- خشک دودھ کی درآمد پر پابندی، امپورٹ ڈیوٹی بڑھانے کا مطالبہ
- گندم اسکینڈل، کسانوں کا 10 مئی سے ملک گیر احتجاج کا اعلان
- جان بچانے والی 100 سے زائد دواؤں کی قلت پیدا ہوگئی
- اے ڈی بی؛ 100 ارب ڈالر کے اضافی فنڈز کے اجرا کا خیرمقدم
- نیپرا، اوور بلنگ پر افسران کو 3 سال کی سزا کا بل منظور
- ایشیائی اور بحرالکاہل کے ممالک معمر افراد کی فلاح و بہبود میں ناکام
- نیا قرض پروگرام، آئی ایم ایف مشن رواں ماہ پاکستان آئے گا
- پی ایس ایل کو مزید مسابقتی بنایا جائے گا
- تعریف کرنے پر حارث کوہلی کے شکرگزار، عامر سے سیکھنے کے منتظر
- موٹروے ایم نائن کے قریب ٹرالر اور وین میں تصادم، 3 مسافر جاں بحق
- دوستی نہیں ٹیم کا سوچیں
- ملک کو سنگین چیلنجز درپیش...انا پرستی چھوڑ کر مل بیٹھنا ہوگا!
- اسرائیل میں حکومت نے قطری نیوز چینل الجزیرہ کی نشریات بند کردی
- ایس ای سی پی نے پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کی تنظیم نو کی منظوری دے دی
- مسلم لیگ(ن)، پی پی پی کے درمیان پاور شیئرنگ، بلاول کی بطور وزیرخارجہ واپسی کا امکان
- تربیتی ورکشاپ کا انعقاد، 'تحقیقاتی، ڈیٹا پر مبنی صحافت ماحولیاتی رپورٹنگ کے لئے ناگزیر ہے'
- پی ٹی آئی نے 9 مئی کو احتجاج کا پلان ترتیب دے دیا
- گندم اسکینڈل؛ تحقیقاتی کمیٹی آج رپورٹ پیش کرے گی
- اے آئی ٹیکنالوجی نایاب عوارض کی قبل از وقت تشخیص کرسکتی ہے، تحقیق
- لِنکڈ اِن نے صارفین کے لیے گیمز متعارف کرا دیے
لمحہ فکریہ
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گزشتہ روز آرمی پبلک اسکول پشاور آمد پر شہید طلباء کے لواحقین نے جس ردعمل کا اظہار کیا ہے،وہ ملک کی سیاسی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی اور ان کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ عوام کے جذبات،مسائل اور ضروریات کو نہ سمجھنا یا انھیں اہمیت دینے کے بجائے اپنے خیالات و نظریات کو بالاتر سمجھنا ملک کا سیاسی کلچر بن گیا ہے۔ عمران خان نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ کبھی پروٹوکول کے ساتھ سفر نہیں کریں گے،یہ اچھی بات ہے،سیاستدانوں کو عوام کے جذبات کو سمجھنا چاہیے۔
دراصل پاکستان میں ایسا کلچر پروان چڑھا ہے کہ ملک میں کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو سیاستدان اپنے اپنے نمبر بنانے کے لیے پہلے مگرمچھ کے آنسو روتے ہیں، پھر لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے پہنچتے ہیں، اس ایکسر سائزکا مقصد صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہوتا ہے۔ یہ آئے روز کا کام ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اگر کہیں کسی غریب گھرانے کی بچی سے زیادتی ہو جاتی ہے تو حکمران وہاں پہنچتے ہیں،کوئی امدادی چیک دیتے ہیں اور اپنی تصاویر ٹی وی چینل پرچلوالے اور اخبارات میں چھپواتے ہیں،اس سیاسی کلچر نے پورے سسٹم کو زوال پذیر کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے سیاستدانوں نے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔ہر سیاسی اور مذہبی جماعت اپنا اپنا راگ الاپتی چلی آ رہی ہے۔
اخباروں میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں اور عملاً کچھ نہیں کیا جاتا‘اس کلچر سے معاملات کو زیادہ پیچیدہ اور مبہم بنایا۔ ہمارے سیاستدانوں اور دینی قیادت نے دہشت گردی کے حوالے سے عوام کی سوچ اور جذبات کو کبھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی اور بس اپنے نظریات یا مفادات کو سامنے رکھا۔ اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں،پاکستان میں پچاس ساٹھ ہزار افراد دہشت گردی میں شہید ہو چکے ہیں،ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں،یہ سب لوگ عوام کاحصہ ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے منتظر ہیں۔حقائق کو تسلیم کرنا ہی بڑائی ہے۔ سیاستدانوں اور دینی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ ان سے کہیں نہ کہیں غلطی ہوئی ہے۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی قیادت عوام کے جذبات کو سمجھیں،ان کے دکھ درد کو محسوس کریں،سیاست کا مقصد یہ نہیں کہ کوئی شخصیت ملک کی وزیراعظم بن جائے اور نہ کسی سیاستدان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ اقتدار اسے ملے،سیاست کا مقصد اقتدار میں آ کر عوام کے مسائل حل کرنا ہے،اب سیاستدانوں کو روایتی سیاست ترک کرنا ہو گی،ورنہ عوام کا ردعمل پشاور سے کہیں زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔