- سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 6 دہشت گرد ہلاک
- وزیراعظم کا ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان
- لاہور میں سفاک ماموں نے بھانجے کو ذبح کردیا
- 9 مئی کے ذمہ داران کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرانا چاہیے، صدر
- وزیراعلیٰ پنجاب کی وکلا کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خلاف مہم پر توہین عدالت کی کارروائی کیلئے بینچ تشکیل
- پہلے مارشل لا لگانے والے معافی مانگیں پھر نو مئی والے بھی مانگ لیں گے، محمود اچکزئی
- برطانیہ میں خاتون ٹیچر 15 سال طالبعلم کیساتھ جنسی تعلق پر گرفتار
- کراچی میں گرمی کی لہر، مئی کے اوسط درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹ گیا
- زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم
- سائفر کیس: انٹرنیٹ پرموجود لیکڈ آڈیوز کو درست نہیں مانتا، جسٹس گل حسن اورنگزیب
- عمران خان نے چئیرمین پی اے سی کے لیے وقاص اکرم کے نام کی منظوری دیدی
- سوال پسند نہ آنے پر شیرافضل مروت کے ساتھیوں کا صحافی پر تشدد
- مالی سال 25-2024کا بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں پیش کیے جانے کا امکان
- کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے نئی ویکسین کی آزمائش
- بیوی کی بے لوث خدمت، شوہر 10 سال بعد کومے سے زندگی کی طرف لوٹ آیا
- بجلی کی قیمت میں دو روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافہ
- کراچی : تین ڈاکو پولیس اہلکار سے بائیک چھین کر فرار، چوتھا زخمی حالت میں گرفتار
- افغانستان میں طالبان ملٹری کی گاڑی دھماکے میں تباہ؛ 6 ہلاک اور 8 زخمی
- 2014ء کے دھرنے کی انکوائری کے لیے تیار ہوں، عمران خان
سیاسی جماعتوں کی ترجیحات اور سماجی شعبہ
پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر تنقید بہت ہوتی ہے اورہونی بھی چاہیے ۔ کیونکہ لوگوں کی توقعات اپنے حکومتی نظام ، سیاسی جماعتوں اوران کی قیادت سے ہوتی ہے ۔ سیاسی قیادت سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ لوگوں کی توقعات کے مطابق ان کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑیں گی ۔
جب ملک میں کوئی قدرتی آفات یا حادثات رونما ہوتے ہیں تو ایسے میں سیاسی قیادت اور سیاسی کارکنوں کی فعالیت ہی ان جماعتوں کی ساکھ کو قائم کرتی ہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں سیاسی جماعتیں ایک گروہ کی طرح ہیں۔ اول سیاسی جماعتوں کا بڑ ا بحران یہ ہے کہ وہ نچلی سطح پر اپنا ووٹ بینک تو رکھتی ہیں مگر تنظیمی طور پر ایک کمزور ڈھانچوں کی صورت میں نظر آتی ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کی عملی تنظیم کم اور ایک فین کلب یا ہجوم زیادہ غالب نظر آتا ہے ۔ دوئم سیاسی جماعتوں کی فعالیت ہمیں انتخابات کے دوران ہی دیکھنے کو ملتی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ یہ عوامی سطح پع یا سماجی مسائل پر ان کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے ۔
بہت کم سیاسی جماعتیں سیاست سے ہٹ کر سماجی مسائل پر براہ راست کام کرتی ہیں۔ان کے پاس فلاح کے کوئی منصوبے بھی نہیںہوتے ہیں جو لوگوں کی معاونت کرسکیں ۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست عبادت بھی ہے یا سیاست کا مقصد عوامی خدمات کو یقینی بنانااور عوام مسائل کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں سیاست نہ تو کسی عبادت کے طور پر ہوتی ہے او رنہ ہی اس میں کوئی اصول ، نظریات کی کوئی بالادستی ہوتی ہے ۔ یہاں سیاست خالصتا مفادات کے گرد گھومتی ہے۔
سیاسی جماعتوں میں کوئی باقاعدگی سے سماجی شعبہ جات یا سماجی کاموں کی ترجیحات نہیں ہوتی اورسیاسی جماعتیں سماجی کاموں جن میںتعلیم ، صحت، صاف پانی جیسے اہم مسائل کو نظرانداز کرتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی اس ملک میں ہمیں کسی بھی نوعیت کے حادثات دیکھنے کو ملتے ہیں تو سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام او رکارکردگی بڑے پیمانے پر سوالیہ نشان کے طور پر ابھرتی ہے ۔
حالیہ دنوں میں ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں جس بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اس میں بھی سیاسی جماعتیں بہت ہی برے طریقے سے بے نقاب ہوئی ہیں ۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس متاثرین کو ریلیف دینے کا کوئی عمل موجود ہی نہیں ہے۔ متاثرین کی سطح پر فوری امداد کی ترسیل کے لیے سیاسی جماعتوں کی تنظیم کی فعالیت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماسوائے دینی جماعتوں کے جن میں سرفہرست جماعت اسلامی کے میدان میں ’‘ الخدمت‘‘ کا شعبہ ہے ۔ یہ واقعی ایک اہم ادارہ ہے جس نے اپنی ساکھ نہ صرف قائم کی ہوئی ہے بلکہ ان کے پاس رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد جو تربیت یافتہ ہے موجود ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں میں سب سے زیادہ نمایاں کام عملا جماعت اسلامی کے شعبے الخدمت میں نظر آیا ہے ۔اسی طرح بہت سے علاقوں میں تحریک لبیک پاکستان اور دعوت اسلامی کی جانب سے بھی ایک بڑی خطیر رقم او ربراہ راست مدد گاری یا سہولت کا ری کے طور پر موجود رہے ہیں ۔ ٹی ایل پی یعنی تحریک لبیک پاکستان اور دعوت اسلامی کے شعبوں نے بھی برائے راست متاثرین سیلاب کی مدد کی ہے لیکن بڑی قومی سیاسی جماعتیں کدھر ہیں اورکیونکر اس وقت سیلاب متاثرین کی مدد میں نظر نہیں آرہیں ۔کیا سیاست محض ووٹ لینے یا اقتدار کا نام ہے ۔
اصل میں سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کا براہ راست تعلق ہی مقامی مسائل کے حل سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی کے مقامی علاقوں میں شفا خانے ہوا کرتے تھے جہاں دس روپے کی پرچی پر ماہر ڈاکٹر چیک بھی کیاکرتا تھا اور دوائی بھی دی جاتی تھی بالخصوص جماعت اسلامی کے لوگ بیوائوں، یتیموں او رمسکینوں کے لیے مختلف طرز کی امداد فراہم کرتے ہیں۔
جب ہم یہ دہائی دیتے ہیں کہ یہاں سیاست اور جمہوریت زیادہ مضبوط نہیں او رلوگوں کا بھی اس سے رشتہ کمزور ہے تو اس کی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ سیاسی جماعتوں کا عوام سے تعلق کا نہ ہونا ہے ۔ جب لوگ سیاسی جماعتو ں یا سیاسی جماعتیں لوگوں کو تسلیم نہیں کریں گے تو سیاست او رجمہوریت کا مستقبل مخدوش ہوگا۔ سیاست پارٹ ٹائم کام نہیں جو سیاسی جماعتیں عملاً میدان میں یا لوگوں میں کام کرتی ہیں، وہ ایک مستقل مزاجی سے جڑا عمل ہے ۔اس لیے آج پاکستان کی سیاست کو عوامی مفادات کے تناظر میں ایک نئی جہت اور نئی فکر درکار ہے ۔ ہمیں روائتی سیاسی جماعتیں یا خاندانی سیاست نہیں درکار بلکہ جدیدیت کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔
لوگ یقینا سیاسی جماعتوں کی ان معاملات میں دلچسپی چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو حادثات سے بچاو او رسماجی شعبہ میں خدمات انجام دینے کے لیے باقاعدہ اپنی جماعتوں میں ٹاسک فورس یا رضا کاروں کا نیٹ ورک بنانا ہوگا ۔ ہماری سیاسی قیادتیں او رجماعتیں آج کی بے ہنگم ، محاذآرائی ، الزام تراشی اور کردار کشی کی سیاست سے باہر نکل کر اہم بنیادی مسائل پر کام کریں یہ ہی پاکستان او رجمہوریت کے مفاد میں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔