- گورنر خیبرپختونخوا کے اپنی رہائشگاہ ’’کے پی کے ہاؤس‘‘ آنے پر پابندی
- حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
- نقل مافیا اور آپریشن راہ راست
- یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں، منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے، چیف جسٹس
- پی ایس ایل سے آئی پی ایل کا ٹکراؤ؛ فرنچائزز نے مخالفت کردی
- حماس سے جھڑپوں، حزب اللہ کے راکٹ حملے میں اسرائیلی فوجی سمیت 2 ہلاک، 5 زخمی
- پی ایس ایل کا مذاق؛ بھارتیوں کے پیروں تلے زمین نکلنے لگی
- فلسطین کے حامی مظاہرین کا برطانیہ میں اسرائیلی ڈرون ساز فیکٹری کے باہر احتجاج
- تحریک انصاف کا 9 مئی مقدمات میں دہشت گردی کی دفعہ چیلنج کرنے کا فیصلہ
- اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی، انڈیکس 75 ہزار کی سطح عبور کرگیا
- سیکورٹی خدشات؛ اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور
- بابراعظم نے کوہلی کے ریکارڈ پر بھی قبضہ جمالیا
- کراچی میں نوجوان نے ڈاکو کو ماردیا، فائرنگ کے تبادلے میں خود بھی جاں بحق
- ایک اوور میں 25 رنز؛ بابراعظم کا ایک اور ریکارڈ
- 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنائیں یا ہمیں فوری سزائیں سنائیں، شیخ رشید
- وزن کم کرنے والے انجیکشن قلبی صحت کے لیے مفید، تحقیق
- ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کرنے والا پلانٹ
- 83 سالہ خاتون ہاورڈ سے گریجویشن کرنے والی معمر ترین طالبہ بن گئیں
- پاکستان سے دہشتگردی کیخلاف کوششیں بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے، امریکا
- پراپرٹی لیکس نئی بوتل میں پرانی شراب، ہدف آرمی چیف: فیصل واوڈا
ٹوئٹ پرنٹ کرنا ہوا آسان
انٹرنیٹ نے جہاں دنیا کو ’’گلوبل ولیج ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے تو دوسری طرف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے کروڑوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ اور سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹس میں ’’ٹوئٹر‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ٹوئٹر کی سب سے خاص بات یہ ہے۔
اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر اعلیٰ حکومتی عہدے داروں تک زیادہ تر شخصیات ٹوئٹر کے استعمال کو ترجیح دیتی ہیں۔ سیلیبریٹیز یا اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کے ٹوئٹر پر کیے گئے ’’ٹوئٹ‘‘ کو ذرائع ابلاغ اپنی خبر کا حصہ بناتے ہیں تو دوسری طرف ان کے مداح ان کی جانب سے ٹوئٹ کے منتظر رہتے ہیں۔ لیکن یہ ’’ٹوئٹ‘‘ محض ویب سائٹ کی حد تک ہی موجود ہوتی ہے اور چاہتے ہوئے بھی اسے آپ صحیح طریقے سے کاغذی شکل میں محفوظ نہیں کر سکتے تھے۔
لیکن! اب کمبریا کے ایک ویب ڈویلپر نے پرانے ساز و سامان سے ’’ٹوئٹر ٹیپ‘‘ مشین بنا لی ہے جو کسی بھی ’’ٹوئٹ‘‘ کو کاغذ کے فیتے پر پرنٹ کر سکتی ہے۔ ٹوئٹر ٹیپ کے خالق ایڈم ویگن(Vaughan) کا کہنا ہے کہ مجھے تاریخ سے بہت دل چسپی ہے اور ’’ٹکر ٹیپ مشین‘‘ کے کام کرنے کے طریقۂ کار سے میں بہت متاثر تھا۔ اور میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب اس جیسی مشین سے کیا چیز پرنٹ ہوسکتی ہے جو دورجدید کی اہم ضرورت بھی ہو اور محض کاغذ کے فیتے پر پر نٹ کے لیے موزوں بھی ہو۔
ایڈم کا کہنا ہے کہ کافی سوچ بچار کے بعد صرف ایک ہی نام میرے ذہن میں آیا اور وہ تھا ’’ٹوئٹر‘‘، لیکن اصل مسئلہ ’’ٹکر ٹیپ مشین‘‘ کے حصول کا تھا کیوں کہ 1867میں بنائی گئی اصلی ’’ٹکر ٹیپ مشین‘‘ کا شمار اب انتہائی منہگے نوادرات میں ہوتا ہے۔ ٹکر ٹیپ مشین پر اس دور میں ٹیلی گراف لائنوں کے ذریعے حصص کی قیمتیں پرنٹ کی جاتی تھی۔
تاہم اس بات نے میرے حوصلے پست نہیں کیے اور میں نے مختلف نوعیت کا پرانا سامان اکٹھا کرنا شروع کردیا، جن میں پرانی گھڑیاں، فرنیچر اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ تمام سامان جمع کرنے کے بعد مجھے ’’ٹوئٹرٹیپ‘‘ بنانے میں تین ماہ کا عرصہ لگا۔ ایڈم کا کہنا ہے کہ ’’ٹوئٹر ٹیپ ‘‘ ایتھر نیٹ کیبل کے ذریعے کمپیوٹر سے منسلک ہونے کے بعد مشین کی لکڑی سے بنی بیس میں موجود تھرمل پرنٹر اور مائیکرو کنٹرولر کی مدد سے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ہر تیس سیکنڈ بعد ٹوئٹ پرنٹ کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں اس مشین میں ایک کنٹرول پینل بھی شامل کرنے کا ارادہ ہے جس کی مدد سے استعمال کنندہ کسی مخصوص ’’ہیش ٹیگ‘‘ یا بیک وقت کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ پرنٹ کر سکے گا۔ تاہم اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹوئٹر کی پالیسی ہے، کیوں کہ ٹوئٹر نے API(ایپلی کیشن پروگرام انٹرفیس) کو اپ ڈیٹ کرکے تھرڈ پارٹی ڈیولپرز کی رسائی بند کردی ہے۔ جس سے اس کام میں پیچیدگی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ایڈم نے بتایا کہ جب میں ’’ٹوئٹر ٹیپ‘‘ بنانے کے خیال کا ذکر اپنے دوستوں اور گھر والوں سے کیا تو سب نے میرا بہت مذاق اڑایا تھا لیکن اب وہ سب میری ’’ٹوئٹرٹیپ‘‘ مشین میں بہت دل چسپی لینے کے ساتھ ساتھ میری حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔