علم، شرف انسانی کا نشان

ماہ طلعت نثار  جمعـء 13 جولائی 2018

رب کائنات نے اپنے بندوں پر بے شمار احسانات کیے ہیں، جن میں سے ایک عظیم احسان علم کی دولت ہے۔ اسی علم کی دولت کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا گیا، اسی علم کی بنا پر رب کائنات نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ علم ہی عظمت کی بنیاد ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ساری کائنات انسان کے لیے مطیع و مسخر کردی۔

سرور کائنات احمد مجتبیٰ ﷺ پر پہلی وحی جو نازل ہوئی اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے قلم کے ذریعے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

مفہوم: ’’پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون کی پھٹکی سے، پڑھ اور تیرا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ (سورۃ العلق)

اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک عالم اور جاہل برابر نہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘

ویسے تو تمام انسان اللہ کے بندے ہیں مگر وہ لوگ جو زیورِ علم سے آراستہ ہوتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک زیادہ مقرب و محبوب ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ علم کے نور سے منور ہوجاتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

مفہوم: ’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے گا۔ ‘‘ (سورۃ المجادلہ) یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو انسان نور ایمان سے منور ہوکر اپنی فکری اور علمی قوتوں سے کام لیتے ہیں انہیں دنیوی اور اخروی کام یابی سے ہم کنار کرے گا۔

حضرت معاذ بن جبل ؓ نے حضورؐ سے علم کے بارے میں ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس سے علم کی ضرورت اور اہمیت پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے۔

آپؐ کے ارشادات عالیہ کا مفہوم اور خلاصہ یہ ہے : ’’علم حاصل کرو، اللہ کے لیے علم حاصل کرنا نیکی ہے۔ علم کی طلب عبادت ہے، اس میں مصروف رہنا تسبیح اور بحث و مباحثہ جہاد ہے۔ علم سکھاؤ تو صدقہ ہے۔ علم تنہائی کا ساتھی، فراخی اور تنگ دستی میں راہ نما، غم خوار دوست اور بہترین ہم نشین ہے۔ علم جنت کا راستہ بتاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علم ہی کے ذریعے قوموں کو سربلندی عطا فرماتا ہے۔ لوگ علماء کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ دنیا کی ہر مخلوق ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے۔ علم میں غور و خوض کرنا روزے کے برابر ہے اور اس میں مشغول رہنا نماز کے برابر ہے۔ علم ہی کے ذریعے انسان معرفت الٰہی حاصل کرسکتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو علم حاصل کرتے ہیں اور بدقسمت اس سعادت سے محروم رہتے ہیں۔

ایک مسلمان کے لیے تین اقسام کے علوم کا حاصل کرنا بے حد ضروری ہیں۔ اول علم دین، دوم علم طب اور سوم علم معاش یعنی وہ علوم حاصل کرنا جس پر معاش کا دار و مدار ہو، یہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔ دنیا میں جس قدر پیشے یا ہنر ہیں وہ سب اسی علم کے شعبے میں آتے ہیں۔ انبیائے کرامؑ کسب معاش کے علوم سے بھی منسلک تھے۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی تھے، انہوں نے بہت بڑی کشتی تیار کی تھی۔ حضرت ادریسؑ خیاط یعنی درزی تھے۔ حضرت ہودؑ تاجر تھے۔ حضرت ابراہیمؑ گلہ بان اور کسان تھے۔ حضرت داؤدؑ کو آہن گری میں کمال حاصل تھا، وہ تلواریں اور زرہ بکتر بنایا کرتے تھے۔ خاتم النبین حضرت محمد  ؐ بھی گلہ بان اور تاجر تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت میں علم ایک ضروری وصف ہے یعنی صرف پڑھا لکھا ہی نہیں بل کہ علم سے مراد وہ علم جس سے انسان کے اندر سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی، بلند نگاہی اور مسائل کے حل کرنے کا ملکہ پیدا ہوجائے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام کی صفات بیان ہوئی ہیں۔

مفہوم: ’’ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو حکمت اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت دی۔‘‘

علم کی اہمیت کا اندازہ حضرت سرور کائناتؐ کے اس قول سے بہ خوبی ہوجاتا ہے۔

’’ بے شک میں معلم بناکر مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو پوری انسانیت کے لیے معلم اعظم بناکر بھیجا، کیوں کہ انسانیت کا شرف علم ہی سے وابستہ ہے۔ اسی بنا پر انسانیت کو علم کی دولت سے سرفراز کرنے والی شخصیت کو معلم بناکر بھیجا گیا۔ علم ایک ایسا چراغ ہے جس سے لوگ روشنی حاصل کرتے ہیں۔ معلم اعظم ﷺ کی ہر بات، ہر عمل اور ہر ادا قابل تقلید نمونہ ہے۔ یہی وہ عظمتِ معلم اعظم ﷺ ہے جس کے سامنے تخت و تاج بھی جھکے رہے، یہ اسی کا فیض تھا کہ اتنے قلیل وقت میں دنیا کی کایا پلٹ دی اور جہالت کی تاریکی کو اجالے سے تبدیل کردیا۔

حضرت لقمان نے ایک موقع پر اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

مفہوم: ’’بیٹے علماء کی صحبت میں رہو اور ان کے قرب کے ہمیشہ خواہاں رہو، کیوں کہ اللہ حکمت و دانش کے نور ہی سے دلوں کو زندہ کرتا ہے، جیسے زمین بارش سے زندگی اور نمو حاصل کرتی ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ معلم کا مقام اسلام میں بہت بلند ہے۔ حضور سرور کونینؐ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ کہ : ’’میرے بعد سب سے زیادہ سخاوت کرنے والا وہ شخص ہوگا جس نے علم سیکھا اور اس کو آگے پھیلایا۔‘‘

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے : ’’ قیامت کے روز شہیدوں کا خون اور علماء کے قلم کی روشنائی باہم تولے جائیں گے تو علماء کے قلم کی روشنائی کا وزن شہیدوں کے خون سے زیادہ نکلے گا۔‘‘

اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ علم کی تلاش میں نکلو اور حکمت کے موتی جہاں کہیں بھی ملیں انہیں حاصل کرو۔ دین اسلام نہ صرف اپنے ماننے والوں کو بل کہ تمام بنی نوع انسان کو بھی فکر و عمل کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو مسخر و مطیع کردیا، اب جس قدر غور و فکر اور تحقیقات میں اضافہ ہوگا اسی قدر فضیلت میں بھی اضافہ ہوگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ خداوند عالم نے ہمیشہ حکومت و سلطنت سے اسی قوم کو نوازا ہے جو علم و عمل میں دوسری اقوام کے مقابلے میں بہتر تھی۔ جب ہم تاریخ عالم پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہی اصول کار فرما نظر آتا ہے۔ جب اہل یونان علمی میدان میں فائق تھے تو دنیا کی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ مصر بغداد اور قرطبہ کے تعلیمی ادارے اپنی مثال آپ تھے۔ اہل یورپ اپنی جہالت دور کرنے کے لیے سرزمین اندلس کا رخ کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے علمی میدان میں کام کرنا چھوڑ دیا اور عیاشیوں میں کھو گئے، تحقیق کی جگہ اندھی تقلید اور عمل کی جگہ بے عملی کو اپنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو غلام بنادیا۔ ہم اسلام سے دور ہورہے ہیں۔ مسلمانان عالم علم کی اہمیت و فضیلت کو بھول گئے ہیں، ہم علم سے دوری کی بنا پر باہمی خانہ جنگیوں کے شکار ہوگئے ہیں، کفر و الحاد کے مقابلے کے لیے ہماری قوت پاش پاش ہوگئی ہے۔ اب ہم صرف عربی و عجمی نہیں بل کہ مصری، شامی، عراقی، ایرانی، حجازی، یمنی اور قطری میں بٹ گئے ہیں۔

اب ہمیں اگر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو علمی اور عملی میدان میں آگے بڑھنا ہوگا ورنہ ترقی یافتہ اقوام کی غلامی اور سام راج سے نجات پانا مشکل ہے۔ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا شعور نہ ہو۔ اگر آج بھی ہم اپنے سارے اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجائیں تو ایسی قوت بن کر ابھریں گے کہ کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد کا مشاہدہ بھی نظر آنے لگے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں علم کی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔