- حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی
- نقل مافیا اور آپریشن راہ راست
- یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں، منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے، چیف جسٹس
- پی ایس ایل سے آئی پی ایل کا ٹکراؤ؛ فرنچائزز نے مخالفت کردی
- حماس سے جھڑپوں، حزب اللہ کے راکٹ حملے میں اسرائیلی فوجی سمیت 2 ہلاک، 5 زخمی
- پی ایس ایل کا مذاق؛ بھارتیوں کے پیروں تلے زمین نکلنے لگی
- فلسطین کے حامی مظاہرین کا برطانیہ میں اسرائیلی ڈرون ساز فیکٹری کے باہر احتجاج
- تحریک انصاف کا 9 مئی مقدمات میں دہشت گردی کی دفعہ چیلنج کرنے کا فیصلہ
- اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ ساز تیزی، انڈیکس 75 ہزار کی سطح عبور کرگیا
- سیکورٹی خدشات؛ اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست منظور
- بابراعظم نے کوہلی کے ریکارڈ پر بھی قبضہ جمالیا
- کراچی میں نوجوان نے ڈاکو کو ماردیا، فائرنگ کے تبادلے میں خود بھی جاں بحق
- ایک اوور میں 25 رنز؛ بابراعظم کا ایک اور ریکارڈ
- 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنائیں یا ہمیں فوری سزائیں سنائیں، شیخ رشید
- وزن کم کرنے والے انجیکشن قلبی صحت کے لیے مفید، تحقیق
- ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کشید کرنے والا پلانٹ
- 83 سالہ خاتون ہاورڈ سے گریجویشن کرنے والی معمر ترین طالبہ بن گئیں
- پاکستان سے دہشتگردی کیخلاف کوششیں بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے، امریکا
- پراپرٹی لیکس نئی بوتل میں پرانی شراب، ہدف آرمی چیف: فیصل واوڈا
- کراچی کے سمندر میں پُراسرار نیلی روشنی کا معمہ کیا ہے؟
ایسی بھر پور تیاری تو کبھی نہ تھی
حکایت کچھ یوں سنی تھی؛ ایک خاندان کو اللہ تعالیٰ نے مال و اسباب ، اولاد اور طاقت سے نواز رکھا تھا مگر پھر چاہا کہ انھیں آزمائے۔
انسانی شبیہ میں دو فرشتے خاندان کے سربراہ کے پاس آئے اور مدعا بیان کیا کہ حکم ہے تمہیں آزمایا جائے۔ بزرگ نے پہلے تو اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اپنی نعمتوں سے اسے نوازا ۔ پھر کچھ تفصیل جاننے کی کوشش کی کہ کب اور کیسے؟ جواب ملا ہمیں حکم ملا ہے کہ تمہیں نا اتفاقی، بیماری، بھوک اور افلاس سے آزمائیں۔
بزرگ کچھ سوچ کر دوبارہ بولے۔ کچھ گنجائش یا رعایت؟ جواب ملا؛ ہاں یہ کر سکتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک آزمائش کو روکا جا سکتا ہے۔ بزرگ نے کچھ وقت مانگا کہ خاندان سے مشورہ کرلوں۔ کچھ دیر بعد بزرگ دوبارہ آئے اور بولے؛ ہم نے مشورہ کیا ہے۔ ہمارے پاس اتفاق رہنے دیں، باقی امور میں جیسے آپ چاہیں، انشاء اللہ آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے۔ آنے والوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، شفقت سے قدرے مسکرائے اور جواب دیا؛ اگر اتفاق تم نے رکھ لیا تو پھر آزمائش کاہے کی!
یہ حکایت ہمیں والد مرحوم اکثر سنایا کرتے۔ جب کبھی ہم بھائی آپس میں الجھتے تو وہ ہمیں ایسی حکایات سنایا کرتے ، مقصود یہ تھا کہ زندگی کے معمولات اور اپنے خاندان کی وحدت کا ہمیں اس وقت احساس ہوتا ہے جب یہ معمول درہم برہم ہو جائے۔ آپس میں اتفاق نہ رہے، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں، حسد سکون برباد کر دے اور رزق کی بے برکتی سے زندگی بے مزہ ہو جائے۔
صدیوں سے پروان چڑھے ہمارے کلچر میں ایسی حکایتیں اور روایتیں اپنے اندر زمانے کے تجربات اور عمومی فہم کا نچوڑ ہیں۔ اردو اور فارسی کے شاہکار ادب میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم و فاضل نے حکایتوں کے پیرائے میں زندگی کے انفرادی اور قومی رموز اس قدر آسانی سے سمجھائے کہ نسل در نسل ان سے استفادہ ہوتا رہا ، بلکہ آج بھی وہ ادب ترو تازہ اور بر محل لگتا ہے۔
یہ حکایت ہمیں یوں یاد آئی کہ ایک نامور تجزیہ کار نے سوال کیا کہ اب جب کہ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام بحال ہو گیا ہے، روپے کی قدر کیوں بحال نہیں ہو رہی۔ کیوں؟عرض کیا کہ سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں روپے کی قدر مستحکم ہوگی اور نہ ہی کوئی اور استحکام یہاں قدم جما سکے گا۔
اپوزیشن حکومت کو طعنہ دیتی ہے کہ بارہ کلومیٹر کے علاقے کی وفاقی حکومت ہے، حکومتی اتحاد کی سنیں تو انھیں ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ یہی اپوزیشن پارٹی دکھائی دیتی ہے۔ سیلاب قدرتی آفات میں سے ایک ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں پہلے ہی سے غربت نے جا بجا پاؤں پسار رکھے ہیں،وہاں سیلاب عوام کے لیے دوہرا وبال لے کر آیا ہے لیکن کیا کیجیے کہ سیلابِ بلا بھی سیاسی اشرافیہ کے دل پگھلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔
بیان بازی کی حد تک صبح شام یہی راگ سننے کو ملتا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں سیلاب زدگان کی داد رسی کا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں وزیر اعظم جہاںبھی گئے صوبائی حکومت کے ساتھ کوئی تال میل دکھائی نہیں دیا۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ سیلاب زدگان کی داد رسی میں بھی سیاسی اشرافیہ اکٹھا ہونے کو تیار نہیں۔
وزیر ِ اعظم سندھ میں ہوں تو ان کی اتحادی جماعت کے وزیر اعلیٰ اور بلاول زرداری بھٹو ان کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب میں وزیر اعظم کی ہمراہی ان کے سیاسی حلیفوں نے کی مگر صوبائی حکومت نے پہلوتہی برقرار رکھی۔ اسی طرح عمران خان سکھر گئے تو ان کے ساتھ ان کی پارٹی کے سندھ کے لیڈرز موجود تھے مگر سندھ حکومت کی نمایندگی غائب۔ پی ٹی آئی پی ڈی ایم سے بات کی روادار ہے اور نہ پی ڈی ایم کو پی ٹی آئی کا وجود گوارا ہے۔ سیاسی کھلواڑ اب عدالتوں کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔
ٹیکنیکل ناک آوٹ اور نااہلی پی ڈی ایم کی حیات کے مترادف ہے جب کہ جلسیاتی عوامی جوش و خروش اور سوشل میڈیا پر یلغار پی ٹی آئی کی حیات ہے۔ ایسے میں ڈیفالٹ سے بچنے کی کوشش میں قرضوں کا پہاڑ مزید بلند ہوگیا ہے، روپے کی گرتی ہوئی شرح مبادلہ ، مہنگائی اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کا نباہ اب دم نکالنے کے در پئے ہے ۔ تباہ حال معیشت، بے یقینی کے راج اور نا اتفاقی کے سیلاب میں سیاسی استحکام اور معاشی استحکام کیوں کر آئے گا! بلکہ تین کروڑ سے زائد سیلاب زدگان کی بحالی کے دشوار مرحلے کے دوران جاری سیاسی کھلواڑ ملک کی معیشت اور عوامی زندگی کے لیے ایک مکمل نیا سیلابِ ہے یعنی A perfect Storm ۔ خدا خیر کرے مگر ہم خود پر خیر کے موڈ میں نہیں ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔