- عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں، ورنہ ابہام بڑھ رہا ہے، فیصل واوڈا
- حسن علی کو تیسرا ٹی20 کیوں کھلایا؟ بابر نے وجہ بتادی
- جھوٹی خبروں کیخلاف نیا قانون تیار ہے صحافیوں کو اعتراض ہے تو رجوع کریں، پنجاب حکومت
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت بڑھ گئی
- دبئی لیکس میں بھارتی سب سے آگے؛ مودی کے دوستوں کی جائیدادیں بھی نکل آئیں
- ورلڈکپ اسکواڈ کا اعلان کیوں نہیں ہوا؟ رمیز راجا سلیکشن کمیٹی پر برہم
- وزیراعلی پنجاب نے لاہور میں 36 ارب کے ترقیاتی کام روک دیے
- گورنر خیبرپختونخوا کے اپنی رہائشگاہ ’’کے پی کے ہاؤس‘‘ آنے پر پابندی
- حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
- نقل مافیا اور آپریشن راہ راست
- یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں، منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے، چیف جسٹس
- پی ایس ایل سے آئی پی ایل کا ٹکراؤ؛ فرنچائزز نے مخالفت کردی
- حماس سے جھڑپوں، حزب اللہ کے راکٹ حملے میں اسرائیلی فوجی سمیت 2 ہلاک، 5 زخمی
- پی ایس ایل کا مذاق؛ بھارتیوں کے پیروں تلے زمین نکلنے لگی
- فلسطین کے حامی مظاہرین کا برطانیہ میں اسرائیلی ڈرون ساز فیکٹری کے باہر احتجاج
- تحریک انصاف کا 9 مئی مقدمات میں دہشت گردی کی دفعہ چیلنج کرنے کا فیصلہ
- اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی، انڈیکس 75 ہزار کی سطح عبور کرگیا
- سیکورٹی خدشات؛ اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور
- بابراعظم نے کوہلی کے ریکارڈ پر بھی قبضہ جمالیا
- کراچی میں نوجوان نے ڈاکو کو ماردیا، فائرنگ کے تبادلے میں خود بھی جاں بحق
انسان بارودی سرنگیں کیوں بن جاتے ہیں؟
پراگ میں پیتل سے بنے مجسمے ایک ترتیب میں رکھے گئے ہیں ۔نڈھال ، سر تسلیم خم ، پر یشان حال اور شکستہ بدن ، پہلا مجسمہ صحیح سالم مگر آگے یہ ہی شخص کٹتے کٹتے معدوم ہوجاتاہے،آخر میں اس شخص کاصرف پاؤں رہ جاتاہے ان مجسموں کے خالق اوبرام زوک ہیں۔
یہ مجسمے ماضی میں چیک ری پبلک میں ہونے والی جبر کی کہانی سنارہے ہیں دو لاکھ سے زیادہ افراد گرفتار ہوئے اور 4500جیلوں میں دم توڑ گئے تقریبا ایک لاکھ 70ہزار افراد کو جلا وطن کیا گیا 248 افراد کو پھانسیاں اور 327کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران گولیا ں ماری گئیں۔
جبر کی کہانی نہ گونگی ہوتی ہے اور نہ ہی لنگڑی وہ نہ صرف بولتی رہتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتی بھی رہتی ہے وہ کہانی چاہے قبل از مسیح کی ہو یاماضی قریب کے یا موجودہ دورکی ، وہ اپنا سفر برابر جاری رہتی ہے اور اپنی کہانی سناتی رہتی ہے اس کو روک دینا انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اس کہانی کے کردار کبھی نہیں مرتے ہیں وہ برابر اپنی کہانی سناتے رہتے ہیں برابر روتے رہتے ہیںبرابر چلاتے اور چیختے رہتے ہیں،اس لیے کہ ان کی تکلیف اور اذیت ختم ہی نہیں ہوپاتی ہے۔
یہ سفر اس وقت تک اسی طرح جاری رہے گا جب تک وقت مرنہیں جائے گا اور جب تک وقت مر نہیں جائے گا اور جب وقت کو موت آجائے گی تب و ہ کردار خدا کے سامنے اپنی اپنی کہانی سنائیں گے ،خدا کے سامنے روئیں گے اور پھر خدا جو فیصلہ سنائے گا وہ سب جاننے والے جانتے ہیں،جبر کے ہاتھوں مرنے والوں کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی ہیںوہ اس جگہ منڈلاتی رہتی ہیں،اسی لیے ان جگہوں پر ایک ایسی وحشت اور دہشت طاری ہوتی ہے کہ انسان کادل وہاں سے دور بھاگ جانے کو کرتا ہے۔
آئیں !ہم اپنی جبر کی کہانی سنتے ہیں ہماری سماج میںجبر سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہے وہ سب انسان بے وقت ، بے موت مار دیے گئے بغیر کسی جرم اور گناہ کے وہ موت کی سزا کے حق دار قرار دیے گئے۔
موت کی یہ کہانی آج بھی ہمارے سماج کے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں باربار دہرائی جارہی ہے ہر محلے ، ہر گلی کو چے میں معصوم ، بے گناہ ، بے سبب بغیر کسی جرم کے بغیر کسی بات پر بغیر کسی قصور کے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں کوئی بھوک اور غربت کی وجہ سے کوئی بے روزگاری کی وجہ سے ،کوئی بیماری کے سبب ،کوئی روٹی کی وجہ سے، کوئی انتہاپسندی ، عدم مساوات کے ہاتھوں ، کوئی ظلم اور ناانصافی کے ہاتھوں قبر میں سلایا جارہاہے اور موت بانٹنے والے یہ سوچے سمجھے اور جانے بغیر کہ انھیں اپنی ایک ایک زیادتی ، ناانصافی ، ظلم و ستم کاحساب دنیامیں ہی دینا ہوگا۔
مسلسل موت تقسیم کرنے میں مگن ہیں جب خدا کسی کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتاہے تو یقین جانو وہ انسان عذاب میںمبتلا کردیا گیا ہے ایسے عذاب میں جو مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ فرعون اور قارون کو مرے صدیاں بیت چکی ہیں، ہلاکو خان ، ہٹلر ، مسولینی ، شاہ فرانس کو مرے سالوں ہو چکے ہیںلیکن وہ آج بھی عذاب کی قید میں ہیں ۔ یاد رکھیںجب کسی کانام سن کر کسی انسان کو کراہت آجائے۔
انسان بے اختیار کسی کو بددعا کرنے لگ جائے اس کے دل سے آہ و بکا کی چیخیں نکلنا شروع ہوجائیں تو یقین کرلو اس پر عذاب جاری ہے ۔ میرے ملک کے با اختیاروں ، طاقتوروں ، سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اورامراء کو دیکھ کر یا تمہارا ذکر سن کر ملک کے ناداروں ، بے کسوں ، بے بسوں ، غریبوں ، بھوکوں، بیماروں کے دل سے تمہارے لیے بددعائیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں آہ و بکائوں کا سلسلہ شروع ہوجا تاہے ہاتھ خود بخود آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔
مدر ٹریسا نے ایک بار کہا تھا ’’ ان بیس برسوں میںلوگوں کے درمیان رہ کر کام کرنے کے دوران میں اس بات کا زیادہ احسا س ہوا ہے کہ کسی انسان کا غیر ضروری ہوجانا ایسی خراب بیماری کے برابر ہے انسان کو جس کا کبھی تجربہ بھی نہیں ہوسکتا۔ انھیں یقین ہے کہ آج کل کی خراب ترین بیماری کوڑھ یا تپ دق نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ اس کی اب کسی کو ضرورت نہیں رہی جس کو ہر شخص بے یارو مددگا ر چھوڑدے ۔‘‘
1969کا نوبیل امن حاصل کرنے والے ادارے International Labor Organization کے منشور میں کہاگیا ہے ’’اگر آپ امن کے خواہش مند ہیں تو انصاف کاشت کیجیے ، مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے کھیت بھی تیار کیجیے جن میںزیادہ روٹی پیدا کی جاسکے ورنہ امن باقی نہیں رہے گا۔‘‘ یہ اعتراف کہ بھوک اور سماجی بد نظمی ایک دوسرے سے منسلک ہیں نئی بات نہیں عہد نامہ عتیق میں اس کا ثبوت موجود ہے ’’ اور یہ سب تو گذر جائے گا مگر جب وہ بھوکے ہوں گے تو وہ خود کو خراب کریں گے اور اپنے بادشاہ اور اپنے خدا کو بدعا ئیں دیں گے۔ ‘‘
FAO کے پہلے ڈائریکٹر جنرل اور نوبیل انعام یافتہ لارڈ جان بائیڈآدر کے کے مشہور الفاظ تھے ’’ امن بھوکے شکم پر تعمیر نہیں کیاجاسکتا ‘‘ جس ماحول میں مفلسی ور محرومیوں کا راج ہو وہ امن کے لیے کبھی ساز گار نہیں ہوتا جہاں تعلیم کی اور آگاہی کی کمی ہو وہاں امن فروغ نہیں پاتا ، جبر و تشدد ، ناانصافی اور استحصال امن کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیںمفلسی کا دکھ امیر کو کھٹاتا ہے اور مفلسی کی نجات امیر کو بڑھاتی ہے اس لیے آج جو لوگ پاکستان میں طاری موت جیسی خاموشی پر مطمئن ہیں۔ان سے زیادہ ناسمجھی کی مخلوق دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر جب کروڑوں انسانوں میں یہ احساس اپنی جگہ بنالے کہ وہ سب کے سب غیر ضروری ہیںتو ایسے انسان چلتی پھرتی بارودی سرنگیں بن جاتے ہیںجو کہیں بھی پھٹ سکتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔