- کراچی کے سمندر میں پُراسرار نیلی روشنی کا معمہ کیا ہے؟
- ڈاکٹر اقبال چوہدری کی تعیناتی کے معاملے پر ایچ ای سی اور جامعہ کراچی آمنے سامنے
- بیٹا امریکا میں اور بیٹی میڈیکل کی طالبہ ہے، کراچی میں گرفتار ڈاکو کا انکشاف
- ژوب میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، پاک فوج کے میجر شہید
- آئی ایم ایف کا ٹیکس چھوٹ، مراعات ختم کرنے کا مطالبہ
- خیبرپختونخوا حکومت کا اسکول طالب علموں کو مفت کتابیں اور بیگ دینے کا اعلان
- وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ تحائف کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی
- پاکستان نے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو شکست دیکر سیریز اپنے نام کرلی
- اسلام آباد میں شہریوں کو گھر کی دہلیز پر ڈرائیونگ لائسنس بنانے کی سہولت
- ماؤں کے عالمی دن پر نا خلف بیٹے کا ماں پر تشدد
- پنجاب میں چائلڈ لیبر کے سدباب کے لیےکونسل کے قیام پرغور
- بھارتی وزیراعظم، وزرا کے غیرذمہ دارانہ بیانات یکسر مسترد کرتے ہیں، دفترخارجہ
- وفاقی وزارت تعلیم کا اساتذہ کی جدید خطوط پر ٹریننگ کیلیے انقلابی اقدام
- رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں معاشی حالات بہترہوئے، اسٹیٹ بینک
- شاہین آفریدی پیدائشی کپتان ہے، عاطف رانا
- نسٹ کے طلبہ کی تیار کردہ پاکستان کی پہلی ہائی برڈ فارمولا کار کی رونمائی
- مخصوص طبقے کو کلین چٹ دینے کیلیے نیا پروپیگنڈا تیار کیا جارہا ہے، فیصل واوڈا
- عدالتی امور میں مداخلت مسترد، معاملہ قومی سلامتی کا ہے اسے بڑھایا نہ جائے، وفاقی وزرا
- راولپنڈی میں معصوم بچیوں کے ساتھ مبینہ زیادتی میں ملوث دو ملزمان گرفتار
- دکی میں کوئلے کی کان پر دہشت گردوں کے حملے میں چار افراد زخمی
سیاسی ڈیڈ لاک کا حل تلاش کریں
جمہوری نظام کو چلتے چلتے ایک غیر معمولی، قدرے دلچسپ لیکن تشویش ناک صورتحال کا سامنا ہے کہ جس پارلیمنٹ کی بالادستی کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ، جسے قومی و بین ا لاقوامی ایشوز اور عوامی مسائل پر قانون سازی کا آئینی حق حاصل ہے اور جہاں آزادانہ پارلیمانی بحث کے نتیجے میں ملک کے اہم فیصلے ہوتے ہیں ۔
پیر کو اسی سپریم پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت اور اداروں کے آئینی دائرہ کار سے متعلق بعض اہم سوال اٹھائے ہیں، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ منتخب نمایندوں کو نازیبا القاب سے پکارنا قبول نہیں،انھوں نے ججوں کے طرز عمل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں ورنہ ملک کا نقصان ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس اور اپنی صدارت میں ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کی موجودہ صورتحال کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لیے کسی صدمے اور دھچکے سے کم نہیں، تصادم کی طرف بڑھنے کے جو امکانی خطرات ہیں وہ کسی کے لیے فائدہ مند نہیں، ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، بظاہر عدلیہ اور حکومت کے مابین ایک کشمکش ہے مگر اسے جلد آئین و قانون کی روشنی میں حل ہونا چاہیے، کیونکہ اس تناؤ سے عوام پریشن ہیں، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری رک گئی ہے، پاکستان مخالف قوتیں ملک کو واچ لسٹ پر رکھنے کے جتن کررہی ہیں اور ہم آپس میں دست وگریباں ہیں، حکومت عملاً مفلوج ہے، کاروبار سیاست و معیشت سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، ملکی کو داخلی اور خارجی چیلنجز درپیش ہیں۔
ستر سال کے جمہوری اور غیر جمہوری ارتقائی سفر کے تجربات کے بعد ملکی سیاست کو جمہوری نظام کی استقامت اور اداروں کی یکجہتی اور ہم آہنگی کی بہترین نظیر پیش کرنی چاہیے تھی، لیکن قوم منفی کلائمکس دیکھ رہی ہے جس نے اس کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اس وقت تک چل ہی نہیں سکتی جب تک ریاستی اداروں کے مابین مثالی ہم آہنگی، سیاسی بصیرت ، کشادہ نظری ، خیر سگالی اور صحت مند تعلقات کار کا تسلسل جاری نہ رہے اور یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوں تو کوئی خلفشار، بحران ، کشیدگی اور انارکی پیدا ہونے کا کوئی خدشہ یا امکان نہیں رہتا تاہم اگر صورتحال ایسی پیدا ہو بھی جائے تو جمہوریت میں مضمر میکنزم ایسی خرابیوں کے ازالے کا از خود آئینی اور جمہوری فورم پارلیمنٹ ہے۔
جہاں عوام کے منتخب نمایندے ایک کثیر جہتی گریٹر مکالمے سے دیگر ریاستی اسٹیک ہولڈر کے ساتھ اپنے معاملات قومی امنگوں کے مطابق طے کرلیتے ہیں، مگر آج کی اندوہ ناک صورتحال دوسرے رخ پر چلی گئی ہے جو بادی النظر میں غصہ ، ضد ، برہمی اور عدم برداشت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے، پیمانہ صبر لبریز ہے، جب کہ ضرورت ریاستی اداروں کے مابین یکجہتی، اتحاد ، افہام و تفہیم، اور ملک میں سیاسی استحکام کی ہے، انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ سمیت میڈیا کے اشتراک عمل سے ملک کو ایک وے آؤٹ اور سیف ایگزٹ ملنا چاہیے، سیاست دان اور حکمران ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھیں۔
وزیراعظم نے اپنے کلمات کی بنیاد اس استدلال پر رکھی ہے کہ ہم نے آئین کے دفاع کا عہد کیا ہے، آئین میں تمام اداروں کی حدود کا تعین ہے تو کیا پھر اس ایوان کو قانون سازی کا حق نہیں؟ اداروں کے درمیان جب بھی کشمکش ہوئی تو اس میں ملک کا ہی نقصان ہوا، ان کا شکوہ تھا کہ سرکاری افسران کو عدالتوں میں طلب کرکے بے عزت کیا جاتا ہے، حکومتی پالیسیوں کی نفی کی جاتی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اداروں کے تصادم میں ملک کا نقصان نظر آ رہاہے، وزیراعظم کے خطاب کے بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم سب نے مل کر اس ایوان کا تقدس پامال کیا ہے۔ ہمیں حق ہے کہ عوام کی بہتری کے لیے جو قانون سازی ہو سکے ، تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ججز پر پارلیمنٹ میں بات کرنے کے لیے پہلے آئین میں قانونی ترمیم ضروری ہے، سیاسی حلقوں کے مطابق موجودہ صورتحال پورے سسٹم کی بقا کا سوال بن کر سامنے آیا ہے۔
بلاشبہ حکومت اپنے آخری اوورز کا کھیل کھیل رہی ہے، ماحول کی بے یقینی ختم ہونا ضروری ہے، ریاستی ستون سے وابستہ اکابرین اس ڈیڈ لاک کا حل بلا تاخیر نکال سکتے ہیں، وزیراعظم کا گلہ اپنوں سے ہے، عدلیہ فعالیت کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے، ملک کو کرپشن سمیت لاتعداد مسائل کا سامنا ہے لہذا انا کی جنگ یا ٹکراؤ سے گریز دانشمندی ہوگی اور اسی پارلیمنٹ اور عدلیہ کو مشکل سے نکلنے کے لیے کوئی ٹھوس تدبیر کرنی چاہیے۔ بعض حلقوں نے پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی کی تجویز پیش کی ہے جو موجودہ بحران کا کوئی پائیدار آئینی اور جمہوری حل تلاش کرے۔ یاد رہے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اداروں میں ہم آہنگی کی صائب تجویز پہلے ہی پیش کرچکے تھے اگر اس پر عمل ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔