری  ہفتہ 9 دسمبر 2017

ایک تھے ناصر علی خاں ہندوستان کی ریاست رامپور میں آباد ایک باعزت افغان گھرانے سے تعلق تھا۔ علی گڑھ کے پڑھے تھے۔ مطالعہ کا شوق اور شعر و ادب سے شغف رکھتے تھے ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے لیکن ان کا اصل مشغلہ جنگلی جانوروں کا شکار تھا۔ ’’شکار گزشت‘‘ ان کی شکاری مہمات اور ان میں پیش آنے والے واقعات کی کہانی ہے جس کا پس منظر کوہ نینی تال کے دامن میں پھیلی ہوئی وسیع تراتی اور رامپور کے اردگرد کے گھنے جنگل ہیں۔

وہ لکھتے ہیں ’’شکار کا شوق مجھے بچپن سے تھا، ذکر علی خاں چھوٹے بھائی کو کوئی شوق نہیں تھا وہ کبھی کبھی تفریحاً ہمارے ساتھ چلتے تھے۔ ہمارے پھوپی زاد بھائی بنن خاں شکار کے معاملے میں ہمارے رہنما اور استاد تھے۔ وہ بارہ بور کی بندوق سے ہرن، نیل گائے وغیرہ کا شکار کرتے تھے اور ہم ہوائی بندوق سے فاختاؤں اور کبوتروں کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمارے نشانے میں پختگی آتی گئی اور عمر بھی ایسی آگئی کہ ہم بارہ بور کی بندوق کا خوب استعمال کرنے لگے‘‘۔

نشانے میں پختگی آنے اور بڑی بندوق کے استعمال میں مہارت کے بعد اپنی شکاری مہما کا ذکر کرتے ہوئے ناصر علی خاں لکھتے ہیں ’’شکار خواہ دن کا ہو یا رات کا جب تک جانور اچھی طرح نظر نہ آجائے ہرگز فائر نہیں کرنا چاہیے۔ دن میں گھاس یا جھاڑی کو ہلتے دیکھ کر فائر کردینا یا رات کو جانور صاف نظر آئے بغیر فائر کردینا انتہائی حماقت اور نادانی ہے، جس سے بعض اوقات بہت خطرناک صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ کئی شکاریوں نے رات کے شکار میں اسی طرح بے تکے پن سے کوئی پالتو جانور ماردیا ہے اور پھر وہاں سے بھاگنا پڑا۔ یا بغیر سوچے سمجھے شیر پر فائر کردیا ہے۔

ایک مرتبہ اسی طرح ایک صاحب نے نزدیکی فارم کا کتا ہلاک کردیا تھا اور جب خوشی خوشی وہ اسے ذبح کرنے کو دوڑے تو یہ ماجرا نظر آیا۔ خود میرے ہمراہی ایک صاحب نے محض آنکھیں چمکنے پر پاڑا سمجھ کر فائر کردیا اور جب میں اور وہ دونوں موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ غریب گیدڑ ہے جس کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور وہ زمین پر لوٹ رہا تھا۔ خیریت یہ ہوئی کہ وہ صاحب اس کے بالکل قریب نہیں پہنچے ورنہ شاید ان کی پنڈلی بھنبوڑ لیتا۔‘‘

ناصر علی خاں نے رام پور کے جنگل میں ایک شیر کا قصہ لکھا ہے جو اپنے قد اور جثہ کے لحاظ سے اونٹ کہلایا جاتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میاں عبدالرحمن خاں سپرنٹنڈنٹ پولیس شیر کے مشہور شکاری تھے، بہت شیر مارچکے تھے، انھیں بہت دن سے اس شیر کی جستجو تھی، ایک مرتبہ دوران شکار انھیں کسی چرواہے نے بتایاکہ صاحب دریا کے کنارے کے قریب تلواڑ میں یہ شیر موجود ہے، وہ اس کی گائے مار کر تلواڑ میں لے گیا تھا۔ خاں صاحب کی پارٹی چار ہاتھیوں پر سوار تھی اور پیدل ہانکا والے بھی ساتھ تھے۔

چنانچہ اس تلواڑ کو باقاعدہ گھیر لیا گیا۔ اس کے آخری سرے پر جہاں چند پیڑ بھی تھے شکاریوں کا ایک ہاتھی کھڑا ہوگیا، کچھ شکاری درختوں پر بیٹھ گئے اور تین ہاتھی ہانکا کرنے کے لیے گھاس میں چلنے لگے، ان ہی میں ایک ہاتھی پر میاں عبدالرحمن خاں سوار تھے۔ شیر گھاس کے دوسرے سرے کی طرف چلا، جہاں درختوں اور ہاتھی پر سے اس پر فائر ہوئے، وہ تیزی سے ندی میں کود پڑا جو کوئی تیس گز چوڑی اور کافی گہری تھی اور تیرتا ہوا دوسرے کنارے کی طرف چلا۔ خاں صاحب نے اپنی طاقتور رائفل سے پہلا فائر اس پر پانی میں کیا، جو خالی گیا۔ دوسرا فائر اس وقت کیا جب وہ ندی عبور کرکے کنارے پر چڑھ کر دوسرے جنگل میں چلاگیا۔ ڈھونڈنے کے باوجود کہیں خون کا ایک قطرہ بھی نہ ملا۔ خاں صاحب کو حیرت تھی کہ شیر کیسے بچ گیا۔ حالانکہ انھوں نے دونوں فائر نہایت اطمینان سے اور بہت قریب سے کیے تھے۔ مزید تعجب یہ تھا اور شکاریوں نے جو چھ سات فائر کیے ان میں سے کوئی بھی اس کو نہ لگا۔

ناصر علی خاں لکھتے ہیں ’’ہماری پارٹی رامپور کے ایک جنگل میں شکار کھیل رہی تھی، ایک ہفتے کا کیمپ تھا۔ چار ہاتھی تھے اور خوب شکار ہوتا تھا، مگر کوئی شیر ہاتھ نہیں آیا تھا۔ ایک دن مقامی شکاری کی رہنمائی میں ایک خشک اور اتھلی ندی پر پہنچے۔ قریب کے درختوں پر کوے اور گدھ بیٹھے تھے، لیکن نیچے نہیں اتر رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ اسی خشک ندی میں ایک شیرنی نے رات کو ایک گائے ماری ہے اور کچھ کھاکر وہاں سے چلی گئی ہے۔ درختوں پر گدھ بیٹھے ہیں اور اتر نہیں پارہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ شیرنی وہیں اپنے شکار پر موجود ہے، چنانچہ ایک ہاتھی اس ندی میں اور باقی دونوں کناروں پر لگاکر اس کا گھیرا شروع کیا گیا۔ ہمارا ہاتھی ندی میں تھا، جب ہم گائے کے بالکل قریب پہنچ گئے تو شیرنی ایک جست لگاکر ندی کے اوپر آئی۔

ہمارے ایک ساتھی نے جس کے رخ پر وہ کود کر آئی تھی فائر کیا اور وہ بھاگتی ہوئی سامنے ایک جھیل میں چلی گئی، دوسرے ہاتھیوں پر سے بھی اس پر فائر ہوئے، وہاں سامنے ایک طرف معمولی گھاس، جھاڑیاں اور کھلا میدان تھا، گھنا جنگل تھا، لیکن شیرنی نے اس جھیل میں جانا پسند کیا۔ ہمارے وہ ساتھی جن کا ہاتھی میدان میں تھا، ہم سے پہلے جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ دو فائر ہوئے، جھیل میں سے مرغابیوں کی ٹکری اڑ کر فضا میں چلانے لگی۔ ہم بھی اپنا ہاتھی لے کر ادھر پہنچے تو معلوم ہا کہ فائر مرغابیوں پر نہیں شیرنی پر ہوا تھا۔ جاکر دیکھا تو شیرنی اپنے پاؤں سمیٹے اگلے پیروں پر سر رکھے حملہ کرنے کی پوزیشن میں بیٹھی تھی، اس کی جان نکل چکی تھی، اگر ہمارے پہنچنے پر وہ زندہ ہوتی تو بدترین المیہ پیش آسکتا تھا۔‘‘

ناصر علی خاں اور ان کے ساتھی تو بچ گئے کہ شیرنی کا چند منٹ پہلے دم نکل گیا تھا لیکن مشہور شکاری سر فلپس دھوکے میں آگئے، ان کا قصہ خاں صاحب نے لکھا ہے۔ ہوا یہ کہ سر فلپس پڈا بکری باندھ کر مچان پر بیٹھے۔ ایک شیرنی نے پڈے پر حملہ کیا۔ سر فلپس نے اطمینان سے فائر کیا۔ شیرنی لڑکھڑاتی ہوئی کچھ دور چلی اور جاکر گرگئی۔

صاحب بہادر نے اپنے ساتھیوں کو آواز دینا ضروری نہیں سمجھا، خود پیڑ سے اترے اور شیرنی کے پاس جا پہنچے۔ شیرنی جو مردہ پڑی ہوئی تھی ایک دم کھڑی ہوگئی اور سر فلپس کی کہنی منہ میں پکڑلی۔ اس حال میں شکار اور شکاری چند گز چلے اور پھر شیرنی بے دم ہوکر گرپڑی۔ سر فلپس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اپنے سیدھے ہاتھ سے محروم نہیں ہوئے اور بہترین علاج اور نگہداشت سے ان کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا، یہاں تک کہ وہ ٹینس کھیلنے کا اپنا شوق بھی پورا کرتے رہے۔

ناصر علی خاں نے ’’شکار گزشت‘‘ میں ایک اور دلچسپ واقعہ لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں ’’ایک راجا صاحب پالکی میں سوار تشریف لے جارہے تھے، ساتھ میں ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ راستے میں جنگل پڑتا تھا۔ اتفاق سے ایک شیر نمودار ہوگیا۔ غریب کہار پالکی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ راجا صاحب نے پالکی کے پٹ بند کرلیے لیکن بہادر اے ڈی سی نے شیر کو ہلاک کردیا اور پالکی کا دروازہ کھٹکھٹا کر راجا صاحب سے کہا! حضور دروازہ کھول دیں ہم نے شیر کو مارلیا ہے۔ راجا صاحب نے دروازہ کھول دیا۔ مردہ شیر دیکھ کر خوش ہوئے اور پوچھا کہار کہاں ہیں؟ اے ڈی سی نے جواب دیا حضور وہ تو پالکی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، اب آتے ہوںگے۔ راجہ صاحب نے کہا مجھے ایسے نمک حراموں کی ضرورت نہیں، کل سے میری پالکی بھی تم ہی اٹھاؤ گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔