بلوچستان کے ڈیتھ اسکواڈ

اسلم خان  ہفتہ 29 ستمبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ بلوچ قوم پرستی کے الائو کو جذباتی نعروں اور جھوٹے دعووں سے دہکایا جا رہا ہے۔ جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح فوج ہے ،اسی جرم میں ہدف ِملامت کہ اپنے، پرائے سب اِس پر طعنہ زن۔ اور وہ بھی جن کے ابھی دودھ کے دانت نہیں گرے، بلا سوچے سمجھے شریر بچوں کی طرح اس کا منہ چڑا رہے ہیں۔

اسے اُکسا رہے ہیں، وہی فوج جو عاقبت نااندیش جرنیل پرویز مشرف کی وجہ سے فاٹا سے بلوچستان تک مختلف اندرونی محاذوں پر اُلجھی ہوئی حالت جنگ میں ہے ——- اور اب اِسے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دوبارہ کراچی میں اُلجھانے کی مذموم سازش کی جا رہی ہے۔ فوج کو گالی دینا لونڈوں لپاڑوں کا کھیل بن گیا ہے۔

جس کے منہ میں جو آتا ہے بک دیتا ہے نہ کوئی روک ٹوک، نہ کوئی پوچھنے والا ——– اور ایسا کرنے والے یہ بھولے ہوئے ہیں کہ خلا کبھی نہیں رہتا۔ یہ قانون فطرت کے اٹل اُصولوں کے خلاف ہے۔ اس لیے یاد رکھیں اگر پاکستان کی فوج نہیں ہو گی تو کوئی اور فوج اس کی جگہ لینے آ جائے گی۔ اس لیے اپنی فوج کے ساتھ گزارا کرنا ہی دانشمندی ہو گی۔

جہاندیدہ بلوچ سردار عطا اللہ مینگل نے بھی یہی بات کہی کہ پاکستان کی آزادی کسی غیر کی غلامی سے تو بہتر ہے۔ وہ مینگل سردار جس کا سینہ اپنے جواں سال بیٹے اسد اللہ کی جدائی کے غم سے تار تار ہے، وہی اسد اللہ مینگل جسے 1976میں کراچی سے اغواء کر کے غائب کر دیا گیا تھا۔

آج اُسی مغوی کا جواں سال چھوٹا بھائی سردار اختر مینگل، جس کے بالوں میں چاندی اُتر چکی، جو ان کی شخصیت کو وقار عطا کرتی ہے۔ معصوم چہرے والا یہ سردار، بلوچستان کا وزیر اعلیٰ رہ چکا ہے۔

امن اور انصاف کی تلاش میں تین سال کی جلا وطنی ختم کر کے انصاف کے سب سے بڑے ایوان میں کھڑا آخری فریاد کر رہا تھا ، ’’میرے بڑے بھائی سردار اسد اللہ مینگل کو اُن کے دوست عامر شاہ کے ہمراہ 1976 میں کراچی سے اغواء کر کے ہمیشہ کے لیے غائب کر دیا گیا۔

وہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ’’گم شدہ نوجوان‘‘ تھا اگر یہ سلسلہ اُسی وقت روک دیا جاتا تو شاید موجودہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔اختر مینگل نے عدالت عظمی میں الطاف قریشی کی مرتب کردہ بھٹو مرحوم کے نوٹس پر مشتمل کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ کی نقول بطور ثبوت پیش کیں۔ جس میں اسداللہ مینگل کے اغواء اور قتل کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا تھا۔ اخترمینگل نے کہا کہ جمہوری نمایندوں، ریاستی اداروں اور فوجی قیادت سے انصاف ملنے کی توقع نہیں۔

صرف سپریم کورٹ ظلم و بربریت کے گھپ اندھیروں میں اُمید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے پہلی بار ملزم نہیں معاون کے طور پر حاضر ہوا ہوں۔

اختر مینگل نے حکومت کی موجودہ حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کبھی تو بلوچ عوام سے معافی مانگی جاتی ہے لیکن جن گناہوں اور جرائم پر معافی مانگی جا رہی ہے، اُن کا ارتکاب اب بھی جاری ہے اور کبھی بلوچ عوام کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ ہمارے کن گناہوں پر عام معافی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

وہ بتا رہے تھے کہ اسلام آباد اور کوئٹہ کی افسر شاہی نے 4 فٹ کے نقشے کو بلوچستان سمجھ رکھا ہے۔ صوبائی حکمرانوں کے لیے گورنر، وزیر اعلیٰ ہائوس اور زرغون روڈ بلوچستان ہیں وفاقی نہیں، صوبائی وزراء بھی سیکڑوں ہزاروں میل میں پھیلے ہوئے ’’مقتل‘‘ میں جانے کی ہمت نہیں رکھتے۔

جواں سال سردار نے فوج اور سلامتی کے دیگر اداروں کا نام لے لے کر سنگین الزامات عائد کیے کہ مشرقی پاکستان کی ’’الشمس اور البدر‘‘ کی طرز پر بلوچستان میں بھی ڈیتھ اسکواڈ قتل عام کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے سیاسی جدوجہد کا راستہ بند کر کے فوجی فیکٹریوں میں تیار کردہ روبوٹ سیاستدان تیار کیے جا رہے ہیں۔

ڈیتھ اسکواڈ، وزراء کی رہائش گاہوں سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ڈیرہ بگٹی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ حکومت نے ڈیرہ بگٹی میں ایک نواب اکبر بگٹی کی جگہ 18سرداروں کو پگڑیاں پہنا دی ہیں اور اکبر بگٹی کے وارث اُن کی قبر پر فاتحہ پڑھنے نہیں جا سکتے۔

راندہ درگاہ مشرف کے دور میں کہا جاتا تھا کہ بداَمنی میں بلوچستان کے تین سردار ملوث ہیں لیکن اب جو مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں وہ کسی سردار کے بیٹے کی تو نہیں، عام بلوچوں کی ہیں ۔ آخر میں انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ’’اگر ہم باہم مل جل کر ایک خاندان بنا کر نہیں رہ سکتے تو ہمیں احسن طریقے سے طلاق لے لینی چاہیے بجائے اس کے خون خرابے سے علیحدگی ہو۔‘‘

جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل بنچ، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں اختر مینگل کو خراج تحسین پیش کر رہا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’’اختر مینگل دھرتی کا بیٹا ہے، یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لندن سے یہاں پہنچا ہے۔

ہم اغوا کاروں کو، قاتلوں کو ہر قیمت پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ جس کے لیے ہم آخری حد تک جائیں گے۔ ہم اُن کے ذاتی طور پر مشکور ہیں۔ ان کی عدالت میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آج بھی وفاق پاکستان کے وفادار ہیں۔

دوران ِ سماعت ایک بلوچ قانون دان نے وفاق کے نمایندے اٹارنی جنرل عرفان قادر کے ناروا رویے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گھر سے لڑنے کے لیے آئے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے واضح کیا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کے پابند ہیں ہم مجرموں کو آئین کے آرٹیکل 10 کے تحت کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا دیں گے کیونکہ اگر پاکستان ہے تو یہ عدالت اور ہمارے باقی ماندہ 14 کولیگ آئین کے تحفظ کے لیے ہیں لیکن اگر پاکستان ہی نا رہا تو پھر نہ یہ عدالت ہو گی اور نا ہی کوئی آئین رہے گا۔

گزشتہ روز 28 ستمبر کے تمام اخبارات کے صفحہ اول سپریم کورٹ کی کارروائی سے بھرے پڑے تھے لیکن بلوچستان کی صورتحال کے تناظر میں ڈیتھ اسکواڈز کا ذکر تو تھا مگر ’’اَلشمس اور البدر‘‘ کا تذکرہ موجود نہیں تھا۔ یہ کالم نگار خود کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ اختر جان مینگل کے بعد جسٹس جواد ایس خواجہ نے البدر اور الشمس کا ذکر اپنی آبزرویشن میں دہرایا۔

لیکن عدالت عظمیٰ میں اس اہم ترین مقدمے کی سماعت کرنے والے نوجوان رپورٹروں کو غالباً کچھ علم نہیں تھا کہ البدر اور الشمس کون تھے! ان بنگالی نوجوانوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ کیوں اور کس طرح بھارتی جارحیت اور مکتی باہنی کا مقابلہ کیا۔ یہ کون جوان ِرعنا تھے جو متحدہ پاکستان پر اپنی جانیں نچھاور کر گئے۔

اور آج اسی پاکستان میں قاتل قرار پائے اور ڈیتھ اسکواڈ بنا دیے گئے۔ اختر مینگل کے بقول بلوچستان میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز میں کتنے بلوچ نوجوان اپنے باغی بھائیوں کی سرکوبی کر رہے ہیں شاید ایک بھی نہیں۔

مرحوم مشرقی پاکستان کے آخری دنوں میں البدر کے نوجوان مستقبل کے ہولناک منظر کی واضح جھلک دیکھتے ہوئے بھی بنگالی قوم پرستی کے طوفان کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ وہ مشرقی پاکستان کے اُردو بولنے والے بہاریوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے کہ بنگالی تھے۔ فوج حالت جنگ میں تھی اس لیے بنگالی ہونے کی وجہ سے اُس کا ہدف بھی بن جاتے۔

جب کہ مکتی باہنی اور بنگالی قوم پرستوں کے ساتھ تو اُن کی کھلی جنگ تھی۔ جناب والا! یہ تھے متحدہ پاکستان کے وفادار بنگالی نوجوان، میرے بھائی، اسلامی چھاتروشنگھو کے جانباز!الشمس مسلم بنگال میں متحدہ پاکستان کی حامی دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بنگالی نوجوان تھے جو پاکستان کے نام پر اپنی جوانیاں ہار گئے، اپنی دھرتی پر اجنبی اور غدار قرار پائے اور آج پاکستان میں قاتلوں کا گروہ کہلائے۔

اَلمناک حقیقت یہ ہے کہ ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کے بعد ڈھاکہ چھائونی کی حد تک، البدر سے متعلقہ تمام ریکارڈ ضایع کرنے کے بجائے صرف جنیوا کنونشن کی مراعات حاصل کرنے کے لیے بھارتی فوج کے حوالے کر دیا گیا اور پھر 31 دسمبر تک مکتی باہنی نے ان سرفروشوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اُتارا۔ جس کی المناک داستان سنانے والا ایک کردار آج بھی زندہ ہے شاہد شمسی۔

بنگلا دیش کی جنگ میں ہونے والی مبینہ 30 لاکھ ہلاکتوں کی تعداد کو بھی ’’ہولوکاسٹ ‘‘ کی طرح ایک مقدس دستاویز کا درجہ دے دیا گیا ہے جب کہ سوبھاش چندر بوس کی پوتی شرمیلا چندر بوس نے اپنی تازہ ترین کتاب میں پاکستانی فوج کے خلاف بے بنیاد الزامات کو تاریخی حقائق کی روشنی میں یکسر غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس کتا ب پر بنگلہ دیش میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

کون سوبھاش چندر بوس، آزاد ہند فوج کے سپہ سالار اور متحدہ ہندوستان کے پر وقار اور پرشکوہ نیتا جی! جن کے مجسمے آج بھی سنگا پور کے بعض پارکوں میں نصب ہیں۔ میرے ہیرو اور نیتا جی جو گاندھی کے مکر و فریب کے سامنے سیسہ پلائی دیوار تھے!

بلوچستان کا اصل مسئلہ آئین اور قانون کی علمداری کا ہے جس کا احترام سب پر فرض ہے لیکن بصد احترام عرض ہے کہ حالات کی یک رُخی منظر کشی کسی پر واجب نہیں خواہ وہ جواں سال اختر جان مینگل ہی کیوں نہ ہو!

وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے، پاکستان سے محبت کو جرم بنایا جا رہا ہے لیکن سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’خلا کبھی نہیں رہ سکتا، یہ اٹل قانون فطرت ہے۔‘‘ اگر پاکستان کی فوج نہیں ہو گی تو کوئی اور فوج آ جائے گی۔

منصفو، دانشورو، قلم کارو اور جانثارو فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔